(جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متقین کا پہلا وصف یہ بیان فرمایا ہے ’’الذین یومنون بالغیب‘‘ کہ متقین عالم غیب پر ایمان رکھتے ہیں، ان دیکھی چیزوں کو بھی مانتے ہیں۔ جو چیزیں نظر آتی ہیں اور محسوس ہوتی ہیں ان کو بھی مانتے ہیں، ان کو تو ہر آدمی مانتا ہے لیکن کائنات میں بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو نظر نہیں آتیں، نہ محسوس ہوتی ہیں اور نہ سمجھ آتی ہیں۔
مشاہدات، محسوسات اور معقولات انسان کے اختیار کے تین دائرے ہیں، لیکن کائنات بہت بکھری ہوئی ہے، ہر چیز نہ دیکھنے میں آتی ہے، نہ محسوس کرنے میں آتی ہے اور نہ سمجھ میں آتی ہے۔ جب کہ مومن کا پہلا وصف یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی بات پر یقین رکھتے ہوئے اَن دیکھی اور اَن سمجھی باتوں پر بھی ایمان لاتا ہے۔ یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا تو بس ٹھیک ہے۔ سمجھ میں آئے تب بھی اور سمجھ میں نہ آئے تب بھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات فرمائی ہے تو اس کو تسلیم کرے، چاہے نظر آ رہی ہو یا نظر نہ آ رہی ہو، سمجھ میں آ رہی ہو یا سمجھ میں نہ آ رہی ہو، یہ ایمان بالغیب ہے۔
آج کی دنیا میں جو شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں یا پیدا کیے جا رہے ہیں، جن کی بنیاد سائنس بتائی جاتی ہے، ان میں یہ ہے کہ جو چیز نظر نہیں آتی یا جو چیز محسوس نہیں ہوتی اس کا انکار کر دو۔ آپ آج کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ چیز کہاں ہے اور کیوں ہے؟ نظر تو نہیں آرہی، محسوس نہیں ہو رہی۔ اس بنیاد پر کہ نظر نہیں آرہی محسوس نہیں ہوتی تو انکار کر دیتے ہیں۔ حالانکہ بہت سی چیزیں ہمارے اردگرد موجود ہوتی ہیں، گھومتی رہتی ہیں لیکن ہمیں نظر نہیں آتیں، محسوس نہیں ہوتیں، لیکن ہم ان کا وجود تسلیم کرتے ہیں۔ اس پر ایک واقعہ مثال کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا۔
ایک مرتبہ ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا کہ کیا فرشتے موجود ہیں؟ میں نے کہا موجود ہیں۔ اس نے پوچھا کہاں ہیں؟ میں نے کہا ایک دائیں کندھے پر، ایک بائیں کندھے پر۔ اس نے کہا نظر تو نہیں آرہے اور محسوس نہیں ہو رہے۔ میں نے کہا کہ موجود ہونے کے لیے نظر آنا یا محسوس ہونا ضروری نہیں ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ موبائل تمہارے پاس بھی ہے اور میرے پاس بھی ہے۔ اس سے امریکہ میں بیٹھے دوست سے ویڈیو کال ہو جاتی ہے جس میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی باتیں سن رہے ہوتے ہیں۔ دیوار سے پیچھے تو ہمیں کوئی نظر نہیں آتا لیکن واشنگٹن میں بیٹھا ہوا شخص نظر آ جاتا ہے۔ دیوار سے ادھر بیٹھا ہوا آدمی مجھے نہیں سن رہا لیکن ٹوکیو میں بیٹھا ہوا سن رہا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جسے ہر کوئی تسلیم کرتا ہے۔ تو اس کا سورس کیا ہے؟ درمیان میں کوئی تار نہیں ہے، کوئی لنک نہیں ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ درمیان کا سورس بتاؤ کیا ہے؟ اس نے کہا سائنس کہتی ہے کہ فضا میں لہریں ہیں۔ لہریں آواز لے آتی ہیں اور لے جاتی ہیں۔ فضا میں موجود لہریں تصویر لے جاتی ہیں اور لے آتی ہیں۔
درمیان میں یہ بھی عرض کر دوں کہ لہریں اس آواز اور تصویر کو پہلے خلا میں لے کر جاتی ہیں پھر اسے واپس لاتی ہیں۔ آواز اور تصویر کو خلا میں لے جانے اور واپس لانے میں چند سیکنڈ درکار ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ لہریں موجود ہیں؟ اس نے کہا جی موجود ہیں۔ کام کر رہی ہیں؟ اس نے کہا جی کر رہی ہیں۔ جام بھی ہو جاتی ہیں؟ اس نے کہا جی! تو میں نے کہا ایک چیز موجود ہے، مسلسل چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہے، رک بھی جاتی ہے، کنٹرول بھی ہو جاتی ہے اور آزاد بھی ہو جاتی ہے۔ تو ان لہروں میں سے دو لہریں تم دکھا دو۔ چار فرشتے میں دکھا دیتا ہوں۔ اس لیے میں نے عرض کیا کہ کسی چیز کے موجود ہونے کے لیے اس کا نظر آنا ضروری نہیں ہے۔
میں ایک اور بات شامل کروں گا کہ یہ لہریں ماہرین کو محسوس ہو جاتی ہیں جو ان کو کنٹرول کرتے ہیں، کھول دیتے ہیں، کبھی جام کر دیتے ہیں۔ ان کو یہ لہریں کسی درجے میں محسوس ہوتی ہیں تبھی تو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کا کورس اور ڈپلومہ ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ فرشتوں کے نیٹ ورک کا بھی ایک کورس اور ڈپلومہ ہے۔ کچھ عرصہ اللہ والوں کے پاس گزارو، فرشتے بھی محسوس ہوں گے، لیکن اس کے لیے مہارت شرط ہے، تھیوری اور اس کے ساتھ پریکٹیکل شرط ہے۔
بہرحال قرآن مجید میں متقین کی پہلی صفت ایمان بالغیب بیان فرمائی گئی۔ ایمان بالغیب کا درجہ بھی ہے اور فضیلت بھی ہے۔ دیکھ کر ماننا تو ہوتا ہی ہے، لیکن بغیر دیکھے ماننا بھی ہوتا ہے۔ محسوس کر کے ماننا بھی ماننا ہی ہے، لیکن بغیر محسوس کیے ماننا بڑا ماننا ہے۔ سمجھ کر ماننا بھی ماننا ہے، لیکن بغیر سمجھے ماننا اصل ماننا ہے کہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا تب بھی مان لینا، اصل ماننا تو یہ ہے۔ اس پر ایک دو واقعات عرض کرنا چاہوں گا۔
بخاری شریف کی روایت میں ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک دفعہ سورج گرہن لگ گیا۔ چاشت کا وقت تھا اور اندھیرا چھا گیا۔ ایسے موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ یہ ہے کہ نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ کوئی بھی انجانا معاملہ ہوتا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ آندھی آ جائے، زلزلہ آ جائے، سورج گرہن لگ جائے، چاند گرہن لگ جائے، ہر موقع پر نماز کی ترغیب دی ہے۔ ہمارا تو اول آخر نماز ہی ہے۔
اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نماز پڑھیں گے۔ لوگ مسجد میں اکٹھے ہو گئے۔ روایات میں آتا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت لمبی نماز پڑھائی۔ جب تک سورج گرہن رہا آپ نماز میں ہی رہے۔ لمبا قیام، لمبا رکوع اور لمبا سجدہ فرمایا۔ حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ جب نماز پوری ہوئی، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا، خطبہ میں ایک بات کی وضاحت فرمائی۔ انہی دنوں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم بیٹے حضرت ابراہیمؓ کا انتقال ہوا تھا۔ لوگوں میں یہ بات پھیل گئی کہ سورج نے ابراہیم کا غم منایا ہے۔ انسانی فکر کی اپروچ یہیں تک ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو اس کی وضاحت فرمائی کہ سورج اور چاند اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہے۔ کسی کی زندگی اور موت سے انہیں کچھ نہیں ہوتا، ان کی اپنی روٹین ہے، کسی کی زندگی موت سے انہیں فرق نہیں پڑتا۔ اور فرمایا کہ جب بھی ایسا موقع آجائے تو نماز پڑھو۔ پھر فرمایا کہ ابھی میں نے جو نماز پڑھائی، نماز کے دوران اللہ تعالیٰ نے مجھے کچھ مناظر دکھائے۔
دو منظر مقتدیوں نے بھی دیکھے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیام میں قراءت فرما رہے تھے کہ اچانک ہاتھ کو آگے کی طرف بڑھایا جیسے کوئی چیز پکڑنا چاہ رہے ہوں اور پھر ہاتھ پیچھے کر لیا۔ صحابہ کرامؓ حیران تھے کہ ایسے کیوں کیا۔ تھوڑی دیر بعد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر پیچھے ہٹے، جیسے آدمی پر حملہ ہو تو گھبرا کر اچانک پیچھے ہٹتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے مجھے نماز میں دیکھا ہوگا کہ میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور پھر پیچھے کر لیا اور کچھ دیر بعد گھبرا کر پیچھے ہٹا۔ دراصل نماز میں اللہ رب العزت نے مجھے جنت اور دوزخ کے مناظر دکھائے ہیں۔ ’’فی عرض ھذا الحائط‘‘ اس دیوار کی سطح پر یعنی قبلے کی دیوار پر مجھے جنت بھی دکھائی ہے اور دوزخ بھی دکھائی ہے۔
میں اس کے ساتھ یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پہلے بہت سی باتیں سمجھ میں آنے والی نہیں تھیں لیکن اب سمجھ آ رہی ہیں۔ بہت سی باتیں آج سمجھ میں آنے والی نہیں ہیں لیکن ایک وقت آئے گا کہ یہ بھی سمجھ میں آجائیں گی۔ میں کہا کرتا ہوں کہ جلدی کس بات کی ہے ذرا انتظار کرو۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے ’’فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ۔‘‘ جس نے ذرہ برابر بھی خیر کا کام کیا وہ اسے دیکھے گا، جس نے ذرہ کے برابر شر کا کام کیا وہ اسے دیکھے گا۔ آج تک ہم اس میں مختلف توجیہات کرتے آرہے تھے کہ عمل تو گزر گیا تو آدمی کیا دیکھے گا؟ عمل کو کیسے دیکھے گا؟ اس لیے ہم توجیہات کیا کرتے تھے کہ عمل کا نتیجہ دیکھے گا، اپنے عمل کی خبر دیکھے گا۔ لیکن اب اس میں کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے کہ اپنے عمل کو کیسے دیکھے گا۔ اب تو ہم کوئی عمل کرتے ہیں تو خود کو دوبارہ وہ عمل کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک دفعہ کوئی کام کیا، ریکارڈ میں آگیا تو اسے جتنی بار مرضی ہے دیکھ سکتے ہیں۔ چاہے ہزار دفعہ دیکھیں کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ یا جیسے ہم نے ایک بات کی، ریکارڈ پر آ گئی تو اس بات کو جتنی مرتبہ مرضی ہے سن لیں، سننے کی کوئی تعداد متعین نہیں ہے۔ جس زمانے میں اپنے عمل کو دیکھنا سمجھ میں نہیں آتا تھا تو توجیہ کی ضرورت ہوتی تھی، اب کسی توجیہ کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حشر کے مناظر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی کو پیش کیا جائے گا۔ اس سے پوچھا جائے گا تم نے فلاں کام کیا تھا؟ وہ انکار کرے گا، حالانکہ فرشتوں نے لکھا ہوا ہے۔ ان سے پوچھا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ اس نے یہ کام کیا تھا۔ انسان اتنا ڈھیٹ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اللہ کی قسم اٹھا کر کہے گا ’’واللّٰہ ربنا ماکنا مشرکین‘‘ اے اللہ! تیری قسم میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس سے بڑی ڈھٹائی کیا ہو گی؟ اللہ تعالی فرمائیں گے ٹھیک ہے، یہ نہیں مان رہا تو اس کو خود کو عمل کرتا ہوا دکھاؤ۔ چنانچہ فرشتے اسے وہ عمل کرتا ہوا دکھائیں گے، جس پر وہ سر جھکا لے گا۔ کسی عمل کو اپنی آنکھوں سے خود کرتے ہوئے دیکھنا پچاس سال پہلے ہمارے ہاں اس کا تصور نہیں تھا۔ لیکن اب ہم عمل کرتے ہیں اور بعد میں اسے دیکھتے ہیں بلکہ دیکھتے رہتے ہیں۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس دیوار کی سطح پر جنت اور دوزخ کے مناظر دکھائے گئے۔ ان میں ایک منظر یہ تھا کہ جنت کے انگوروں کے گچھے میرے سامنے آگئے۔ میں نے پکڑنے کے لیے بے ساختہ ہاتھ بڑھایا۔ میرا جی چاہا کہ میں اس میں سے تمہیں چکھاؤں تاکہ تمہیں پتہ چلے کہ جنت کے انگور کیسے ہیں، لیکن میں نے انہیں چھوڑ دیا۔ جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں گھبرا کر پیچھے ہٹا ہوں تو اس وقت دوزخ کی آگ میرے سامنے آئی تھی تو میں گھبرا کر پیچھے ہٹا تھا۔ اسی موقع پر فرمایا کہ میں نے جہنم میں ایک عورت کو جلتے دیکھا ہے۔ اس لیے کہ اس نے ایک بلی رکھی ہوئی تھی جسے کھلاتی پلاتی نہیں تھی۔ ایک دن بلی کو کمرے میں بند کر کے کہیں چلی گئی، وہ بلی مر گئی تو اس کی سزا میں وہ جہنم میں جل رہی تھی۔
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مناظر بیان فرما رہے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا جب آپ کو جنت کے انگور دکھائے گئے تھے، آپ نے پکڑنے کا ارادہ بھی کر لیا تھا، ہمیں کھلانے کا موڈ بھی بنا لیا تھا اور ہاتھ بھی بڑھا لیا تھا تو پھر چھوڑ کیوں دیا؟ ایک گچھا ہمیں چکھا دیتے۔ اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے مزے کا جواب دیا۔ ارشاد فرمایا کہ میں نے اس لیے چھوڑ دیا کہ اگر میں انگور پکڑ لیتا، تمہیں چکھا دیتا اور تم جنت کا مزہ ایک دفعہ چکھ لیتے تو دنیا کی ساری نعمتیں تمہارے لیے بے لذت ہو جاتیں۔ اور چھوڑنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اب تو تم جنت کو میرے کہنے پر مانتے ہو۔ اگر تم چکھ کر مانتے تو کیا مانتے۔ تمہارے ایمان بالغیب کا درجہ قائم نہ رہتا، تمہارے ایمان کا گریڈ کم ہو جاتا۔ اب تو تم جنت کو مانتے ہو اس لیے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ بغیر دیکھے جنت کی ساری نعمتوں کو مانتے ہیں۔ چکھ کر مانا تو کیا مانا۔ ایمان بالغیب کا اپنا درجہ ہے کہ خبر پر ایمان لانا ہے۔ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور سب سے پکی خبر اللہ تعالیٰ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ ان سے زیادہ سچی خبر کس کی ہو سکتی ہے۔ اس پر ایمان ہونا چاہیے کہ انہوں نے جو فرمایا ہے وہ ہو کر رہے گا۔
ایمان بالغیب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ’’سنریھم ایاتنا فی الافاق وفی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق‘‘ ہم تم کو اپنی نشانیاں دکھاتے چلے جائیں گے آفاق میں بھی اور تمہارے اپنے نفسوں میں بھی، یہاں تک کہ تمہیں ماننا پڑے گا کہ یہی حق ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سائنس کا موضوع بیان فرمایا ہے۔ سائنس کائنات میں چھپی ہوئی چیزوں کو دریافت کرنے اور انہیں استعمال میں لانے کا نام ہے۔ قرآن مجید نے اس کا موضوع یہ بیان فرمایا کہ تم آفاق میں جو چیزیں دیکھو گے انہیں دیکھ کر مجھے ماننا پڑے گا۔
اور ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی پیشگوئیاں فرمائی ہیں۔ جن میں سے بہت سی پوری ہو گئی ہیں، بہت سی پوری ہو رہی ہیں اور باقی پوری ہو کر رہیں گی۔ ایک دفعہ لاہور میں سیمینار تھا۔ سیمینار کا موضوع یہ تھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں کی تطبیق کیسے ہوگی؟ میں نے کہا کہ ان کو ان کے وقت کے لیے چھوڑ دو، اپنے وقت پر پوری ہو جائیں گی۔ جب کہ بعض لوگ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر پیشینگوئی کو اپنے زمانے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ہر بات کو پورا کرنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ ہوگا، یہ نہیں فرمایا کہ تم کرو گے۔ میں نے ایک دفعہ اپنے استاد محترم سے سوال کیا کہ فلاں علامت کب پوری ہوگی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے ذمے اس کے آنے پر اسے مان لینا ہے، اسے لانا ہمارے ذمے نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی پیشگوئی فرمائی ہے کہ یہ ہوگا، تو جب وہ ہو جائے گا تو ہم نے اسے ماننا ہے، اسے کرنا ہمارے ذمے نہیں ہے۔ جبکہ ہم بسا اوقات کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
ان میں سے ایک فتنہ یہ بھی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے مہدی آئیں گے۔ وہ اپنے وقت پر آئیں گے، لیکن ہم ہر زمانے میں دو چار مہدی کھڑے کر دیتے ہیں۔ اس پیشگوئی پر کہ امام مہدی آئیں گے، امت میں کتنے مہدی کھڑے ہو چکے ہیں۔ مہدویت کے دوچار مدعی ہر زمانے میں رہے ہیں کہ میں مہدی ہوں۔ میں نے کہا کہ مہدی اپنے وقت پر ہی آئیں گے، ہماری بس اتنی ہی ذمہ داری ہے کہ ہم اس کی فکر کریں کہ جب امام مہدی آئیں گے تو ہم ان کے مقابل کھڑے نہ ہو بلکہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ہمارا بس اتنا ہی کام ہے۔ اس سے زیادہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ ہمیں یہ فکر ہو کہ اگر وہ ہماری زندگی میں آ جائیں تو ہم کہیں ان کے مقابل کھڑا نہ ہوں، بلکہ ان کے کیمپ میں کھڑے ہوں۔
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ ہمیں کبھی کبھی بہت جلدی ہوتی ہے کہ ہم ہر پیشگوئی کو اپنے دور میں پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں سے کھینچ تان کر لے آئیں۔ اس لیے میں نے عرض کیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں پیش گوئیاں ہیں۔ جن میں سے بہت سی پوری ہو گئی ہیں، بہت سی پوری ہو رہی ہیں اور بہت سی اپنے اپنے وقت پر پوری ہوں گی۔ ہمیں انہیں کھینچ کر لانے کی کوشش نہیں کرنی، بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ جب آجائیں گی تو ان پر ایمان لانا ہے۔
اسی حوالے سے یہ بات عرض کرتا ہوں کہ جب ہم نے تو دجال کے حوالے سے یہ حدیث پڑھی کہ دجال دنیا میں گھومے پھرے گا، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہو سکے گا، مدینہ کا محاصرہ کر لے گا۔ حدیث میں ہے ’’الملائکۃ یحرسون علی انقاب المدینۃ‘‘ مدینہ کی سرنگوں پر فرشتے پہرے دے رہے ہوں گے۔ میں نے پچپن سال پہلے یہ روایت پڑھی تو اس وقت مدینہ میں کوئی سرنگ نہیں تھی اور اب سرنگیں ہی سرنگیں ہیں۔ اس وقت مجھے سرنگ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مدینہ میں تو سرنگ ہے ہی نہیں۔ اب الحمد اللہ اس رمضان میں تین چار سرنگیں تو میں نے بھی عبور کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا رہوں گا حتی کہ تمہیں ماننا پڑے گا کہ یہی حق ہے۔
اسی طرح مشہور حدیث ہم سنتے رہتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں تیس اور ایک روایت کے مطابق ستر دجال کذاب ہوں گے۔ یعنی کل ستر ہوں گے ان میں بڑے بڑے تیس کذاب اور دجال ہوں گے جو نبوت کا دعوٰی کریں گے۔ ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ وہ دجال اور کذاب ہوں گے، ان کا دعویٰ دجل، فریب اور جھوٹ ہوگا۔ یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی ہے، اس کے مطابق بہت سے مدعیان نبوت آ چکے ہیں اور بہت سے ابھی آنے ہیں۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی پیشگوئیاں فرمائی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے خبر دینے پر فرمائی ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے خود دی تھی تو آپ نے پیشگوئی فرمائی کہ فلاں کام ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ یہ ہوگا تو لازماً ہوگا۔
ایمان بالغیب کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اَن دیکھی چیزیں مانتے ہیں۔ قرآن مجید اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے حالات کی جو پیشگوئیاں کی ہیں ان کو بھی بغیر دیکھے بغیر سمجھے مانتے ہیں، اور جن چیزوں کی موجودگی کا فرمایا ہے ان کو بھی اسی طرح مانتے ہیں۔
ایمان بالغیب کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر آنکھیں بند کر کے ایمان لایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی بات کہہ دی ہے تو ’’آمنا و صدقنا‘‘ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات ارشاد فرما دی تو ہمیں اسے کریدنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کیسے ہوگا، کیوں ہوگا، کب ہوگا۔ اپنے وقت پر ہوگا۔ ہم نہ وقت کے پابند ہیں، نہ کیفیت کے پابند ہیں، بلکہ ہم صرف ایمان لانے کے پابند ہیں۔ اصل بات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر ایمان لانا ہے۔
ساری تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ پر، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور فرمودات پر ایمان ہو۔ ایمان بالغیب کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات کہہ دی، آنکھیں بند کر کے اسے مان لیں۔ بہت سی چیزیں نظر آرہی ہوں گی، بہت سی نظر نہیں آرہی ہوں گی۔ کچھ محسوس ہو رہی ہوں گی، کچھ محسوس نہیں ہو رہی ہوں گی، کچھ سمجھ میں آرہی ہوں گی بہت سی سمجھ میں نہیں آئیں گی، بلکہ نظر آنے والی چیزوں سے نظر نہ آنے والی چیزیں زیادہ ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے۔
یہ ہے ’’الذین یومنون بالغیب‘‘۔ آج اس ایمان بالغیب کو پکا کرنے کی بہت ضرورت ہے کیونکہ آج کل ہم اس حوالے سے زیادہ شکوک و شبہات کا شکار ہو رہے ہیں کہ یہ بات سمجھ تو آ نہیں رہی۔ لہٰذا یہ کیسے ہوگا؟ اس پر میں عرض کرتا ہوں کہ کیا ہماری سمجھ معیار ہے؟ سمجھ میں نہیں آرہی تو کیا ضروری ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آرہی تو کسی اور کی سمجھ میں بھی نہ آ رہی ہو۔ دنیا میں سات آٹھ ارب انسان بستے ہیں۔ سب کی سمجھ برابر نہیں ہے۔ کوئی بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی اور کسی کی سمجھ میں آ رہی ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر بات ہر آدمی کی سمجھ میں آئے؟ اور سمجھ کا معیار زمانے کے اعتبار سے بھی مختلف ہے۔ بہت سی باتیں پچاس سال پہلے سمجھ میں نہیں آتی تھیں مگر آج سمجھ آ رہی ہیں۔ جیسا کہ میں نے چند ایک باتوں کا حوالہ دیا ہے اس لیے ہماری سمجھ معیار اور کسوٹی نہیں ہے۔ کوئی بات آج سمجھ میں نہیں آرہی تو پچاس سال بعد سمجھ آ جائے گی۔ جب سمجھ کا دائرہ اور لیول ایک نہیں ہے تو سمجھ معیار کیسے بن گئی؟ عقل کیسے معیار بن گئی؟ ایک آدمی کی عقل کا دائرہ اور ہے دوسرے کی عقل کا دائرہ اور ہے۔ کل کی عقل کا دائرہ اور تھا، آج کی عقل کا دائرہ اور ہے۔ اس لیے عقل کو معیار نہیں بنایا جا سکتا کہ جو بات سمجھ اور عقل میں نہ آئے اس کا انکار کر دیا جائے۔ عقل اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، لیکن عقل کسی بھی بات کو سمجھنے کے لیے ہے، فیصلہ کرنے کے لیے نہیں ہے۔ فیصلہ وحی کرتی ہے۔
الغرض اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے آغاز میں متقین کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ نظر آنے والی، محسوس ہونے والی چیزوں کو بھی مانتے ہیں۔ اور عالم غیب یعنی جو چیزیں محسوس نہیں ہوتیں، نظر نہیں آتیں لیکن وجود رکھتی ہیں، ان کو بھی مانتے ہیں۔ متقین عالم غیب پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
آخر میں ملک کی عمومی صورتحال پر اور گزشتہ دنوں جو واقعات ہوئے اس پر دو تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ سیاست نام ہی اختلاف، گروہ بندی اور جماعت سازی کا ہے۔ سیاست میں گروہ بندی بھی ہوگی، آمنے سامنے بھی ہوں گے، اختلاف بھی ہوگا، لیکن اختلاف کے کچھ دائرے ہوتے ہیں۔ اختلاف اختلاف ہو تو رحمت ہے، اختلاف جھگڑا اور مخالفت بن جائے تو رحمت نہیں رہتا۔ حکومت سے اختلاف ہو، فوج یا اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف ہو تو اختلاف کے کچھ تقاضے ہیں۔ اختلاف کرنا ہر ایک کا حق ہے، لیکن قومی تنصیبات کو نقصان پہنچانا کسی کا حق نہیں ہے۔ بالخصوص جو ہمارے ریاستی ادارے ہیں ان سے کسی کو ہزار اختلاف ہوں لیکن اپنی فوج کو دنیا کی نظر میں بدنام کریں، اس کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں کہ گھر میں ماں بھی ہے، باپ بھی ہے۔ باپ سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے، آپ اختلاف کریں، لیکن باپ کو دنیا کے سامنے ذلیل کریں یہ درست نہیں۔ ماں سے آپ کو سو اختلاف ہوں گے لیکن ماں کو دنیا کے سامنے رسوا کریں گے تو اس کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔
ہمارے ریاستی ادارے ہمارے قومی ادارے ہیں، ہماری عزت اور ہمارا وقار ہیں۔ اختلاف کو اختلاف کی حد تک رکھیں۔ بہت غلط بات ہے کہ ہم اختلاف میں کسی ادارے کو نشانہ بنائیں۔ اس لیے جو گزشتہ دنوں ہوا ہے بہت غلط ہوا ہے اور ملک کے لیے بدنامی کا باعث ہے۔ اس سے ملک کی عزت مجروح ہوئی ہے، اس لیے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اختلاف ضرور کریں لیکن قومی اور ریاستی اداروں کو ٹارگٹ نہ کریں اور قومی تنصیبات کو آگ لگا کر دشمن کو خوش نہ کریں۔
اس پر قرآن مجید سے ایک حوالہ عرض کرنا چاہوں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور سے واپس آئے تو دیکھا کہ قوم گائے کی پرستش میں پڑ گئی ہے۔ آپؑ نے آکر اپنے بھائی حضرت ہارونؑ کی داڑھی پکڑ لی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ حضرت ہارون علیہ السلام نے اس پر یہ جملہ کہا بھائی جان! ‘‘لا تشمت بی الاعداء‘‘ میری داڑھی پکڑ کر دشمنوں کو خوش نہ کریں، ہمیں اس طرح دیکھ کر دشمن خوش ہوگا۔ میں بھی آج یہی بات عرض کروں گا کہ کوئی ایسی حرکت جس سے دشمن خوش ہو، قابل قبول نہیں بلکہ قابل برداشت بھی نہیں ہے، اس لیے دشمن کو خوش نہ کریں بلکہ اپنے جھگڑے آپس میں رکھیں۔