(مرکز مطالعہ خلافت راشدہ کے زیر اہتمام بعد نماز عصر ہفتہ وار نشست سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دورۂ عرب ممالک کے دوران ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کی جو آواز لگائی ہے اس سے پورے خطہ بلکہ عالمِ اسلام کے حالات میں نئی تبدیلیوں کے اثرات نظر آنے لگے ہیں اس لیے اس حوالہ سے کچھ گذارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
’’ابراہیمی مذاہب‘‘ کی بات خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی چل رہی تھی کہ مشرکینِ مکہ کے علاوہ یہودی اور عیسائی بھی اپنی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کرتے تھے جس کا قرآن کریم نے دو مقامات پر ذکر کیا ہے۔ ایک جگہ نفی کے انداز میں فرمایا کہ ’’ماکان ابراہیم یہودیاً ولا نصرانیاً ولٰکن کان حنیفاً مسلماً وما کان من المشرکین‘‘ (اٰل عمران ۶۷) ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ نصرانی اور نہ ہی مشرکین میں سے تھے بلکہ موحد مسلمان تھے۔ جبکہ دوسرے مقام پر مثبت انداز میں صراحت کی کہ ’’ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ وہذا النبی والذین آمنوا‘‘ (اٰل عمران ۶۸) ابراہیم علیہ السلام کے ساتھی یعنی ابراہیمی وہ تھے جو ان کے پیروکار تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والے ہیں۔
اس صراحت کے بعد اس سے ہٹ کر کوئی بات کہنے کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں تھی مگر کچھ عرصہ سے ’’ابراہیمی مذاہب‘‘ کو اکٹھا کرنے کی بات عالمی سطح پر جاری ہے جسے امریکی صدر ٹرمپ نے باقاعدہ مہم کی شکل دے دی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب کے درمیان ہم آہنگی اور اشتراکِ عمل کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کو ایک نظر دیکھ لیا جائے کیونکہ اس قسم کی پیشکشیں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہوئی تھیں اور آپؐ نے انہیں قبول کرنے سے فرما دیا تھا۔ آج کی گفتگو میں ان میں سے چند کا تذکرہ تین دائروں میں کروں گا کہ یہ پیشکشیں عقیدہ و ایمان کے دائرہ میں بھی تھیں، سیاسی اقتدار کے حوالہ سے بھی تھیں، اور شرعی احکام میں ردوبدل کے عنوان سے بھی تھیں۔
ایک موقع پر قریش کے سرداروں نے جناب ابو طالب کی موجودگی میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شرط پر مفاہمت کی پیشکش کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور توحید بیان کرتے رہیں مگر ہمارے معبودوں اور بتوں کے خلاف کچھ نہ کہیں تو ہم مزاحمت ختم کر دیں گے۔ دوسری بات یہ تھی کہ ہم ان کی عبادت میں شریک ہو جایا کریں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی بھی ہماری عبادت گاہوں میں آجایا کریں۔ اس موقع پر یہ پیشکش بھی ہوئی کہ (۱) آپ جتنی دولت کہیں ہم مہیا کریں گے، (۲) جس خاتون سے چاہیں گے شادی کرا دیں گے، اور (۳) سرداری کا تقاضہ کریں گے تو وہ بھی دے دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ساری پیشکشیں یہ کہہ کر مسترد کر دیں کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں۔
ایک اور موقع پر قریش کے سرداروں نے تقاضہ کیا جس کا تذکرہ قرآن کریم نے ’’ائت بقرآن غیر ہذا او بدلہ‘‘ (یونس ۱۵) کے عنوان سے فرمایا ہے کہ اس قرآن کی جگہ دوسرا قرآن لے آئیں یا اس میں ہمارے کہنے پر کچھ تبدیلیاں کر دیں۔ اس کا جواب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر دیا کہ مجھے قرآن کریم میں ردوبدل کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
ایک اور موقع پر معروف عرب سردار عامر بن طفیل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام بھیجا کہ تین باتوں میں سے ایک قبول کر لیں:
(۱) عرب علاقے ہمارے ساتھ تقسیم کر لیں، میدانی علاقے وہ سنبھال لیں اور شہری ہمارے حوالے کر دیں۔
(۲) اپنے بعد مجھے یعنی عامر بن طفیل کو اپنا خلیفہ اور جانشین نامزد کر دیں، ورنہ
(۳) جنگ کے لیے تیار ہو جائیں، میں لاکھوں کا لشکر لے کر ان کا مقابلہ کروں گا۔
یہ پیشکش ایک بڑے سردار کی طرف سے تھی مگر طاعون کی بیماری میں اس کی وفات کے باعث بات آگے نہ بڑھ سکی۔
جبکہ یہی پیشکش بنو حنیفہ کے سردار مسیلمہ کذاب نے کی جس کا ذکر بخاری شریف میں ہے کہ اس نے نبوت کے وعدے کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اشتراکِ عمل کی دعوت دی اور کہا کہ ’’اشرکت معک فی الامر‘‘ مجھے نبوت میں آپ کا شریک بنایا گیا ہے، اس لیے یا تو اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ نامزد کر دیں یا شہری علاقے آپ اپنے پاس رکھیں اور دیہاتی علاقوں کی حکومت و نبوت میرے حوالے کر دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسیلمہ نے وفد کے ذریعہ خط بھیجا اور ایک موقع پر خود بھی آ کر ملاقات کی مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار فرما دیا۔
کچھ اس قسم کی پیشکش فتح مکہ کے بعد طائف کے قبیلہ بنو ثقیف نے بھی کی اور قبیلہ کے سرداروں نے خود مدینہ منورہ حاضر ہو کر کہا کہ ہماری چند شرائط ہیں: (۱) ہمارے بت لات کو نہیں توڑا جائے گا (۲) ہم نماز کے اوقات کی پابندی نہیں کر سکیں گے (۳) شراب نہیں چھوڑیں گے (۴) سودی لین دین ترک نہیں کریں گے (۵) زنا چھوڑنا بھی ہمارے لیے مشکل ہو گا۔ ان شرائط کو قبول کرنے کی صورت میں ہم کلمہ پڑھنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ساری شرائط مسترد فرما دیں اور بنو ثقیف نے یہ شرطیں واپس لے کر کلمہ پڑھا اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔
سیرت نبویؐ کے یہ چند واقعات اس لیے عرض کیے ہیں کہ کافر قوموں کی شرطیں (۱) عقیدہ میں لچک کے حوالے سے ہوں (۲) احکامِ شریعت میں ردوبدل کے دائرہ میں ہوں، یا (۳) حکومت واقتدار میں شرکت حوالے سے ہوں، انہیں قبول کرنے اور اس قسم کی شرائط کے ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری اور اشتراکِ عمل کا ماحول پیدا کرنے کی شریعتِ اسلامیہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور مسلم حکمرانوں کو بہرحال اس کا لحاظ رکھنا ہو گا ورنہ وہ مسلم امہ کی قیادت کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔