بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے، حضورؐ کچھ بے تکلفی کے ماحول میں ٹیک لگا کے ذرا ٹانگیں پسار کر بیٹھے ہوئے تھے، جیسے آدمی بے تکلفی میں گھر کے ماحول میں بیٹھتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے، سلام کہا، وہ بھی ساتھ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے، اجازت لی، سلام کہا، بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز آئی، انہوں نے باہر سے اجازت مانگی، حضورؐ نے اجازت دی اور سمٹ کر بیٹھ گئے۔ مجلس ہوئی، جو بھی گفتگو وغیرہ کرنی تھی وہ کی، پھر سب چلے گئے۔
حضرت عائشہؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! میرے ابا جی آئے تھے، آپ کے خسر بزرگوار، آپ ویسے ہی بیٹھے رہے۔ عمرؓ آئے تھے، وہ بھی آپ کے خسر بزرگوار تھے، آپ ویسے ہی بیٹھے رہے۔ عثمانؓ تو داماد تھے، وہ آئے تو آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، یہ کیا ہوا؟ بات تو الٹ ہونی چاہیے تھی کہ وہ خسر تھے اور یہ داماد تھے۔
حضورؐ نے فرمایا، عائشہؓ! عثمان بہت حیا دار ہے، مجھے خدشہ ہوا کہ اس حال میں مجھے بیٹھے دیکھ کر کہیں واپس نہ چلا جائے، اس لیے میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
یہاں سے دو باتیں معلوم ہوئیں:
ایک حضرت عثمانؓ کی حیا، کہ وہ تو حیا کی علامت ہیں۔ ’’واصدقھم حیاء عثمانؓ‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا میں سب سے زیادہ حیادار کس کو قرار دیا ہے؟ حضرت عثمانؓ کو۔ ایک بات تو یہ ہے۔
ایک بات اور بھی ہے کہ ہمارے لیے اس میں سبق کیا ہے؟ ایک دوسرے کے مزاج کا خیال رکھنا چاہیے۔ حضرت عثمانؓ کی حیا کی فضیلت تو ہے ہی، لیکن کیا یہ بات نہیں ہے کہ جس آدمی کے مزاج کا پتہ ہو تو اس کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے اس کے مزاج کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ یہ بھی سنتِ رسولؐ ہے۔ ایک دوسرے کے مزاج کا لحاظ رکھیں گے اور اپنی مرضی نہیں کریں گے تو اس سے محبت میں اضافہ ہو گا، اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ اللھم صل علیٰ محمد۔