نفاذِ شریعت، دہشت گردی اور تکفیر و قتال کے تین الگ الگ مسئلے

   
میسج ٹی وی
فروری ۲۰۱۶ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں اس حوالے سے آج تھوڑی سی گفتگو کرنا چاہوں گا کہ اس وقت جو داعش یا تحریکِ طالبانِ پاکستان یا دنیا میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کے جو گروپ ہیں، ان کے حوالے سے ملک میں بھی، بین الاقوامی سطح پر بھی گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ اور میں عرض کرنا چاہوں گا کہ تین مسئلے بالکل الگ الگ ہیں جن کو خلط ملط کر دیا گیا ہے۔

ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے، نفاذِ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟ اس پر تو ایک واضح موقف ہے اور آج سے پانچ سال پہلے ہم تمام ملک کے دیوبندی علماء اکابر مل بیٹھ کر جامعہ اشرفیہ میں اپنا یہ اجماعی موقف دے چکے ہیں کہ پاکستان میں یا کسی بھی مسلمان ملک میں نفاذِ شریعت کے لیے، نفاذِ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانا، حکومتِ وقت کی رٹ کو چیلنج کرنا، یہ شرعاً‌ درست نہیں ہے۔

نفاذِ اسلام ہمارا بھی مقصد ہے، پاکستان بنا ہی اسلام کے لیے تھا، اور ہر مسلمان سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا تمام نظام قرآن و سنت کے مطابق چلائے۔ لیکن اس کے لیے جو نارمل ذرائع ہیں، وہی ذرائع استعمال کیے جائیں گے، اور ہم نے بھی پاکستان میں، جمہور علماء نے شروع سے لے کر، علماء کے بائیس نکات سے لے کر ۷۳ء کے دستور تک، اور ضیاء الحق مرحوم کے دور کی آئینی اصلاحات تک، یہ پُرامن سیاسی تحریکی راستہ اختیار کیا ہے۔ ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہ ہم نے کبھی دی ہے، نہ آج اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کے لیے، نفاذِ شریعت کے لیے کسی بھی مطالبے کا جائزہ ہونا اپنی جگہ، لیکن اس کے لیے ہتھیار اٹھانا، کسی مسلمان حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا، اس کی ہم نے ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ اور ریکارڈ پر موجود ہے، آج سے پانچ سال پہلے چھ سال پہلے جامعہ اشرفیہ لاہور کا وہ عظیم اجتماع جس میں پورے پاکستان کے اکابر علماء دیوبند نے مل کر، تمام جماعتوں اور تمام حلقوں کے نمائندوں نے مل کر متفقہ رائے کا اظہار کیا تھا کہ ہم اس کی حمایت نہیں کرتے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا نفاذِ اسلام اور نفاذِ شریعت؛ اگر کوئی دہشت گردی کرتا ہے تو اس کی دہشت گردی کی وجہ سے خود نفاذِ اسلام بھی مشکوک ہو جاتا ہے؟ نہیں۔ ہمیں دونوں کو الگ الگ کرنا ہو گا کہ نفاذِ اسلام تو ہماری منزل ہے، ہمارا مقصد ہے، ہمارا مشن ہے، اور یہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہتھیار اٹھا کر نفاذِ اسلام کی جمہوری اور آئینی جدوجہد کو سبوتاژ کیا گیا ہے۔

میں یہ وضاحت اس لیے کرنا چاہوں گا کہ ہم جب دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ کہہ کے کرتے ہیں کہ نفاذِ اسلام کے لیے، نفاذِ شریعت کے لیے، پرُامن سیاسی جمہوری جدوجہد ہونی چاہیے اور ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن مغرب جب مخالفت کرتا ہے تو وہ دونوں باتیں ایک سانس میں کہتا ہے۔ یہ بھی کہتا ہے کہ دہشت گردی درست نہیں ہے، اور یہ بھی کہتا ہے کہ نفاذِ شریعت درست نہیں ہے، اور یہ بھی کہتا ہے کہ خلافت قائم نہیں ہونے دی جائے گی، اسلام نافذ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ہمیں اپنے موقف میں اور مغرب کے موقف میں فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ مغرب صرف دہشت گردی کی مخالفت نہیں کر رہا۔ مغرب اسلام کی، اسلام کے نفاذ کی، خلافت کی، نفاذِ شریعت کی مخالفت کر رہا ہے۔

اور میں سمجھتا ہوں یہ دونوں چیزیں بالکل الگ الگ ہیں۔ ہم داعش کی حمایت بھی نہیں کرتے، اس کی سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی، تحریکِ طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کی بھی حمایت نہیں کرتے، اس کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن نفاذِ شریعت تو پوری قوم کا ہے اور اسلام کا نفاذ تو پوری ملتِ اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ اِس کو اُس کے ساتھ گڈمڈ کر کے اگر مغرب کی قیادت نفاذِ اسلام اور نفاذِ شریعت کی نفی کرنا چاہتی ہے تو ہمیں اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ یہ دوسرا مسئلہ۔

تیسرا مسئلہ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تکفیر اور قتال، یہ تو خوارج کا طریقِ کار رہا ہے۔ وہ تکفیر اور قتال کے؛ جو بھی ان کی حمایت میں نہ ہو وہ کافر ہے، اور پھر کافر ہی نہیں، واجب القتل ہے۔ یہ داعش کہے یا ٹی ٹی پی کہے، جو بھی کہے، یہ بات غلط ہے۔ اور یہ اہلِ سنت کا اور جمہور امت کا موقف نہیں ہے۔ یہ قرنِ اول میں بھی خوارج کا موقف تھا کہ جو ان کے ساتھ نہیں ہے وہ کافر ہے اور واجب القتل ہے۔ آج بھی اسی موقف کو دہرایا جا رہا ہے۔

اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تین باتوں کو الگ الگ رکھنا چاہیے:

  1. تکفیر اور قتال جمہور مسلمانوں کا موقف کبھی نہیں رہا، یہ خوارج کا موقف تھا، کل تھا تب بھی خوارج کا موقف تھا، آج ہے تب بھی خوارج کا موقف ہے۔
  2. دوسری بات، نفاذِ اسلام کے لیے نفاذِ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانا کسی بھی مسلمان ملک میں، پاکستان سمیت، یہ درست نہیں ہے۔ اور یہ اسلام کے نظام کی جدوجہد کو کامیابی کے راستے پر ڈالنے کی بجائے اس میں رکاوٹیں ڈالنے کا طریق کار ہے اور اس کو سبوتاژ کرنے کا طریق کار ہے۔
  3. اور تیسری بات کہ اسلام کا نفاذ، شریعت کا نفاذ، خلافت کا قیام، یہ تو ملتِ اسلامیہ کی اصل منزل ہے، اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

تینوں باتوں کو الگ الگ رکھ کر ہمیں ان باتوں کا؛ یہ جو گڈمڈ کر دیا گیا ہے نا، مغرب کا ایجنڈا ہے، مغرب کی چال ہے کہ تینوں باتوں کو گڈمڈ کر کے پراپیگنڈے کے ذریعے، لابنگ کے ذریعے، فنڈنگ کے ذریعے، یہ باقی دو بہانوں کو نفاذِ شریعت میں رکاوٹ بنایا جائے۔

میں یہ گزارش کروں گا عالمِ اسلام کی قیادت سے بالخصوص علمی قیادت سے، داعش کی مذمت بھی کریں، ٹی ٹی پی کی مذمت بھی کریں، تکفیر اور قتال کی مذمت بھی کریں، کھل کر مخالفت کریں۔ لیکن نفاذِ اسلام اور نفاذِ شریعت اور خلافت کے موقف سے منحرف نہ ہوں۔ میرے نزدیک یہ دستبرداری کی بات ہے، خلافت سے، نفاذِ اسلام سے، اور نفاذِ شریعت سے۔ عالمِ اسلام کی قیادت کو اور عالمِ اسلام کی علمی قیادت کو بالخصوص اس پہ اپنے طرزِ عمل پہ؛ موقف تو ان کا ہو گا جو ہو گا؛ اس طرز عمل پہ نظرثانی کرنی چاہیے اور بات پوری وضاحت کے ساتھ کہنی چاہیے۔

https://www.facebook.com/share/v/1FV6C2ZNFR

2016ء سے
Flag Counter