اسلامی نظام کی برکات

   
جامعہ عربیہ، اشاعت القرآن، حضرو
۲۸ مئی ۲۰۱۳ء

(ختم بخاری شریف کی تقریب سے گفتگو کا دستیاب حصہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں مبارک باد دیتا ہوں سب سے پہلے ان طلباء کو جو درس نظامی کی تکمیل کر رہے ہیں اور دعاگو ہوں۔ یہاں پہلے بھی کئی بار حاضری کا اتفاق ہوا ہے لیکن وہ چہرے اب مجھے نظر نہیں آ رہے۔ حضرت مولانا قاری سعید الرحمٰن، مولانا محمد صابر، مولانا عبد السلام رحمہم اللہ تعالیٰ، یہ ان کا صدقہ جاریہ ہے، اللہ تعالیٰ قیامت تک اس سلسلہ کو جاری رکھیں۔ یہاں بیان میرے لیے ایک امتحان ہے لیکن مولانا ظہور الحق کا حکم ہے۔ یہ بڑے لوگ ہم چھوٹوں کو یوں ہی بڑا بناتے ہیں۔

ایک روایت آپ نے پڑھی، ایک روایت میں بھی پڑھتا ہوں اور ملک کے موجودہ حالات پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ آج ملک میں تبدیلیوں کی خواہش بھی ہے اور ہو بھی رہی ہیں، اللہ کرے کہ یہ ملک، دین اور قوم کے لیے بہتر ہوں۔ تبدیلیاں کیسے ہوتی ہیں اور ان کے اثرات کیا ہوتے ہیں؟ اس پر حضرت عدی بن حاتمؓ کی روایت ہے۔

حاتم طائی کا نام سخاوت کے لیے ضرب المثل ہے، جیسے حیا کے لیے حضرت عثمانؓ، اور غیرت کے لیے حضرت عمرؓ کا نام۔ یہ نام ان صفات کی علامت کے طور پر مشہور ہیں۔ حاتم طائی اہلِ حق میں سے تھے۔ پہلے بت پرست تھے، پھر عیسائی ہوگئے، جو حضورؐ سے پہلے اہلِ حق تھے۔ ان کی بیٹی حضرت سفانہؓ بھی صحابیہ ہیں۔ حاتم طائی کے بیٹے عدیؓ معمر صحابہ میں سے تھے۔ ایک روایت کے مطابق ایک سو پچاس سال عمر پائی۔

حضرت عدیؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، میں بھی موجود تھا۔ ایک آدمی آیا اور اس نے اپنے علاقہ میں فاقہ اور بھوک کی شکایت کی۔ تھوڑی دیر بعد دوسرا آدمی آیا اور اس نے اپنے علاقہ میں ڈکیتی اغوا اور قتل کی شکایت کی۔

ان دونوں کو حضورؐ نے بیٹھنے کا حکم فرمایا اور مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ عدی! تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ حیرہ کوفہ کے قریب ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا عدی! اگر تجھے عمر عطا کی گئی تو تم ایک منظر دیکھو گے کہ ایک خاتون حیرہ سے زیورات سے لدی ہوئی اکیلی مکہ مکرمہ آئے گی، دورانِ سفر اس کے دل میں خدا کے سوا کسی کا خوف نہیں ہو گا۔

حضرت عدیؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میرے دل میں خیال آیا کہ یہ کیسے ہو گا، حالانکہ راستے میں میری قوم کے بدمعاش بھی ہیں۔

پھر حضور اکرمؐ نے دوسری بات فرمائی کہ کسریٰ کے خزانے فتح ہوں گے اور یہاں مدینہ میں تقسیم ہوں گے۔

عدیؓ کہتے ہیں کہ اس پر میں نے سوال کیا کہ کون سے کسرٰی کی بات فرما رہے ہیں، ہرمز کے بیٹے کی؟

آپؐ نے فرمایا، ہاں!

پھر آنحضرتؐ نے تیسری بات فرمائی کہ تم ایک منظر اور دیکھو گے کہ لوگ سونا چاندی لے کر بازار جائیں گے کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا ہے تو مجھ سے زکوٰۃ وصول کر لے، لیکن تمہیں کوئی زکوٰۃ لینے والا آدمی نہیں ملے گا۔

محدثین فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات حضرت عدیؓ کو مخاطب کر کے فرمائی لیکن سنایا ان دونوں سوال کرنے والوں کو، کہ کچھ صبر کرو اس درجے کا امن ہوگا اور اس درجہ کی خوشحالی ہوگی۔

حضرت عدیؓ نے جب یہ واقعہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں سنایا تو فرمانے لگے کہ پہلی دو باتیں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں:

(۱) میں نے ایک خاتون کو دیکھا جو حیرہ سے زیورات سے لدی ہوئی اکیلی مکہ مکرمہ آئی اور حج کر کے اکیلی واپس گئی۔ پورے راستے میں اسے کہیں خدشہ نہ ہوا کہ کوئی مجھے لوٹ لے گا۔ بلا خوف پورا سفر کیا۔

(۲) اور کسرٰی کے خزانے مدینہ منورہ لائے گئے اور یہاں تقسیم ہوئے، بلکہ میں خود اٹھا کر لانے والوں میں شریک تھا۔

کتابوں میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ ان خزانوں میں کسریٰ کے کنگن تلاش کر رہے تھے کہ حضرت سراقہؓ کے لیے حضورؐ نے کنگن کا وعدہ فرمایا تھا۔ وہ کنگن کہاں ہیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ان میں نہ ہوں۔ حضرت عمرؓ کی ساری رات پریشانی میں گزری۔ صبح ایک سپاہی آیا، سلام عرض کیا اور کہا کہ مجھے تاخیر ہو گئی، یہ امانت میرے پاس ہے۔ دیکھا تو وہ کسریٰ کے کنگن تھے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے آسمان کی طرف دیکھا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری فوج کے سپاہی اتنے دیانت دار ہیں، اور فرمایا کہ ان کی دیانت پر یہ ملک چل رہا ہے۔ اس پر حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ یہ آپ کی ہی دیانت ہے جو سپاہی میں بھی ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری بات بھی حضرت عمرؓ کے دور میں پوری ہو گئی تھی، ہماری معیشت کی بنیاد دو کتابوں (۱) کتاب الخراج اور (۲) کتاب الاموال میں موجود ہے۔

2016ء سے
Flag Counter