قائد جمعیۃ علماء اسلام مولانا مفتی محمود نے گزشتہ روز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور حکومت کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ کینیڈا نے کراچی کے ایٹمی بجلی گھر کے لیے ایندھن وغیرہ سے جو انکار کیا ہے وہ ہماری خارجہ پالیسی کی کمزوری کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی اتنی کامیاب نہیں جتنی کہ اس کی تشہیر کی جاتی ہے چنانچہ میں نے ایک موقع پر قومی اسمبلی میں خارجہ پالیسی پر بحث کرنا چاہی تھی مگر حکومت اس مسئلہ پر بحث سے گریزاں ہے۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۵ جنوری ۱۹۷۷ء)
مفتی صاحب کے اس بیان پر وفاقی وزیر اطلاعات محمد حنیف خان سیخ پا ہوئے ہیں اور روزنامہ امروز لاہور ۷ جنوری ۱۹۷۷ء کے مطابق:
’’وفاقی وزیر اطلاعات مسٹر محمد حنیف خان نے مفتی محمود کے بیان پر کڑی نکتہ چینی کی ہے جس میں مفتی صاحب نے حکومت پاکستان پر یہ الزام لگایا تھا کہ اس نے کینیڈا سے ایٹمی مواد حاصل کرنے کے لیے منفی رویہ اختیار کیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے مفتی محمود سے سوال کیا ہے کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کینیڈا کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے؟ مسٹر محمد حنیف نے کہا کہ مفتی محمود نے اس سلسلہ میں جو بیان دیا ہے وہ ان کے اپنے احساس کمتری کا مظہر ہے۔‘‘
اسے کہتے ہیں کہ ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ مفتی صاحب نے کب کہا ہے کہ پاکستان کو کینیڈا کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے چاہئیں، انہوں نے تو کینیڈا کی طرف سے ایٹمی مواد کی فراہمی سے انکار کو پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اور محمد حنیف خان صاحب کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ایٹمی مواد کی فراہمی سے کینیڈا کا انکار ایک الگ مسئلہ ہے، اور کینیڈا کی شرائط اور دباؤ کو قبول کرنے سے پاکستان کا انکار الگ مسئلہ ہے۔ بحث پاکستان کے انکار پر نہیں، کینیڈا کے انکار پر ہے۔ اور مولانا مفتی محمود نے یہی سوال اٹھایا ہے کہ حالات نے یہ رخ کیوں اختیار کیا کہ کینیڈا نے ایٹمی مواد فراہم کرنے سے انکار کر دیا، اس انکار کا پس منظر کیا ہے، اس کے محرکات و عوامل کیا ہیں، اور کیا کوئی بھی عقلمند شخص اس انکار کے پس منظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متحرک، مضبوط اور کامیاب قرار دے سکتا ہے؟
محمد حنیف خان صاحب کو چاہیے کہ وہ خلط مبحث کر کے عوام کو ذہنی خلجان میں مبتلا کرنے کی بجائے حقیقت پسندی کے ساتھ مولانا مفتی محمود کے سوال کا سامنا کریں اور عوام کو بتائیں کہ کامیاب اور متحرک خارجہ پالیسی کا دعویٰ کرنے والی حکومت پاکستان کینیڈا کو ایٹمی مواد کی فراہمی سے کھلم کھلا انکار سے باز کیوں نہیں رکھ سکی؟ رہی بات احساس کمتری کی تو اس کا مظہر مولانا مفتی محمود کا بیان نہیں بلکہ حکومت پاکستان کا رویہ ہے جو قومی اسمبلی میں خارجہ پالیسی کو زیر بحث لانے سے مسلسل گریزاں ہے اور جسے پارلیمنٹ میں بحث کی صورت میں خارجہ پالیسی کی کامیابی کے بارے میں پراپیگنڈا کے غبارے سے ہوا نکلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔