گوجرانوالہ کے دینی مدارس پر بلاجواز چھاپے

   
۲۶ مئی ۲۰۱۱ء

جمعرات ۲۶ مئی کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت دینی مدارس کے منتظمین کا علاقائی اجتماع ہو رہا ہے، جس کا فیصلہ گزشتہ روز مرکزی جامع مسجد ہی میں علماء کرام کے ایک اجلاس میں کیا گیا۔ اس اجلاس میں راقم الحروف شریک تھا، مگر جمعرات کے اجتماع میں شریک نہیں ہو سکے گا، اس لیے کہ میں نے اس دن کا دارالعلوم تعلیم القرآن باغ، آزاد کشمیر کے سالانہ جلسے کے لیے وعدہ کر رکھا ہے اور اس موقع پر میں گوجرانوالہ میں موجود نہیں ہوں گا۔

گزشتہ دنوں ضلع گوجرانوالہ کے قصبے تتلے عالی میں وفاق المدارس کی ایک شاخ جامعہ حفصہؓ میں پولیس کے چھاپے سے پیدا شدہ صورت حال نے ضلع بھر کے دینی حلقوں میں اضطراب کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے، جس کا جائزہ لینے کے لیے دو روز قبل علماء کرام اور دینی راہ نماؤں کا ایک اجلاس ہوا، جس میں راقم الحروف ہی کی تجویز پر یہ طے پایا کہ اس سلسلے میں وفاق المدارس کی قیادت سے رابطہ کیا جائے اور اس کی راہ نمائی میں کوئی پروگرام وضع کیا جائے۔ ضلع گوجرانوالہ میں وفاق المدارس کے مسئول اور ذمہ دار دو بزرگ ہیں، مدرسہ اشرف العلوم باغبانپورہ کے مہتمم مولانا محمد نعیم اللہ صاحب اور جامعہ قاسمیہ کے مہتمم مولانا قاری گلزار احمد قاسمی صاحب، ان میں سے آخر الذکر اس اجلاس میں موجود تھے اور اجلاس کی صدارت بھی وہی کر رہے تھے۔ انہوں نے فون پر وفاق المدارس کے مرکزی ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری سے رابطہ کر کے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا، جس پر قاری صاحب نے انہیں بتایا کہ وہ ۲۶ مئی جمعرات کو گوجرانوالہ آ رہے ہیں، اس موقع پر دینی مدارس کے ذمہ دار حضرات کا علاقائی سطح پر اجتماع رکھ لیا جائے، تاکہ باہمی مشاورت سے کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے۔

جامعہ حفصہؓ تتلے عالی طالبات کا مدرسہ ہے، جہاں وفاق المدارس کے نصاب و نظام کے تحت بچیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور بہت سی بچیاں مدرسے میں قیام پذیر ہیں۔ مدرسے کے مہتمم مولانا اسامہ زیدی مدرسہ کے ساتھ متصل مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ مذکورہ بالا اجلاس میں تتلے عالی کے ذمہ دار علماء کرام کی بیان کردہ تفصیلات کے مطابق ۱۸ مئی کو رات دو بجے کے لگ بھگ پولیس کی بھاری نفری نے، جو کم و بیش تیس گاڑیوں میں وہاں پہنچی، مدرسے کو گھیرے میں لے لیا اور مدرسے کی عقبی دیوار کے ساتھ سیڑھی لگا کر پولیس کے جوان چھت پر چڑھ گئے، جہاں طالبات کھلی ہوا میں سو رہی تھیں۔ ان سوئی ہوئی طالبات کے درمیان جب پولیس کے جوان جا کودے تو ایک بچی نے اچانک آنکھ کھلنے پر یہ منظر دیکھ کر چور چور کا شور مچا دیا، جس پر باقی بچیاں بھی جاگ گئیں اور خاصا شور بپا ہو گیا۔ یہ شور اور واویلا سن کر ساتھ کے مکان میں مدرسے کے مہتمم مولانا اسامہ زیدی جاگے اور صورت حال دیکھ کر انہوں نے اپنی لائسنس یافتہ اور پرمٹ والی گن سے پانچ چھ ہوائی فائر داغ دیے، مگر جب انہیں بتایا گیا کہ آنے والے پولیس اہلکاران ہیں تو انہوں نے پولیس کے مطالبے پر خود کو گن سمیت پولیس کے حوالے کر دیا اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

اس کے بعد پولیس نے مدرسے اور مہتمم صاحب کے مکان کی تفصیلی تلاشی لی، مگر مذکورہ گن کے سوا اسلحہ نام کی کوئی چیز وہاں سے انہیں نہ ملی، البتہ مولانا صاحب کے گھر سے ایک پریشر ککر انہوں نے اٹھا لیا، جس کے بارے میں اخباری خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اس میں بارودی مواد چھپایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک طالبہ کا سامان کا بکس سب کے سامنے خالی کرایا گیا، جسے پولیس اپنے ساتھ لے گئی اور ایک دستی لاؤڈ اسپیکر کا ڈبہ بھی پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس ”برآمدگی“ کے بعد مدرسے کے ایک اور استاذ قاری محمد بلال اور دو دیگر ساتھیوں محمد اکرم قاسمی اور محمد بشیر کو گرفتار کر لیا، جبکہ اگلے روز قریبی قصبہ ”گھمن والا“ سے بھی اسی حوالے سے دو افراد حکیم محمد اسحاق اور محمد سرور کو گرفتار کیا گیا۔ اسی حوالے سے اگلے روز اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ دہشت گردوں کا کوئی بڑا گروہ پکڑا گیا ہے اور ایک دینی مدرسے سے بارودی مواد اور دہشت گردی کا سامان برآمد ہوا ہے۔

اجلاس میں شریک علماء کرام اس بات پر سخت غصے میں تھے کہ طالبات کے مدرسے پر چھاپہ مارنے کے لیے مردانہ پولیس استعمال کی گئی ہے اور وہ بھی نصف شب کے بعد، جب طالبات چھت پر کھلی فضا میں سو رہی تھیں پولیس کے جوان ان کے درمیان جا کودے ہیں۔ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پولیس کے یہ بہادر جوان ان بچیوں پر آوازے کستے رہے ہیں اور ایک بچی کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ ”اسے تو ساتھ لے جانا چاہیے۔“

پولیس کی اس کارروائی پر ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو اس کی طرف سے بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ دہشت گردوں کا کوئی بڑا گینگ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا ہے، مگر ابھی تک ان گرفتار شدگان سے پولیس کچھ بھی برآمد نہیں کر سکی۔

دینی جماعتوں کا یہ اضطراب اور غصہ اس وجہ سے بھی ہے کہ کچھ عرصہ قبل جلیل ٹاؤن، گوجرانوالہ کے ایک بڑے دینی مدرسے دارالعلوم گوجرانوالہ میں بھی اسی طرح کا چھاپہ مارا گیا تھا کہ وہاں مبینہ دہشت گردوں کی آمدورفت کا شبہ تھا۔ پولیس کی بھاری نفری نے دارالعلوم کے کمروں اور اساتذہ کی رہائش گاہوں کی تلاشی لی اور بہت سے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا، مگر ”کھودا پہاڑ نکلا چوہا“ سے زیادہ بات نہ بڑھ سکی اور جس واقعے کے حوالے سے ایک بڑے دینی مدرسے کے خلاف اتنی بڑی کارروائی کی گئی تھی، اس کا کھوج جلیل ٹاؤن کے کسی اور مکان کی طرف چلا گیا اور کافی دنوں کے بعد دارالعلوم سے گرفتار شدگان کو یہ کہہ کر رہا کر دیا گیا کہ مذکورہ واقعے سے ان کا کوئی تعلق سامنے نہیں آیا۔

اسی دن نہر کے کنارے ایک اور مدرسہ ”جامعہ اسلامیہ“ پر بھی چھاپہ مارا گیا، مگر کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔

اس سب کچھ کے بعد بھی ضلعی پولیس نے دینی مدارس کا پیچھا نہیں چھوڑا اور اب جامعہ حفصہ تتلے عالی اس کی مشق ستم کا نشانہ بن گیا ہے، جس پر علاقہ بھر کے دینی حلقوں میں سخت غصہ و اضطراب پایا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں ۲۶ مئی کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا علاقائی کنونشن ہو رہا ہے، جس میں وفاق کے سیکریٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری بھی تشریف لا رہے ہیں۔

آج کل مبینہ دہشت گردی کے حوالے سے دینی مدارس جس طرح حساس اداروں اور پولیس کی اس قسم کی کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، اس ماحول میں دینی مدارس کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی اور وفاق المدارس العربیہ کے ساتھ ہر ممکن تعاون ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آزمائش میں ہم سب کو سرخرو فرمائیں، آمین ثم آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter