خواتین کو ورغلانے کی عالمی مہم

   
اپریل ۱۹۹۹ء

گزشتہ ہفتے ملک بھر میں خواتین کے حقوق کا دن منایا گیا اور مختلف شہروں میں تقریبات منعقد کر کے اس سلسلہ میں مطالبات دہرائے گئے۔ خواتین کے حقوق کی بحالی کا نعرہ مغرب سے درآمد شدہ ہے جس کا اصل مقصد عورتوں کو ورغلا کر گھریلو ذمہ داریوں سے بیزار کرنا اور اسی طرح خاندانی نظام کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں بیرونی سرمائے کی امداد پر چلنے والی این جی اوز مسلسل مصرفِ عمل ہیں، اور ان کا ایجنڈا ہی یہ ہے کہ

  • عورت اور مرد کے فرائض و حقوق کی جو تقسیم اسلام نے کی ہے اس کے خلاف عورت کی ذہن سازی کی جائے،
  • اور پاکستان کی خواتین کو ان شرعی قیود سے بغاوت پر آمادہ کیا جائے جن کے باعث ابھی تک ہمارے معاشرے میں فیملی سسٹم محفوظ ہے۔

حتیٰ کہ ایک این جی او سے تعلق رکھنے والی خاتون راہنما شیما کرمانی نے یہاں تک برملا کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی مرد اور عورت اپنی مرضی سے اکٹھے رہنا چاہیں اور باہمی جنسی تعلق استوار کرنا چاہیں تو اس کے لیے شادی اور نکاح کی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ایک نمونہ ہے اس مغربی فلسفہ کا جو یہ این جی اوز ہمارے ہاں رائج کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اور صرف این جی اوز نہیں بلکہ سرکاری اور قومی اداروں میں بیٹھے ہوئے بعض دانشور بھی اس فلسفہ کی ترجمانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ گزشتہ سال خواتین کے حقوق کے سلسلہ میں ایک سرکاری کمیشن نے سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کی سربراہی میں جو سفارشات پیش کی ہیں، اس میں واضح طور پر انہی تجاویز اور سفارشات کا اعادہ کیا گیا ہے جو ان این جی اوز کی طرف سے بار بار پیش کی جاتی ہیں، اور جو نکاح، طلاق اور وراثت کے بارے میں قرآن و سنت کے صریح احکام کے منافی ہیں۔

اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ دینی جماعتیں اور علمی مراکز اس سلسلہ میں بیداری کا مظاہرہ کریں۔ اور عالمی ذرائع ابلاغ، بین الاقوامی اداروں اور این جی اوز کی سرگرمیوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کے ازالہ کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter