’’لا الٰہ‘‘ کے ساتھ ’’الا اللہ‘‘ کی ضرورت

   
۳۱ دسمبر ۲۰۱۵ء

سعودی عرب کے مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ داعش اسرائیلی فوج کا حصہ ہے اور ان خوارج کی ہی ایک شکل ہے جنہوں نے قرنِ اول میں اسلامی خلافت کے خلاف بغاوت کر کے ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا تھا۔ شیخ محترم نے اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلم ممالک کا فوجی اتحاد داعش کو کچلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

داعش اسرائیلی فوج کا حصہ ہے یا نہیں یہ ایک بحث طلب بات ہے، مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ داعش نے طور طریقے وہی اختیار کر رکھے ہیں جو امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف بغاوت کرنے والے خارجیوں نے اپنائے تھے اور ایک عرصہ تک وہ مسلمانوں کا ہی خون بہاتے رہے۔ جہاں تک ۳۴ مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کا تعلق ہے اس کی کوئی واضح عملی شکل ابھی تک سامنے نہیں آئی، البتہ اس سے یہ توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں کہ وہ داعش اور اس طرز کے دیگر دہشت گرد گروہوں کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو جائے گا جو اسلام کے نفاذ کے نام پر بہت سی مسلم حکومتوں کے خلاف ہتھیار بکف ہیں اور تکفیر و قتال کے نام پر زیادہ تر مسلمانوں کو ہی قتل و قتال کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ مسلم ممالک کا کوئی اتحاد سیاسی ہو، معاشی ہو، صنعتی ہو، تہذیبی ہو یا عسکری ہو، خود ہماری خواہش چلا آرہا ہے بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے بہت سے حلقے اس کے لیے آواز بھی اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن کیا سعودی عرب کی قیادت میں قائم کیا جانے والا یہ اتحاد عالمِ اسلام کی اس خواہش کو پورا کر سکے گا؟ آج کی گفتگو میں ہم اس کا مختصر جائزہ لینا چاہتے ہیں۔

مسلم حکومتوں کا ایک مشترکہ فورم اس سے قبل بھی ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘ (او آئی سی) کے نام سے موجود ہے جس کے مختلف سطحوں پر اجلاس وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی خواہش اور توقع تھی کہ کم و بیش تمام مسلم حکومتوں کا یہ مشترکہ فورم عالمِ اسلام کی وحدت، مسلم ممالک کی ترقی اور اسلام کے خلاف مسلسل رونما ہونے والی عالمی سازشوں کے سدباب کے لیے کوئی مؤثر کردار ادا کرے گا۔ لیکن یہ خواہش ابھی تک خواہش کے درجہ میں ہی ہے اور اس کے عملی شکل اختیار کرنے کے دور دور تک کوئی آثار سرِدست دکھائی نہیں دے رہے۔ حتیٰ کہ پچاس سے زائد مسلم حکمرانوں کا یہ فورم اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے خلاف مغربی استعمار کے اس تہذیبی، عسکری، معاشی اور نفسیاتی دباؤ کو کم کرنے میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکا جو میڈیا، لابنگ اور فنڈنگ کے ذریعہ مزید پھیلتا جا رہا ہے، اور مرعوبیت کا ایسا ماحول عالم اسلام پر مسلط کر دیا گیا ہے جس نے بہت سے مسلم ممالک کی خود مختاری کو بھی مشکوک و شبہات کے دھندلکوں میں گم کر دیا ہے۔

ملتِ اسلامیہ کی اصل ضرورت عالمی سطح کی مضبوط سیاسی قیادت ہے جو خود مسلمانوں کے جذبات و مفادات کی نمائندگی کرتی ہو اور اندرونی و بیرونی سازشوں کے موجودہ حصار سے امتِ مسلمہ کو نکالنے کا حوصلہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔ اب سے ایک صدی پہلے تک خلافتِ عثمانیہ کی صورت میں اس عالمی قیادت کا احساس کسی نہ کسی درجہ میں موجود تھا اور اس کی افادیت بھی بہرحال قائم تھی۔ اگرچہ خلافتِ عثمانیہ کو ’’یورپ کا مردِ بیمار‘‘ کہا جاتا تھا لیکن جب تک یہ ’’مردِ بیمار‘‘ سامنے دکھائی دیتا رہا مسلمانوں کی امیدوں اور حوصلوں کا چراغ جلتا رہا، مگر اس کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی امتِ مسلمہ خلفشار اور مایوسی کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق خلافتِ عثمانیہ کے بعد سعودی عرب کی حکومت قائم ہوئی تو شاہ عبد العزیز آل سعودؒ کو سرکردہ علماء کرام کے ایک وفد نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ آپ مملکت کی بجائے خلافت کا اعلان کر دیں تاکہ یہ خلا کسی حد تک پر ہو جائے، مگر یہ تجویز قبول نہ کی گئی۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ تجویز قبول کر لی جاتی تو گزشتہ ایک صدی کے دوران خلافت کے نام پر جتنے فتنے کھڑے ہوئے ہیں ان سے بچا جا سکتا تھا اور خلافت کے مقدس ٹائٹل کو بہت سے طالع آزماؤں کا تختۂ مشق بننے سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔

جبکہ ہمارے نزدیک آج بھی اس مسئلہ کا حل یہی ہے کہ سعودی عرب، پاکستان، ترکی، مصر یا کوئی بھی بڑا مسلم ملک خلافت کے ٹائٹل کے ساتھ امتِ مسلمہ کو عالمی قیادت فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کرے اور خلافت کی غیر موجودگی سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے ختم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ ایک واقعی ضرورت کو صحیح طریقہ سے پورا نہ کیا جائے تو اسے غلط طریقہ سے حصول مقصد کا ذریعہ بنانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس لیے ۳۴ مسلم ملکوں کے فوجی اتحاد سے ہم یہ درخواست کریں گے کہ وہ اپنے اس اتحاد کو صرف منفی اہداف تک محدود رکھنے کی بجائے اسے مثبت رخ فراہم کریں۔ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ خلافت کے ٹائٹل کو دہشت گردوں کے ہاتھوں سے چھین کر اس کا پرچم خود سنبھالیں ورنہ خلافت کے نام پر فتنے کھڑے ہوتے رہیں گے اور اس مقدس عنوان کو کسی بھی دہشت گردی کا ذریعہ بننے سے روکا نہیں جا سکے گا۔ ’’لا الٰہ‘‘ کے بعد ’’الا اللہ‘‘ ضروری ہوتا ہے اس کے بغیر کلمہ مکمل نہیں ہوتا۔ صرف لا الٰہ کا ورد تو پون صدی تک روس بھی کرتا رہا ہے لیکن اب ہمیں لا الٰہ کے ساتھ الا اللہ کا نعرہ بھی لگانا ہوگا۔ وقت کا تقاضہ یہی ہے، اسی میں ہمارے دکھوں کا مداوا ہے اور یہ پوری نسلِ انسانی کے محفوظ مستقبل کی نوید بھی ہے۔ مسلم حکمرانوں سے تو شاید اس کی توقع نہ کی جا سکے مگر علمی و فکری قیادت تو راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے سکتی ہے، اور ہم فضیلۃ الشیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ تعالیٰ سے اس سلسلہ میں پیشرفت کی درخواست کر رہے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter