(اقبال بندھن ہال ترامڑی چوک اسلام آباد میں منعقدہ ’’اقصیٰ کنونشن‘‘ سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیت اہلِ سنت کا شکرگزار ہوں کہ مسجد اقصیٰ کی آزادی اور فلسطینی مظلوم بھائیوں کی حمایت کے لیے یہ پروگرام منعقد کیا ہے اور مجھے اس میں آپ حضرات سے ملاقات اور کچھ باتیں کہنے کا موقع دیا ہے۔ اصل خطاب تو ہمارے قائدین فرمائیں گے، حضرت مولانا عبد الغفور حیدری اور حضرت مولانا محمد احمد لدھیانوی تشریف لا رہے ہیں جو تفصیلی گفتگو کریں گے، میں ایک کارکن کے طور پر چند ضروری باتیں اس سلسلہ میں عرض کرنا چاہوں گا۔
(۱) پہلی بات یہ کہ ابھی چند دن پہلے ہماری دینی قیادت نے یہیں اسلام آباد میں اکٹھے ہو کر ایک فتویٰ دیا ہے جس پر ملک میں باتیں کی جا رہی ہیں کہ علماء کو جہاد کا فتویٰ دینا اب یاد آیا ہے؟ میں نے اس پر گزارش کی ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے، گذشتہ سال بھی اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں اسی نوعیت کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور انہی قائدین نے یہی باتیں کی تھیں جو اِس کانفرنس میں کی ہیں۔ ہمارے دینی قائدین مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت مولانا فضل الرحمٰن، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن، حضرت مولانا ساجد میر ، حافظ نعیم الرحمٰن مسلسل قوم کو اور امت کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاتے آ رہے ہیں کہ غزہ کا مسئلہ ہم سے کیا تقاضہ کر رہا ہے اور الحمد للہ قوم کے طبقات نے اس پر توجہ دی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جن کی یہ ذمہ داری بنتی تھی۔ اسلام آباد کی حالیہ کانفرنس دراصل پچھلے سال کی اس کانفرنس کا تسلسل ہے اور یہ دینی قیادتوں کی طرف سے کوئی نیا اعلانِ جہاد نہیں ہے بلکہ یہ فتویٰ حکمرانوں کو توجہ دلانے کے لیے ہے کہ وہ اہلِ فلسطین کے مسلمانوں کو ظلم سے بچانے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں، جبکہ یوں لگتا ہے کہ شاید وہ اب بھی اس طرف توجہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
میں تاریخ کا طالب علم ہوں اس لیے تاریخی حوالے سے کچھ گذارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ پہلے تو ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی مجاہدین کسی دوسرے ملک پر قبضہ کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں یا اپنے ملک کو غیروں کے قبضہ سے چھڑانے کے لیے غاصب قوتوں سے نبرد آزما ہیں؟ فلسطینی نہ مصر میں جنگ لڑ رہے ہیں، نہ امریکہ میں اور نہ برطانیہ میں، وہ تو اپنے وطن کو صیہونی حملہ آوروں سے بچانے کی جدوجہد میں برسرپیکار ہیں، جسے معروف اور سیاسی معنوں میں جنگِ آزادی کہتے ہیں۔ ہم نے بھی برصغیر میں جنگِ آزادی لڑی ہے، فلسطینیوں کو تو ابھی پچھتر سال ہوئے ہیں، یا اسرائیل کے قیام سے پہلے فلسطین میں یہودی آبادکاری کا دور بھی شامل کر لیں تو ایک صدی کا عرصہ بنتا ہے، جبکہ ہم نے برصغیر میں ۱۷۵۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک ایک سو نوے سال تک جنگِ آزادی لڑی ہے جس کے مختلف مراحل ہیں۔ اور یہ بات میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ جنگِ آزادی لڑنے والوں کی طرف سے جنگِ آزادی لڑنے والوں کو جو حمایت ملنی چاہیے تھی وہ نہیں مل رہی۔
میں اپنی جنگِ آزادی کے کچھ مراحل کا ذکر کرنا چاہوں گا کیونکہ آج کی صورتحال سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں آئی تھی اور اس نے ہماری تجارت اور معیشت پر کنٹرول حاصل کر کے یہاں کے حکومتی نظام میں مداخلت شروع کر دی تھی۔ اس کے خلاف پہلی جنگِ آزادی بنگال کے نواب سراج الدولہؒ نے ۱۷۵۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف لڑی تھی جسے جنگِ پلاسی کہتے ہیں۔ دوسری جنگِ آزادی سلطان ٹیپوؒ نے ۱۸۰۱ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے لڑی تھی جو جنگِ میسور کہلاتی ہے۔ یہ دونوں جنگیں ملکی نظام میں دخل اندازی کرنے والے بیرونی مداخلت کاروں کے خلاف لڑی گئی تھیں۔ اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں نے جب دہلی کا رخ کیا تو مغل حکمرانوں نے سراج الدولہ شہید اور سلطان ٹیپو شہید کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی سے مصالحت کر لی تھی۔ شاہ عالم ثانی نے مداخلت کار قوتوں کے ساتھ سودے بازی کر کے ان کو اقتدار میں شریک کر لیا تھا۔ اس پر شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے جہاد کا فتویٰ دیا تھا جس کا عنوان یہ تھا کہ چونکہ ریاست پیچھے ہٹ گئی ہے اور اس نے مداخلت کاروں کے ساتھ مصالحت کا راستہ اختیار کر لیا ہے اس لیے جہاد فرض ہو گیا ہے، فتاویٰ عزیزی میں یہ فتویٰ موجود ہے۔ چنانچہ اس کے بعد کی جنگیں حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے فتوے پر لڑی گئیں۔ بالاکوٹ کی جنگ، بنگال میں فرائضی تحریک کی جنگ، پنجاب میں احمد شاہ کھرلؒ کی جنگ، سندھ میں حروں کی جنگ ، اس لیے کہ جب ریاست نے اپنا کردار ادا کرنے سے گریز کیا تو پھر علماء کو میدان میں آنا پڑا۔
یہ تاریخی حقیقت ہمارے سامنے ہونی چاہیے اور یہ میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ آج بھی یہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ میں اس سے زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، صرف اپنے حکمرانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم شاہ عبد العزیزؒ کے کیمپ کے لوگ ہیں اور ان شاء اللہ العزیز ہم اپنا یہ کردار ادا کرتے رہیں گے۔
(۲) دوسری بات یہ کہ کیا غزہ کی جنگ صرف ڈیڑھ سال کی جنگ ہے یا پچھتر سال پرانی جنگ ہے؟ آزادی کے لیے لمبی جنگیں کوئی بڑی بات نہیں ہوتی لیکن اس سے پہلے کے چوہتر سال ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ چلیں اسی غزہ کی جنگ کی بات کریں تو اس کا نتیجہ جنگ بندی کے معاہدہ کی صورت میں سامنے آیا تھا جس پر عملدرآمد کا آغاز ہو گیا تھا اور ساری دنیا دیکھ رہی تھی کہ قیدیوں کا تبادلہ شروع ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کو سبوتاژ کس نے کیا ہے؟ اس وقت غزہ کی جنگ کی کمان امریکی صدر ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ صاحب جو کردار ادا کر رہے ہیں اس میں ہمارے ایک موقف کی تائید بھی ہے۔ ہمیں یہ سبق دیا جاتا تھا کہ یہ جنگ فلسطینیوں کی ہے، ہمیں اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن امریکی صدر کے طرز عمل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ صرف فلسطینیوں کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ امریکہ کی جنگ بھی ہے اور یورپی یونین کی جنگ بھی ہے۔
میرا اپنے حکمرانوں سے اور دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں سے سوال یہ ہے کہ تم یہ دوٹوک فیصلہ کر لو کہ ٹرمپ کے کیمپ میں ہو یا فلسطینیوں کے کیمپ میں ہو؟ ورنہ یہ وہی شاہ عالم ثانی والی بات ہو گی ۔ہم مداخلت کار قوتوں کے ساتھ حکمران قوتوں کی سودے بازی پہلے بھگت چکے ہیں، آئندہ بھی بھگتنے کے لیے تیار ہیں، اور صدر ٹرمپ نے اس کی جنگ کی کمان اپنے ہاتھ میں لے کر جو چیلنج دیا ہے ہم اسے قبول کرتے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(۳) تیسری اور آخری بات آپ سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا اور عالمِ غیب پر بھروسہ اپنی جگہ درست ہے لیکن ہمیں اسباب پر بھی توجہ دینا ہو گی کہ دنیا کے معاملے اسباب سے چلتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ملاحمِ کبریٰ کا آغاز ہو گیا ہے جس کا ذکر حدیث مبارکہ میں ہے، اور اس کا اختتام تب ہو گا جب لُد کے مقام پر حضرت مسیح ابن مریمؑ کے ہاتھوں مسیح دجال قتل ہو گا۔ اور لُد تل ابیب کا پرانا نام ہے۔ یہ جنگ کتنا عرصہ چلتی ہے اور کتنے مراحل سے گزرتی ہے، ہمیں اس سے گبھراہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اس حوالے سے ایک بات کہا کرتے تھے کہ ہمارے کام کی ذمہ داری اسباب کے دائرے میں ہے۔ فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو آسمانوں سے دمشق کی جامع مسجد کے مینار پر اتریں گے، یہ فجر کی نماز کا وقت ہو گا، حضرت مسیح ابن مریمؑ مینار پر آ کر آواز دیں گے کہ سیڑھی لاؤ تاکہ میں نیچے اتر سکوں۔ والد صاحبؒ کہتے تھے کہ آسمان سے آ گئے ہیں تو اب سیڑھی کیوں مانگ رہے ہیں؟ فرماتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ زمین کا نظام اسباب سے چلتا ہے، اوپر کا نظام عالمِ غیب ہے لیکن زمین کا نظام اللہ تعالیٰ نے اسباب کے تحت رکھا ہے۔
اس لیے ہمیں جنگ و جہاد اور جدوجہد کے تمام اسباب اختیار کرنے ہوں گے، معاشی بائیکاٹ بھی کرنا ہو گا، میڈیا کی جنگ بھی لڑنی ہو گی، سٹریٹ پاور کا مظاہرہ بھی کرنا ہو گا، سیاسی اور اخلاقی جدوجہد بھی کرنا ہو گی۔ یہ بات درست ہے کہ جنگ کا مطالبہ ہم انہی سے کریں گے جن کی ذمہ داری ہے۔ جہاد کا فتویٰ بھی انہی کے لیے آیا ہے اور ان شاء اللہ ہم ان سے اس وقت تک اس کا مطالبہ کرتے رہیں گے جب تک وہ میدان میں نہیں آتے۔ البتہ اس کے علاوہ جنگ کے جو باقی شعبے ہیں، میڈیا کی جنگ ہے، معاشی جنگ ہے، سیاسی جنگ ہے، ان کے لیے ہم نے اسباب اختیار کرنے ہیں اور میری ہر فرد اور ہر طبقے سے درخواست ہے کہ اپنے دل کو ٹٹولیں اور اپنے دائرہ کار کو دیکھیں کہ وہ اس سلسلہ میں کیا کر سکتے ہیں، اور جو کچھ ممکن ہو اس سے گریز نہ کریں، ورنہ قیامت کے دن پیشی ہو جائے گی، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں اور اپنا کردار صحیح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔