بلال فاروقی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، السلام علیکم۔ ناظرین! میسج ٹی وی کے ساتھ آپ کا میزبان محمد بلال حاضر خدمت ہے۔
سوال: ناظرین! آپ نے دیکھا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے یورپ کے اندر دہشت گرد کاروائیوں کا ایک سلسلہ جاری ہے، اور بدقسمتی یہ ہے کہ اکثر اوقات ان دہشت گرد کاروائیوں کے پیچھے زیادہ تر مسلمانوں کا نام لیا جاتا ہے، اور حملہ آور اکثر ایسا ہوا ہے کہ مسلمان سامنے نظر آئے ہیں، تو کیا یہ ان کا حملہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ہے؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ تمام حملوں کے پیچھے مسلمان نہیں ہیں۔ میں یہاں پاپائے روم کی بات دہرانا چاہوں گا، پوپ فرانسس سے پوچھا گیا کہ دہشت گردی اور اسلام کا کیا تعلق ہے؟ انہوں نے کہا دہشت گرد ہر مذہب میں موجود ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے وہاں اظہار کرتے ہیں، اس لیے اسلام اور دہشت گردی کو جوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس حوالے سے میرا جواب بھی وہی ہے جو پاپائے روم کا ہے، پوپ فرانسس کا ہے۔
لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اکثر جگہوں پر مسلمان پیچھے دکھائی دیتے ہیں، یا دکھائے جاتے ہیں۔ دکھائی دیتے ہیں، یا دکھائے جاتے ہیں، وہ بھی ہے۔ اس میں، میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ ری ایکشن بھی ہو سکتا ہے، غلط یا صحیح کی بحث بعد میں کروں گا، لیکن یہ ری ایکشن بھی ہے اس عالمی رخ کا جو پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب نے اختیار کر رکھا ہے۔
اور مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں یہ طرز عمل اب اس قدر واضح ہو گیا ہے کہ ابھی حال میں امریکی کانگرس کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ نے بالکل صاف کہا ہے کہ ہمارے لیے وہ مسلمان جو شریعت پر یقین رکھتے ہیں، وہ قابلِ قبول نہیں ہیں، ان مسلمانوں کو قبول کیا جائے گا جو شریعت پہ یقین نہ رکھتے ہوں۔
کیا مطلب؟ معاشرے میں، یا اپنی زندگی میں، خاندانی زندگی میں اسلام کے احکام پر یقین نہ رکھتے ہوں وہ تو ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں۔ اور جو شریعت کے احکام پر، اس کی سوسائٹی میں عملداری پر، یا خاندانی ماحول میں عملداری پر یقین رکھتے ہیں، وہ مسلمان ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ بلکہ نیوٹ گنگرچ نے یہاں تک کہا ہے کہ ایسے مسلمانوں کو امریکہ سے نکال دیا جائے۔
میں عرض کرتا ہوں کہ جب مغرب اسلام کے بارے میں اور مسلمانوں کے بارے میں یہاں تک جائے گا، تو پھر اس کا ری ایکشن سنجیدہ لوگوں کی طرف سے سنجیدہ آئے گا، یہ فطری بات ہے، نیچرل بات ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں، ان کی بات کی تردید کی جائے گی، لاجک سے بات کی جائے گی۔ لیکن ہر سوسائٹی میں سارے لوگ سنجیدہ نہیں ہوتے، اگر کوئی انتہا پسند ذہن رکھتا ہے تو اس کا ری ایکشن بھی انتہا پسندانہ ہوگا۔ میرے خیال میں مغرب کو ری ایکشن پر سیخ پا ہونے کی بجائے ایکشن پر پہلے غور کرنا چاہیے۔
سوال: وہاں جب ایک حملہ ہوتا ہے اور مسلمان وہاں پر کوئی حملہ کرتا ہے تو ظاہر بات ہے وہاں کے لوگوں میں ایک غم و غصہ پایا جاتا ہے، اور ہر طبقے میں ظاہر بات ہے کہ جب ان کے اپنے عزیز اس طرح کے کسی حملے میں وفات پاتے ہیں تو ان کے اندر ایک غم غصے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، تو اس کے بعد وہاں کی جو کمیونٹیز ہیں ان کی طرف سے ایک رد عمل آنا شروع ہوتا ہے کہ وہ کسی حجاب والی لڑکی کو دیکھیں گے تو اس سے حجاب کھینچنے کی کوشش کریں گے، یا کسی مسلمان کو دیکھیں گے تو نسل پرستانہ جملے کہنا شروع کر دیں گے، گزشتہ کل کی بات ہے کہ ایک امام مسجد کو قتل کر دیا گیا۔ تو عام کمیونٹی کی طرف سے اس طرح کا جو ردعمل آتا ہے، اس طرح کے جو واقعات ہوتے ہیں ان کے بارے میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے، اس کے سدباب کا کیا طریقہ کار ہے؟
جواب: میرے خیال میں یہ بات کہنا کہ کمیونٹی کی طرف سے ایسا ہوتا ہے، میں اس کو (درست) نہیں سمجھتا، افراد کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ فرق ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ کمیونٹی کا ری ایکشن نہیں ہوتا، افراد کا ری ایکشن ہوتا ہے۔ اِدھر سے بھی افراد ہی ہیں، اِدھر سے جو نظر آتا ہے وہ بھی کمیونٹی کا کام نہیں ہے، افراد کا کام ہے۔ اُدھر سے بھی جو بات نظر آتی ہے وہ کمیونٹی کا کام نہیں، افراد کا کام ہے۔
میرے خیال میں کمیونٹی کا جو غالب اکثریت والا حصہ معاملات کو سمجھتے ہیں ان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنی آواز (بلند کرنی چاہیے)۔ وہاں مغرب میں تو اپنی بات کہنے کا، منظم کرنے کا، پیش کرنے کا موقع ہماری بنسبت زیادہ حاصل ہے۔ لابنگ کا سلسلہ ہے، وہاں میڈیا کا حوالہ ہے، وہاں بہت سے ان کو ذرائع میسر ہیں۔ یہ ہے کہ اپنے اندر نظم پیدا کریں۔ مسلمان اگر وہاں کے سسٹم کو سمجھ کر فائدہ اٹھانا چاہیں، اپنے اندر وحدت اور نظم پیدا کریں، اور تدبر اور حکمت کے ساتھ ان مسائل کو ڈیل کریں، تو میرا خیال ہے وہ لوگ کارنر ہو جائیں گے جو مسلمانوں کے خلاف وہاں اس قسم کی کارروائیاں کرتے ہیں۔
سوال: میں چاہتا تھا کہ اس کا ردعمل کیا ہوگا؟ کیا ردعمل پیش کرنا چاہیے جب اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں؟
جواب: قانون کے مطابق ان سے ڈیل کرنا چاہیے۔ قانون جو ان کو گنجائش دیتا ہے۔ قانون وہاں کا کسی کو نہیں کہتا …… اگر امام قتل ہوا ہے تو وہاں کی کمیونٹی کو متحد ہو کر یہ کیس لڑنا چاہیے۔ وہاں کی مسلمان کمیونٹی کو اتحاد، نظم اور تدبر کے ساتھ یہ کیس لڑنا چاہیے، اور آپس میں یکجہتی پیدا کر کے اس قسم کے مسائل کو فیس کرنا چاہیے اور کنٹرول کرنا چاہیے۔
بلال فاروقی: بہت شکریہ مولانا! ناظرین! ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں، ان شاء اللہ آئندہ پھر کسی پروگرام کے ساتھ کسی نئے موضوع کے ساتھ حاضر ہوں گے، اللہ حافظ۔