حالاتِ حاضرہ پر پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس

   
۔

پاکستان شریعت کونسل نے ملک میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کو تیز کرنے، سودی نظام کے خاتمہ، بڑھتی ہوئی عریانی و فحاشی کی روک تھام، این جی اوز کی اسلام دشمن سرگرمیوں کے تعاقب، دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ، افغانستان کی طالبان حکومت کی حمایت، مجاہدینِ کشمیر کی پشت پناہی، اور خلیج عرب سے امریکی افواج کی واپسی کے لیے مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے ملک کے تمام مکاتبِ فکر کی دینی جماعتوں سے رابطے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور نو ستمبر اتوار کو لاہور میں قومی دینی کنونشن طلب کر لیا ہے، جس میں مشترکہ جدوجہد کی عملی تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا اور مختلف مکاتبِ فکر کی جماعتوں کے رہنما خطاب کریں گے۔

یہ فیصلہ پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام دو روزہ ’’نفاذِ شریعت کنونشن‘‘ میں کیا گیا جو اکیس بائیس جولائی کو جامع مسجد مدنی لنگر بھوربن مری میں کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمٰن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ کنونشن کی مختلف نشستوں میں مندرجہ ذیل حضرات نے شرکت کی۔ مولانا قاضی عبد اللطیف (کلاچی)، مولانا زاہد الراشدی (گوجرانوالہ)، مولانا مطیع الرحمٰن درخواستی (خانپور)، مولانا سیف الرحمٰن درخواستی (روجہان)، مولانا عبد الرشید انصاری (کراچی)، مولانا ڈاکٹر سیف الرحمٰن آرائیں (حیدر آباد)، احمد یعقوب چوہدری (راولپنڈی)، قاری محمد اکرم مدنی (سرگودھا)، مولانا معین الدین وٹو (منچن آباد)، طاہر وٹو (عارف والا)، پروفیسر حافظ منیر احمد (وزیر آباد)، پروفیسر ڈاکٹر حافظ احمد خان (اسلام آباد)، مولانا قاری محمد یوسف ( ڈیرہ اسماعیل خان)، قاری جمیل الرحمٰن اختر (لاہور)، حافظ ذكاء الرحمٰن اختر (لاہور)، مخدوم منظور احمد تونسوی (لاہور)، مولانا عبد الرؤف فاروقی (لاہور)، میاں عصمت شاہ کاکاخیل (پشاور)، مولانا عبد العزیز محمدی (ڈیرہ اسماعیل خان)، مولانا محمد رمضان ثاقب (ڈیرہ اسماعیل خان)، مولانا محمد نواز بلوچ (گوجرانوالہ)، مولانا صلاح الدین فاروقی (ٹیکسلا)، حاجی جاوید ابراہیم پراچہ (کوہاٹ)، مولانا بشیر احمد شاد (چشتیاں)، مولانا حافظ مہر محمد (میانوالی)، مولانا حامد علی رحمانی (حسن ابدال)، مولانا محمد ادریس ڈیروی (اسلام آباد)، مولانا سخی داد خوستی (ژوب)، مولانا قاری محمد نذیر فاروقی (اسلام آباد)، مولانا عبد الخالق (اسلام آباد)، مولانا عبد الحلیم (اسلام آباد)، مولانا قاری محمد ایاز عباسی (اسلام آباد)، مولانا حافظ محمد فیاض عباسی (مری)، مولانا قاری سیف اللہ سیفی (مری)، راجہ محمد یونس طاہر ایڈووکیٹ (دھیرکوٹ)، مولانا محمد شعیب (ہری پور)، اور مولانا قاری محمد زرین عباسی (مری)۔ جبکہ کنونشن کی آخری عمومی نشست میں علاقہ کے سینکڑوں مسلمانوں اور علماء کرام نے بھی شرکت کی۔

کنونشن میں ملک کی عمومی دینی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور مختلف مقررین نے اس امر پر شدید تشویش اور اضطراب کا اظہار کیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بتدریج اس کے اسلامی تشخص سے محروم کر کے ایک سیکولر ریاست بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے لیے غیر ملکی سرمایہ سے چلنے والی این جی اوز سب سے زیادہ سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں اور انہیں ان سرگرمیوں میں ریاستی اداروں کی مکمل سرپرستی اور تعاون حاصل ہے۔

کنونشن میں ایک قرارداد کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ این جی اوز کی ان سرگرمیوں، حسابات اور ان کے بارے میں عوامی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا جائے، اور پبلک انکوائری کے ذریعے این جی اوز کو بے نقاب کیا جائے جو ملک کے اسلامی تشخص، قومی خود مختاری اور دینی اقدار کے خلاف کام کر رہی ہیں اور ملک میں صحیح کام کرنے والی این جی اوز کے لیے بھی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔

کنونشن میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے پاکستان کی قومی تجارت پر بتدریج کنٹرول حاصل کرنے کے اقدامات اور بڑے زرعی فارموں کے نام سے زمینوں کی خریداری کی اطلاعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اور مختلف مقررین نے کہا کہ اس طرح ملک کی تجارت اور زراعت کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے بین الاقوامی کنٹرول میں دیا جا رہا ہے اور ملک کو مکمل غلامی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ کنونشن میں ایک قرارداد کے ذریعے ملک کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں اور محبِ وطن حلقوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور غلامی کے اس نئے پروگرام کو روکنے کے لیے مزاحمت کریں۔

نفاذِ شریعت کنونشن میں اس صورتحال کو انتہائی افسوسناک قرار دیا گیا کہ ملک میں دستور مکمل طور پر معطل ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان نے چیف ایگزیکٹو کی شخصی وفاداری کا حلف اٹھا کر ملک میں شخصی حکومت کی بنیاد رکھ دی ہے، دستور میں ہر قسم کی ترمیم کا اختیار فرد واحد کو دے دیا گیا ہے، اور سرکاری کیمپ میں موجود این جی اوز کو مکمل طور پر سیکولر حیثیت دینے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ جس سے نہ صرف وفاق پاکستان کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں، بلکہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت اور اب تک کیے جانے والے نفاذِ اسلام کے اقدامات بھی خطرہ میں پڑ گئے ہیں۔

کنونشن میں مقررین نے کہا کہ قادیانی گروہ اور بین الاقوامی سیکولر بیان ایک عرصہ سے اس کوشش میں ہیں کہ دستور پاکستان میں موجود نفاذِ اسلام کی ضمانت، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی شقیں، اور تحفظ ناموس رسالتؐ کا قانون ختم کیا جائے، اور موجودہ صورتحال کو اپنے حق میں موڑنے کے لیے وہ پوری طرح مستعد اور متحرک ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ملک کے دینی حلقے اور خاص طور پر تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتیں اس صورتحال سے لاتعلق اور غیر متحرک نظر آ رہی ہیں، جو یقیناً ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔ کنونشن میں طے کیا گیا کہ اس صورتحال کی طرف دینی جماعتوں کو توجہ دلانے کے لیے رابطے کیے جائیں گے۔

کنونشن کے مقررین نے سودی نظام کے خاتمہ میں مزید ایک سال کی توسیع کو بھی افسوسناک قرار دیا، اور دینی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے عملی جدوجہد کریں۔

کنونشن میں جہادِ کشمیر کے بارے میں بعض دینی حلقوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کو مسترد کرتے ہوئے مجاہدینِ کشمیر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ اور ایک قرارداد کے ذریعے اس امر کا اعلان کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان شریعت کونسل کا موقف وہی ہے جو کشمیری عوام کا ہے کہ انہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے خود کرنے کا حق دیا جائے۔ اور اپنے اس جائز اور مسلّمہ حق کے حصول کے لیے کشمیری عوام کی جدوجہد شرعی جہاد کی حیثیت رکھتی ہے جس کی حمایت پاکستان کے دینی حلقوں اور عوام کی ذمہ داری ہے۔

کنونشن میں ایک قرارداد کے ذریعے سنی شیعہ کشیدگی کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کے لیے اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کنونشن میں طے پایا کہ مولانا فداء الرحمٰن درخواستی، مولانا قاضی عبد اللطیف اور مولانا زاہد الراشدی پر مشتمل وفد دینی جماعتوں کے راہنماؤں سے ملاقاتیں کرے گا اور نو ستمبر کے قومی دینی کنونشن سے قبل پانچ ستمبر کو راولپنڈی، چھ ستمبر کو فیصل آباد، سات ستمبر کو چنیوٹ اور آٹھ ستمبر کو گوجرانوالہ میں علاقائی دینی کنونشن منعقد ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ

   
2016ء سے
Flag Counter