دفاعِ پاکستان و افغانستان کونسل، ایک خوش آئند پیشرفت

   
۴ ستمبر ۲۰۰۱ء

۹ اگست کو اسلام آباد میں ’’دفاع افغانستان کونسل‘‘ کے اجلاس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے پاک افغان سرحد پر مانیٹرنگ ٹیموں کی تقرری کو پاکستان کی قومی خود مختاری کے منافی قرار دینے کا اعلان کیا تو اس موقع پر جنرل حمید گل نے اجلاس کے شرکاء سے کہا کہ یہ صرف افغانستان کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ اس لیے اسے صرف دینی جماعتوں تک محدود رکھنا درست نہیں ہے، بلکہ ملک کی سیاسی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلانی چاہیے اور اسے ایک قومی مسئلہ کے طور پر سامنے لانا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان اور افغانستان کی طویل اور پیچیدہ سرحد کے بارے میں مانیٹرنگ ٹیموں کے تقرر کا اعلان کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ اس سرحد کی مانیٹرنگ ممکن نہیں ہے، اس لیے ان کا مقصد اس کی آڑ میں کچھ اور ہے اور وہ پاک افغان سرحد کو مانیٹر کرنے کے عنوان سے اسلام آباد میں ڈیرے لگانا چاہتے ہیں، تاکہ وہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت، پاک چین سرحد کی صورتحال اور دیگر حساس اور نازک امور کو براہ راست واچ کر سکیں۔

چنانچہ جنرل حمید گل کی تجویز پر طے ہوا کہ ’’دفاع پاکستان کانفرنس‘‘ کے عنوان سے دینی اور سیاسی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے اور سلامتی کونسل کی مانیٹرنگ ٹیموں کی آمد سے پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے حساس معاملات کے حوالے سے درپیش خدشات و خطرات کے بارے میں مشترکہ قومی موقف اختیار کیا جائے۔ مولانا سمیع الحق مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس کانفرنس کے انعقاد میں زیادہ تاخیر کو روا نہیں رکھا اور صرف دو ہفتے کے وقفے سے ۲۶ اگست کو اسلام آباد میں ’’دفاع پاکستان کانفرنس‘‘ کے عنوان سے ایک نمائندہ اور بھرپور قومی محفل سجا لی۔

اس کانفرنس میں ’’دفاع افغانستان کونسل‘‘ میں شامل مختلف دینی جماعتوں اور جہادی تنظیموں کے رہنماؤں نے تو بہرحال شریک ہونا تھا، ان کے علاوہ جن رہنماؤں نے شرکت کی ان میں نوابزادہ نصر اللہ خان، جناب اعجاز الحق، راجہ ظفر الحق، جناب احسن اقبال، جاوید ہاشمی، آفاق احمد، حاجی محمد عدیل خان، مولانا محمد اعظم طارق، مولانا معین الدین لکھوی اور پاک افغان سرحد پر آباد قبائل کے چند سرکردہ زعماء بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ جبکہ میزبانوں میں مولانا سمیع الحق کے ساتھ جنرل حمید گل، مولانا قاضی عبد اللطيف، جناب لیاقت بلوچ، حافظ محمد ریاض درانی اور راقم الحروف بھی ان کے شریک کار تھے۔ مجموعی طور پر چالیس کے لگ بھگ جماعتوں اور تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی اور ایک مدت کے بعد یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ دینی اور سیاسی جماعتوں کے سرکردہ حضرات اکٹھے مل بیٹھے اور کسی مسئلہ پر قومی اتفاق کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ایک مشترکہ فورم کے قیام پر رضامند ہو گئے۔ اس سے اقوام متحدہ کی طرف سے پاک افغان سرحد کی مانیٹرنگ کے مسئلہ پر پاکستانی عوام اور ان کے نمائندوں کے جذبات و احساسات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے اقوام متحدہ اور امریکہ کے نمائندوں نے یقیناً اس کا صحیح اندازہ لگانے میں تاخیر نہیں کی ہو گی۔

مولانا سمیع الحق کی طرف سے خطبہ استقبالیہ پیش کیے جانے کے بعد کانفرنس کے پہلے مقرر نوابزادہ نصر اللہ خان تھے جو بڑھاپے، ضعف اور علالت کے باوجود بروقت تشریف لائے اور پاکستان کی قومی خود مختاری اور سالمیت کے تحفظ کے حوالے سے فکر انگیز گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تیسری دنیا اور خاص طور پر مسلم ممالک کے بارے میں امریکہ کی پالیسی یکساں طور پر معاندانہ ہے۔ امریکہ ان ممالک کی خود مختاری اور سالمیت کی پرواہ کیے بغیر ان پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے پر بضد ہے، اور افغانستان سے قبل عراق، اور اس سے پہلے لیبیا امریکہ کی اسی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں، اور اب پاکستان اور افغانستان اس جارحیت اور مداخلت کی زد میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح آج افغانستان کے کسی طیارے کو اپنے ملک کی سرحد سے باہر پرواز کرنے کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح عراق اور لیبیا پر بھی یہ پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ اور اس سلسلہ میں نوابزادہ صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ لیبیا کے مسلمانوں کو حج کے لیے مکہ مکرمہ آنے کے لیے بھی اپنے طیاروں پر پرواز کی اجازت نہیں تھی۔ اس دور میں ایک سال لیبیا کے وزیر خارجہ اپنے رفقاء کے ہمراہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لیبیا کے طیارے میں پرواز کر کے جدہ آ گئے اور حج میں شریک ہوئے۔ حج کے دوران منیٰ میں نوابزادہ نصراللہ خان سے لیبیا کے وزیر خارجہ کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ طیارہ پرواز کرنے سے قبل انہیں یقین تھا کہ اس طیارے کو ضرور راستہ میں مار گرایا جائے گا۔ اس لیے روانگی سے قبل وہ اپنا بریف کیس بھی ایئرپورٹ پر الوداع کے لیے آنے والی اپنی اہلیہ کے سپرد کر آئے ہیں۔

نوابزادہ صاحب نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر سلامتی کونسل کی مانیٹرنگ کی تقرری ہماری قومی خود مختاری کے منافی ہے اور اس سے قبل بھی افغانستان پر میزائلوں کے امریکی حملے کے موقع پر ہماری سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو چکی ہے۔ اس لیے ملک کے عوام اور دینی و سیاسی جماعتوں کو اس مسئلہ پر متحد ہو کر اپنی قومی خود مختاری اور سرحدات کا تحفظ کرنا چاہیے۔

کانفرنس کے مقررین نے فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام پر اقوام متحدہ کی خاموشی اور اپنے فیصلوں اور قراردادوں پر عملدرآمد کے بارے میں سلامتی کونسل کی بے حسی کا بطور خاص تذکرہ کیا، اور کہا کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا یہ دوہرا طرز عمل اور منافقانہ رویہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ اقوام متحدہ صرف اور صرف امریکہ کے مفادات کے لیے کام کر رہی ہے اور اس کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ ایک مقرر نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان اب تک تین بار کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کے بارے میں سلامتی کونسل کے فیصلے درست نہیں ہیں اور یہ مؤثر نہیں ہوں گے، لیکن اس کے باوجود سلامتی کونسل کو ان فیصلوں پر عملدرآمد پر اصرار ہے اور وہ امریکہ کے سامنے بالکل بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔

مجھے اس کانفرنس میں سب سے زیادہ خوشی ایم کیو ایم کے قائد جناب آفاق احمد اور اے این پی کے مرکزی رہنما حاجی محمد عدیل خان کی شرکت پر ہوئی، جنہوں نے اگرچہ بعض معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، لیکن قومی خود مختاری کے تحفظ اور پاک افغان سرحد پر سلامتی کونسل کی مانیٹرنگ ٹیموں کو مسترد کرنے کے نکتہ پر مکمل اتفاق کا اظہار کیا، اور قومی دفاع اور سلامتی کے مسئلہ پر دینی اور سیاسی جماعتوں کی وحدت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے مکمل حمایت و تعاون کا یقین دلایا۔

اس کے بعد میرے لیے خوشی کا دوسرا مرحلہ وہ تھا جب مولانا محمد اعظم طارق نے اعلان کیا کہ یہ قومی مسئلہ ہے اور اس مسئلہ پر کسی اجتماع میں تحریکِ جعفریہ کے سربراہ علامہ ساجد نقوی کی شرکت پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے، بلکہ اگر مولانا سمیع الحق کہیں تو آئندہ کسی اجلاس کے لیے وہ خود علامہ ساجد نقوی کے پاس جا کر انہیں دعوت دینے کے لیے تیار ہیں۔

بہرحال قومی سلامتی، دفاع اور خودمختاری کے تحفظ کے مسئلہ پر ملک کی دینی و سیاسی قوتوں کا یہ اتحاد جسے اب کانفرنس کے فیصلے کے مطابق ’’دفاع پاکستان و افغان کونسل‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے، جہاں پاکستان کے عوام کے لیے خوشی اور اطمینان کا موقع ہے، وہاں پاکستان پر اپنا ایجنڈا زبردستی ٹھونسنے کی خواہشمند قوتوں کے لیے بھی یہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان کے عوام اور ان کے مذہبی و سیاسی رہنما ملک و قوم کی وحدت و سالمیت اور خود مختاری کے تقاضوں سے غافل نہیں ہیں، اور پاکستان و افغانستان کے حوالے سے عالمی استعمار کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا اب اتنا آسان نہیں رہا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter