متفرق رپورٹس

   
رپورٹس

مجاہدینِ وطن کے لیے خصوصی دعا

آج بدھ کو صبح جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں استاذ محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی ترجمہ قرآن کریم و تفسیر کا سبق پڑھا چکے تھے کہ وفاق المدارس العربیہ کے صوبائی ناظم مفتی عبد الرحمٰن صاحب کی طرف سے میسج وصول ہوا کہ وطن عزیز پر بھارت کے بزدلانہ حملوں اور بالخصوص دینی مدارس اور مساجد کو نشانہ بنانے کی وحشیانہ کارروائیوں کے باعث وفاق المدارس العربیہ کے ملحقہ مدارس میں جمعۃ المبارک کی شام تک تعطیلات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ استاذ محترم نے یہ اعلان کرتے ہوئے بھارتی جارحیت اور حملوں کی شدید مذمت کی اور اپنی بہادر افواج اور دفاعی ادارے کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لئے پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔

جامعہ نصرۃ العلوم کے بزرگ استاذ حضرت مولانا عبد القیوم گلگتی نے اس موقع پر وطن کی حفاظت و سلامتی اور مسلح افواج کی فتح و کامیابی کے لئے پرسوز دعا کرائی اور جامعہ میں جمعہ کی شام تعطیلات کر دی گئیں۔

(از: حافظ عاطف حسین، شریک دورہ حدیث شریف۔ ۷ مئی ۲۰۲۵ء)

مفتی محمودؒ کا دورۂ بھارت اور پاکستان کے داخلی اختلافات

استاذ جی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے ایک مجلس میں بتایا کہ ۱۹۸۰ء میں دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات میں پاکستان سے علماء کا جو بڑا قافلہ حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں شریک ہوا تھا وہ بھی اس میں شامل تھے اور وہ اس وقت جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات تھے، ان دنوں ملک کے اندر صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے ساتھ مختلف مسائل پر مفتی صاحبؒ کی کشمکش چل رہی تھی۔ اس موقع پر مولانا مفتی محمودؒ کی بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی سے بھی ملاقات ہوئی جس کے بعد بھارتی صحافیوں نے ان سے بہت سوالات کیے، ان میں کچھ سوالات صدر ضیاء مرحوم کے ساتھ اختلافات کے بارے میں بھی تھے، مولانا مفتی محمود صاحبؒ نے صحافیوں سے فرمایا کہ صدر ضیاء الحق کے ساتھ میرے اختلافات واہگہ بارڈر سے پار پاکستان کے اندر ہیں، وہ پاکستان کے صدر ہیں اور یہاں میں پاکستان کا نمائندہ ہوں، میں آپ حضرات کے ان سوالات کا جواب نہیں دوں گا۔

(از: عبد القادر عثمان، مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ۔ ۱۰ مئی ۲۰۲۵ء)

مغرب کی فکری و ثقافتی یلغار

فرمایا ’’ولا یزالون یقاتلونکم حتیٰ یردوکم عن دینکم‘‘ کی جنگ آج بھی مغرب کی جانب سے فکری و ثقافتی یلغار کی صورت میں جاری ہے، جس کے ضمن میں وہ کبھی قرآن مجید پر، کبھی احادیثِ مبارکہ، اور کبھی اسلامی نظام کے ڈھانچے پر اعتراض کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس کے سامنے حکومتی طبقات نے تو خود کو سرینڈر کر دیا ہے اور وہ مغرب کی ہر بات اور ہر قانون کو ماننے کے لیے تیار ہیں، لیکن عوام الناس اس یلغار کے سامنے مضبوط دیوار کی مثل کھڑی ہے، وہ قرآن و سنت کے ساتھ، دینِ اسلام کی روح سے پھرنے، اور مغرب کے اعتراضات اور ابہامات پر سجھوتا کرنے کے لیے کسی طور پر تیار نہیں ہے۔ (تفسیری سبق سے اقتباس)

(از اکمل فاروق، شریک دورۂ حدیث جامعہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ۔ ۳۱ مئی ۲۰۲۵ء)

قوم کی حالت اور اللہ تعالیٰ کا قانون

حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ العالی نے آج عید گاہ گراؤنڈ گوجرانوالہ میں عید الاضحیٰ (۱۴۴۶ھ / ۲۰۲۵ء) کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو بیت المقدس کی آزادی کے لیے جہاد کا حکم دیا تھا تو قوم کے سرداروں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ وہاں بڑے طاقتور لوگ حکمران ہیں، ہم ان سے نہیں لڑ سکتے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے حکم پر اصرار کیا تو سرداروں نے یہ جواب دیا کہ آپ اور آپ کا رب دونوں جا کر جہاد کریں، ہم تو یہاں سے ہلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

آج یہی صورتحال بیت المقدس اور فلسطین کے حوالے سے مسلم حکمرانوں کی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کا وحشیانہ قتل عام کرنے والے اسرائیل اور اس کی سرپرست قوتوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سب کا زور اس پر ہے کہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ حالات کو ہمارے حق میں کر دے۔ ہمیں دعائیں ضرور کرنی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ہی حالات کو تبدیل کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے: ’’ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیروا ما بانفسھم‘‘ جو قوم خود اپنے حالات کو بدلنے کی محنت نہیں کرتی، اللہ تعالیٰ اس کے حالات نہیں بدلتے۔

اس لیے اللہ تعالیٰ کی نصرت حاصل کرنے کے لیے ہمیں اسباب کے دائرے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی اور جو ہم کر سکتے ہیں وہ کرنا ہو گا ورنہ ہم نہ بارگاہ ایزدی میں سرخرو ہو سکیں گے اور نہ ہی تاریخ ہمیں معاف کرے گی۔

(از: حافظ شاہد الرحمٰن میر، سیکرٹری مالیات پاکستان شریعت کونسل گوجرانوالہ۔ ۷ جون ۲۰۲۵ء)

توہینِ رسالت کے مقدمات اور قومی انکوائری کمیشن

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا زاہد الراشدی سے ایک مجلس میں پوچھا گیا کہ توہین رسالتؐ کے سلسلے میں ملک بھر میں درج مقدمات کی چھان بین کے لیے قومی سطح پر انکوائری کمیشن قائم کرنے کی تجویز کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں اس حوالے سے یہ بات متعدد بار واضح کر چکا ہوں کہ جب تجربات و مشاہدات میں یہ بات کئی بار سامنے آ چکی ہے کہ بعض مقدمات گروہی مخاصمت اور دیگر وجوہ کی بنیاد پر بھی مختلف اوقات میں درج ہوئے ہیں جو ریکارڈ کا حصہ ہیں تو تمام مقدمات پر ایک نظر ڈال لینا بہرحال انصاف کا تقاضا ہے تاکہ گستاخوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ بے گناہوں کو سزا سے بچایا جا سکے کیونکہ جس طرح مجرم کو سزا دینا ضروری ہے اسی طرح کسی بے گناہ کو سزا سے بچانا بھی انصاف کا تقاضا ہے۔

(از: حافظ شاہد الرحمٰن میر ۔ ۹ جون ۲۰۲۵ء)

جدید دینی دانشوروں کی پہچان

استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی سے ایک دوست نے پوچھا کہ آج کل مختلف دانشور میڈیا پر اسلامی احکام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں جس سے سننے والوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ آپ اس سلسلہ میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہماری نئی نسل بلکہ موجودہ مسلمانوں کی اکثریت بھی ضروری دینی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہے، جبکہ مغرب کے لا دینی فلسفہ و ثقافت کی چوطرفہ یلغار نے ان کی دین سے بے خبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے سامنے شکوک و شبہات کے جنگل کھڑے کر رکھے ہیں۔ اس ماحول میں جو دانشور شکوک و شبہات کے کانٹے چننے اور ان کو کم کرنے کی بات کرتے ہیں، میرے خیال میں وہ دین و ملت کی خدمت کر رہے ہیں۔ اور جن کی باتوں سے ایسے شکوک مزید گہرے ہوتے ہیں اور ان میں اضافہ ہوتا ہے، وہ شعوری یا لا شعوری طور پر لا دینیت اور گمراہی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

(از: حافظ دانیال عمر، ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات پاکستان شریعت کونسل گوجرانوالہ ۔ ۱۰ جون ۲۰۲۵ء)

ایران پر اسرائیلی حملہ ٹرمپایزیشن کا حصہ ہے

استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی سے ایک مجلس میں ایران پر اسرائیل کے حملے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ مشرق وسطی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس پلان کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ پورے خطے کی جغرافیائی سرحدیں تبدیل کر کے نئی علاقائی تقسیم کرنا چاہتا ہے اس لیے اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے رکن کسی ملک پر حملہ عالم اسلام پر حملہ ہے اور اگر او آئی سی کا کوئی وجود باقی رہ گیا ہے تو اسے فوری طور پر اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر او آئی سی کا اب کوئی عملی کردار باقی نہیں رہا تو اس کے فوری خاتمے کا اعلان کر دیا جائے۔

(از: عبد القادر عثمان، مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ۔ ۱۴ جون ۲۰۲۵ء)
2016ء سے
Flag Counter