گوجرانوالہ میں تین اپریل کو میراتھن ریس کے موقع پر پولیس اور مجلس عمل کے مظاہرین کے درمیان جو تصادم ہوا، اس پر ملک بھر میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے مختلف پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے، اس پر سب متفق ہیں کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے، مگر اس کے اسباب و محرکات اور ثمرات و نتائج پر متنوع خیالات سامنے آ رہے ہیں۔ ایم ایم اے کے گرفتار ایم این اے مولانا قاضی حمید اللہ خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ریس سے دو روز قبل ڈی پی او اور ڈی سی او دونوں کو بتا دیا تھا کہ ہمیں میراتھن ریس اور اس میں لڑکوں کی دوڑ یا لڑکیوں کی ان ڈور تفریحی سرگرمیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے، وہ ان میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔ مگر نوجوان لڑکیوں کی تین کلومیٹر تک جی ٹی روڈ پر دوڑ لگوانے پر انہیں اعتراض ہے اور وہ یہ دوڑ نہیں ہونے دیں گے، اس لیے کہ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور گوجرانوالہ جیسے مذہبی شہر میں اسے قطعاً برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ قاضی صاحب کے بقول ڈی پی او نے ان سے کہا کہ یہ اوپر کا حکم ہے، اس لیے وہ مجبور ہیں اور رکاوٹ ڈالنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ اس کے جواب میں قاضی حمید اللہ خان نے کہا کہ ہم آپ کے اوپر والوں سے بھی زیادہ اوپر والے کے حکم سے مجبور ہیں اور ہمارے ہاتھوں کو بھی آپ فولادی پائیں گے۔
شہر کے منتخب ایم این اے اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے درمیان اس چیلنج اور جوابی چیلنج کے بعد جو کچھ ہوا، وہ خلافِ توقع نہیں تھا۔ اس لیے کہ ڈی پی او کے پاس پولیس کی طاقت تھی اور قاضی حمید اللہ خان شہر کے عوامی نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ شاگردوں اور عقیدت مندوں کا ایک وسیع حلقہ شہر میں رکھتے ہیں۔ مگر ڈی پی او نے اپنے اس چیلنج کو تنہا نمٹانے کا فیصلہ کیا، جو ان کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا اور بے پرواہی کا مظہر تھا یا ایک وفاقی وزیر کا قریبی عزیز ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی طاقت پر کچھ زیادہ اعتماد تھا، اس لیے انہوں نے ضلعی انتظامیہ کے افسران میں سے بھی کسی کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہ کی اور اپنے طور پر اس معاملے سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرنا، حتیٰ کہ ڈی سی او اور ضلعی ناظم سے مشورہ کرنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ چنانچہ ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر اور ضلعی ناظم جناب فیاض چٹھہ کی طرف سے اس نوعیت کے بیانات اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں، جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اس تمام تر قضیے میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ حتیٰ کہ فیاض چٹھہ صاحب کی یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ میراتھن ریس میں شرکت کا دعوت نامہ جو غالباً انہی کے نام سے جاری کیا گیا تھا، خود انہیں ایک عام مہمان کے طور پر دیا گیا۔
اتفاق کی بات ہے کہ میراتھن ریس سے ایک روز قبل دو اپریل کو متحدہ مجلس عمل کی طرف سے ملک گیر ہڑتال کی اپیل کی گئی تھی، جسے ناکام بنانے کے لیے ضلعی پولیس یکم اپریل کو دینی مدارس کے ساٹھ کے لگ بھگ طلبہ گرفتار کر چکی تھی۔ یہ طلبہ جمعہ کی نماز مرکزی جامع مسجد میں میرے پیچھے ادا کر کے واپس جا رہے تھے کہ پولیس نے گھیرے میں لے کر انہیں گرفتار کر لیا، جبکہ اس وقت ان کا اس کے سوا کوئی قصور نہیں تھا کہ وہ جمعہ پڑھنے مرکزی جامع مسجد میں آئے تھے اور نماز جمعہ کے بعد اپنے اپنے مدرسوں میں واپس جا رہے تھے۔ ان میں بہت سے ایسے طلبہ بھی ہیں جو کبھی کسی تحریک یا جلوس میں شریک نہیں ہوئے، مگر انہیں راہ جاتے گرفتار کیا گیا اور بعد میں بعض مظاہروں کے سلسلے میں تھانہ کوتوالی میں درج مقدمات میں انہیں ”شریکِ جرم“ قرار دے کر گوجرانوالہ جیل میں بھجوا دیا گیا، جہاں سے اب انہیں پنجاب کی مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
ڈی پی او کا خیال تھا کہ اس کارروائی کے بعد میراتھن ریس میں کسی رکاوٹ کا امکان باقی نہیں رہا، اس لیے وہ بالکل مطمئن ہو کر اپنے انتظامات میں مصروف رہے۔ دوسری طرف قاضی حمید اللہ خان بھی ڈی پی او کے ساتھ چیلنج اور جوابی چیلنج کے اس مکالمے کے بعد خاموش نہیں بیٹھے اور انہوں نے اپنے دیگر شاگردوں اور عقیدت مندوں کو جمع کر کے پروگرام بنا لیا کہ وہ جی ٹی روڈ پر نوجوان لڑکیوں کی تین کلومیٹر لمبی دوڑ کو کسی قیمت پر نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنی منصوبہ بندی کر لی۔
خدا جانے ضلعی انتظامیہ کے ذہن میں یہ بات کیوں نہیں رہی کہ قاضی حمید اللہ خان اس سے قبل جی ٹی روڈ پر ایک سرکس کو نذر آتش کر چکے ہیں اور ضلعی انتظامیہ اس کیس میں تمام تر کوشش کے باوجود انہیں یا ان کے کسی ساتھی کو سزا دلوانے میں ناکام رہی ہے، اس کے باوجود ان سے رابطہ کرنے یا مذاکرات کے ذریعے افہام و تفہیم کی صورت میں مسئلہ حل کرنے سے ضلعی انتظامیہ نے اجتناب کیا، جس کے نتیجے میں وہ فساد رونما ہوا، جس کی صدائے باز گشت پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے اور جس کے اثرات کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
قاضی حمید اللہ خان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت میراتھن ریس کے موقع پر جناح سٹیڈیم کے اردگرد موجود تھے اور لڑکوں کی دوڑ ان کے سامنے سے گزری، جس میں انہوں نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ لیکن جونہی انہیں اطلاع ملی کہ نوجوان لڑکیوں کی ریس کا آغاز ہو گیا ہے، وہ سینکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ جناح سٹیڈیم کے مین گیٹ پر آ گئے، جس سے ان کا مقصد پُر امن طور پر دھرنا دینا تھا، مگر ڈی پی او نے انہیں روکا اور گفتگو کی بجائے دھمکیوں کا راستہ اختیار کیا۔ بعض عینی شاہدین کے بقول ڈی پی او نے قاضی صاحب کا گریبان پکڑنے کی بھی کوشش کی، جس سے معاملہ بگڑ گیا اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کی وہ صورت حال پیدا ہو گئی، جس کے نتیجے میں قاضی حمید اللہ خان ایم این اے اور ان کے بیٹے قاضی کفایت اللہ سمیت دونوں طرف سے بہت سے افراد زخمی ہوئے۔ سٹیڈیم میں بھگڈر مچ گئی، فائرنگ اور آنسو گیس شیل کا استعمال ہوا، پتھراؤ اور لاٹھی چارج ہوا، لڑکیوں کی ریس روک دی گئی اور سٹیڈیم میں ہونے والی سرگرمیاں افراتفری کا شکار ہو گئیں۔
اس سنگین واقعہ کے بارے میں قاضی حمید اللہ خان کا موقف ہے کہ ان کا اور ان کے ساتھیوں کا تصادم اور محاذ آرائی کا کوئی پروگرام نہیں تھا اور وہ صرف پر امن احتجاج اور دھرنے تک محدود رہنا چاہتے تھے، مگر ڈی پی او کے اشتعال انگیز رویے نے صورت حال کو بگاڑ دیا۔ دوسری طرف ڈی پی او کا موقف یہ ہے کہ قاضی صاحب حملے کی منصوبہ بندی کر کے آئے تھے اور انہوں نے پروگرام کے مطابق ہلہ بولا تھا، جسے روکنے کے لیے انہیں پولیس کی طاقت استعمال کرنا پڑی۔ اسی طرح اس موقع پر جناح سٹیڈیم سے باہر درجنوں گاڑیاں نذر آتش ہوئیں اور توڑ پھوڑ ہوئی، جس کے بارے میں ضلعی پولیس آفیسر کا موقف ہے کہ یہ سب کچھ قاضی صاحب کے ساتھیوں نے کیا، مگر قاضی صاحب اور ان کے رفقاء کہتے ہیں کہ یہ کارروائی ڈی پی او کی پلاننگ کا حصہ تھی اور پولیس کے سفید پوش اہل کاروں نے یہ حرکت کی۔
ان دونوں میں سے کس کا موقف درست ہے اور کون غلط کہہ رہا ہے، اس کا فیصلہ تو کسی کھلی عدالتی تحقیقات کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ اگر حکومت پنجاب اس میں سنجیدہ ہو تو ہائی کورٹ کے کسی جج کے ذریعے اوپن انکوائری کا اہتمام کر کے اس بات کو واضح کیا جا سکتا ہے کہ گوجرانوالہ شہر میں اس افسوسناک سانحہ کی اصل ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور تشدد اور توڑ پھوڑ کا ذمہ دار کون ہے؟ البتہ جس طریقے سے پولیس تشدد کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرائن و شواہد ڈی پی او کے خلاف جا رہے ہیں اور اوپن عدالتی انکوائری میں انہیں خود کو ان معاملات میں بری الذمہ ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔
مثال کے طور پر صرف ایک واقعہ پر غور کر لیں کہ اس تصادم کے موقع پر جامعہ محمدیہ اہلحدیث کا ایک طالب علم ابوبکر پولیس کے ایک افسر کی زد میں آ گیا، اس نے ابوبکر کو گولی ماری، جو اس کی ٹانگ پر لگی، وہ گر گیا تو مذکورہ پولیس آفیسر، جن کی نشاندہی ہو چکی ہے، اس کے سر پر کھڑا ہو گیا اور اس گرے ہوئے طالب علم کو پھر گولی ماری۔ قریب کھڑے بعض حضرات نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو مذکورہ پولیس افسر نے اسے اٹھانے نہ دیا اور بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ موت کے منہ تک پہنچ گیا۔ بعد میں اس طالب علم کو اہلحدیث یوتھ فورس کے نوجوانوں نے سنبھالا۔ وہ نوجوان اس وقت لاہور کے ایک ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔
اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مظاہرین کے خلاف پولیس کی یہ کارروائی اتفاق یا دفاعی نہیں تھی، بلکہ اس کے لیے پہلے سے ذہن سازی کی گئی تھی اور مظاہرین پر تشدد اور انہیں خوفزدہ کرنے کا ایک معیار پولیس اہل کاروں کے ذہنوں میں پہلے سے موجود تھا۔
قاضی حمید اللہ خان ایم این اے نے اپنے شہر میں جی ٹی روڈ پر نوجوان لڑکیوں کی تین کلومیٹر لمبی دوڑ کو روکنے کے لیے جو کچھ کیا وہ درست ہے یا نہیں، اس پر الگ طور پر بحث جاری ہے اور ہم بھی آئندہ کسی کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ اپنے موقف کا اظہار کریں گے، تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ قاضی صاحب کی اس جرأت رندانہ نے ملک بھر کے دینی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے اور دینی جماعتوں کے کارکن پہلے سے زیادہ حوصلے اور اعتماد میں نظر آ رہے ہیں۔ جس کا مظاہرہ میں نے خود ان اجتماعات میں دیکھا ہے، جو اس واقعہ کے بعد مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں علمائے کرام، دینی کارکنوں اور مختلف طبقات کے نمائندوں کی صورت میں منعقد ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر حکومتی حلقوں کی طرف سے دینی حلقوں کو ”تھریٹ“ کرنے کی یہ روش اسی طرح جاری رہی تو دینی حلقوں کو ایک نئی ملک گیر احتجاجی تحریک منظم کرنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔