افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ پاکستان کیوں مجبور تھا؟

   
۲۷ نومبر ۲۰۰۱ء

سورۃ الشوریٰ کی آیت ۳۰ میں اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ تمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے جبکہ تمہاری بہت سی حرکتیں اللہ تعالیٰ درگزر کر دیتے ہیں۔ اسی طرح سورۃ فاطر کی آخری آیت میں کہا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اہل زمین کی ہر حرکت پر گرفت شروع کر دیں تو روئے زمین پر ایک کیڑا بھی رینگنے نہ پائے لیکن اللہ تعالیٰ اکثر معاملات کو مؤخر کر دیتے ہیں۔اس کا مطلب واضح ہے کہ انسانی سوسائٹی میں جو مصیبت اور پریشانی بھی آتی ہے وہ انسانوں کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے اکثر اعمال کو درگزر کر دیتے ہیں یا آخرت کے دن کے لیے مؤخر کر دیتے ہیں۔ اور صرف بعض باتوں کا اس دنیا میں مواخذہ فرماتے ہیں جس کے نتیجے میں انسانی سوسائٹی مشکلات و مصائب سے دوچار ہوتی رہتی ہے۔

اس قانون اور ضابطے کے بیان کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ روئے زمین پر انسان اس کائنات کے خالق و مالک کے احکام و قوانین کی جس قدر پابندی کرے گا اسی قدر فساد اور خرابی سے محفوظ رہے گا۔ اور جہاں وہ اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین سے ہٹ کر من مانی اختیار کرے گا یہ بات نہ صرف اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنے گی بلکہ اس سے سوسائٹی کے نظام میں بھی بگاڑ پیدا ہوگا اورا س بگاڑ کے اثرات پورے معاشرے پر مجموعی طور پر پڑیں گے۔ایک سادہ سی مثال سے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک مشینری بنانے والی فرم اپنی مشینری کو مارکیٹ میں بھیجنے کے ساتھ اس کا تعارف اور اس کے چلانے کے لیے ہدایات بھی بھجواتی ہے۔ اگر مشین کو ان ہدایات کے مطابق چلایا جائے گا تو صحیح چلتی رہے گی اور اگر چلانے والے ہدایات کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی سے مشینری کو چلانے کی کوشش کریں گے تو خرابیاں پیدا ہوں گی اور مشین صحیح طریقے سے کام نہیں کر پائے گی۔ انسانی سوسائٹی بھی ایک مشینری ہے جس کے پرزے انسان ہیں۔ ہم اس مشین اور اس کے پرزوں کو بنانے والے نہیں بلکہ استعمال کرنے والے ہیں۔ بنانے والی ذات اور ہے جس نے اس ساری کائنات کو بنایا ہے اور وہ اسے کنٹرول بھی کر رہا ہے۔ جبکہ ہمیں اس نے وحی الٰہی اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کے ذریعہ واضح ہدایات دی ہیں کہ انسانی معاشرہ کے اجتماعی نظم اور اس کے کل پرزوں کے طور پر انسانی افراد اپنے شخصی نظام کو بنانے والے کی ہدایات کے مطابق چلاتے رہیں گے تو یہ مشینری اپنے مقاصد کے لیے کام کرتی رہے گی ورنہ فساد رونما ہوگا اور خرابیاں پیدا ہوں گی۔

انسانی معاشرہ میں وقتاً فوقتاً رونما ہونے والے مصائب و مشکلات اور تکالیف و آلام میں خود انسانی اعمال کے سبب کے طور پر کار فرما ہونے کا ایک پہلو تو باطنی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان نافرمانیوں سے ناراض ہوتے ہیں اور جب ان کی ناراضگی بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو اس کا اظہار سزا و عذاب کے طور پر انسانی سوسائٹی کے کسی نہ کسی حصے میں ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر ظاہری اسباب کے حوالہ سے دیکھا جائے اور انسانی معاشرہ میں روز مرہ آنے والی مصیبتوں، آزمائشوں اور آفتوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی انسانی غلطی اور کچھ لوگوں کی کوئی نہ کوئی حرکت ضرور دکھائی دے جاتی ہے اور صاف طور پر بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ بحران اور المیہ فلاں غلطی اور حرکت کے نتیجے میں پیش آیا ہے۔

دور حاضر میں عالم اسلام کے دو بڑے المیوں کا بطور مثال ذکر کیا جائے تو ایک فلسطین کا مسئلہ ہے اور دوسرا افغانستان کے حوالہ سے پاکستان پر عالمی جبر کا معاملہ ہے جس نے حکومت کو اپنے ملک کے مفادات اور عوام کے جذبات کی پروا کیے بغیر افغانستان پر مغربی حملہ آوروں کا ساتھی بننے پر مجبور کر دیا۔ فلسطین کا مسئلہ ہمارے سامنے ہے کہ فلسطین کے عوام دربدر پھر رہے ہیں اور اسرائیل نہ صرف انہی کے علاقوں پر قابض ہو کر اسرائیلی ریاست قائم کر چکا ہے بلکہ اسرائیل کے اصل دائرہ سے باہر بھی انہیں ایک فلسطینی قوم کی حیثیت سے آزاد ریاست کے قیام کا حق دینے پر تیار نہیں ہے۔ فلسطینی اپنی آزادی اور آزاد ریاست کے قیام کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، ان کا قتل عام ہو رہا ہے لیکن عالمی سطح پر ان کی شنوائی اور داد رسی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔

مسئلہ فلسطین کی ابتداء کا جائزہ لیں تو یہ بات تاریخ کے ریکارڈ میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ آج سے ایک صدی قبل فلسطین میں یہودیوں کی کوئی آبادی نہیں تھی، فلسطین ترکی کی خلافت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا جبکہ عالمی یہودی تنظیم کے راہنما ترک خلفاء کے درباروں کا بار بار طواف کر رہے تھے کہ انہیں فلسطین میں بسنے کی اجازت دی جائے۔ مگر خلافت عثمانیہ اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ خلیفہ عثمانی سلطان عبد الحمیدؒ ثانی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ عالمی صیہونی تحریک کا لیڈر ہرتزل کئی بار اس سے ملا اور فلسطین میں جگہ خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر سلطان موصوف چونکہ اسرائیلی ریاست کے قیام کے سلسلہ میں یہودیوں کے عزائم سے آگاہ تھے اس لیے انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ خلافت عثمانیہ کے زیر کنٹرول کسی اور علاقے میں یہودیوں کو جتنی وہ چاہیں زمین بلامعاوضہ دی جا سکتی ہے لیکن فلسطین کی ایک انچ زمین بھی یہودیوں کو دینے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔ اسی کی پاداش میں سلطان عبد الحمیدؒ کے خلاف ترکی میں تحریک منظم کی گئی۔ سلطان نے لکھا ہے کہ اس کے لیے وہ لمحہ زندگی کا سب سے زیادہ صدمہ و حسرت کا لمحہ تھا جب اسے خلافت سے معزولی کا پروانہ دینے کے لیے وہ یہودی آیا جو چند سال قبل ہرتزل کے ساتھ سلطان سے فلسطین میں زمین حاصل کرنے کی درخواست لے کر آیا تھا۔

سلطان عبد الحمیدؒ معزول ہوگئے اور اس کے بعد آنے والے بعض خلفاء کو رام کر لیا گیا بلکہ رفتہ رفتہ خلافت کا نظام ہی ختم کر دیا گیا۔ اب یہودیوں نے فلسطین میں زمین کی خریداری کا کام شروع کیا تو کوئی ریاستی ادارہ اس کی روک تھام کے لیے موجود نہیں تھا۔ چنانچہ اس خلاء کو علماء کرام نے پر کیا اور آگے بڑھ کر یہ فتویٰ دیا کہ فلسطین کی زمین یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ میں نے اس فتوٰی کے بارے میں سن رکھا تھا مگر فتویٰ ریکارڈ میں مل نہیں رہا تھا۔ گزشتہ دنوں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی آخری تصنیف ’’بوادر النوادر‘‘ کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اس میں یہ فتویٰ مل گیا۔ یہ سوال ان سے بھی کیا گیا تھا اور اس پر ان کا فتویٰ ۱۳۵۳ھ کا جاری کردہ ہے یعنی اب سے کوئی ستر برس قبل۔ گویا یہی وہ دور تھا جب یہودی فلسطین میں وسیع پیمانے پر زمینوں کی خریداری کر رہے تھے اور فلسطینی دگنی تگنی قیمت کی لالچ میں اپنی زمینیں یہودیوں کو فروخت کر رہے تھے۔ اس پر علماء کرام نے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے فتویٰ صادر کیا کہ چونکہ فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا منصوبہ سامنے آچکا ہے اور زمین خرید کر وہ اس کے لیے بیس بنانا چاہتے ہیں اس لیے فلسطین میں یہودیوں کو زمین فروخت کرنا شرعاً حرام ہے۔ اس فتویٰ کو مولوی کی دیوانگی قرار دے کر نظر انداز کر دیا گیا اور فلسطینیوں نے دگنی تگنی قیمتوں پر اپنی زمینیں فروخت کر کے یہودیوں سے دام کھرے کیے جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

افغانستان کے مسئلہ میں حکومت پاکستان کی موجودہ پالیسی کو عالمی جبر کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ مگر اس بے بسی اور مجبوری کے اسباب کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں یہ بات سرفہرست دکھائی دیتی ہے کہ امیر ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیے ہوئے قرضے ہمارے لیے وبال جان بن گئے ہیں اور قرضوں کے اس خوفناک جال نے ہماری معیشت کے ساتھ ساتھ قومی پالیسیوں اور ملی مفادات کو بھی جکڑ لیا ہے۔ اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ہم شمال مغربی سرحد پر ایک دوست حکومت سے محروم ہو چکے ہیں بلکہ اس سے خود کو محروم کرنے کے عمل میں ہم خود بھی شریک ہیں۔ ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے خاتمہ کا بوجھ ہمارے کندھوں پر ہے اور افغانستان میں بیشتر علاقوں پر کنٹرول رکھنے والی حکومت کو ختم کر کے قبائلی کشمکش اور خانہ جنگی کا دور واپس لانے میں ہم بھی شریک ہیں۔

مگر اس سے قطع نظر اس کے ایک سبب بلکہ سب سےبڑے سبب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کچھ شریف لوگ اس وقت بھی ہمیں سمجھا رہے تھے، جب ہم قرضوں کے سہارے اپنی معیشت کا ڈھانچہ تشکیل دینے میں مصروف تھے، کہ قرضوں کے چکر میں نہ پڑو، اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلانا سیکھو اور تعیش و لگژری کا ماحول ختم کر کے اسلامی نظام اور خلفاء راشدینؓ کے طرز عمل کے مطابق سادگی و قناعت کا راستہ اختیار کرو۔ مگر سادگی کے اس سبق اور تلقین کو بھی سادگی پر محمول کر لیا گیا اور کہا گیا کہ یہ لوگ تو آج کے تقاضوں سے بے خبر ہیں، عالمی ماحول سے بے گانہ ہیں، اور جدید دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی سوچ سے محروم ہیں۔ اس بات کو بھی ایک لمحہ کے لیے بھول جائیے کہ یہ قرضے کن لوگوں نے حاصل کیے، کہاں استعمال ہوئے اور اب بھی مغربی ملکوں کے بینکوں میں کس کس کے اکاؤنٹ میں جمع ہیں۔ بلکہ یہ دیکھیے کہ ان قرضوں نے قوم کو بے بسی اور لاچاری کے کس مقام پر پہنچا دیا ہے؟ اور یہی مفہوم ہے سورۃ الشوریٰ کی آیت ۳۰ کا کہ

’’تمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter