بعد الحمد والصلوٰۃ۔ فلسطین اور بیت المقدس جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے کچھ عرصہ بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کی تحویل میں آیا تھا، اس سے پہلے فلسطین عیسائیوں کے پاس تھا۔ حضرت عمرؓ کی خلافت کے زمانے میں حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراحؓ نے فلسطین فتح کیا جو کہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ عراق اور ایران کے فاتح حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ہیں۔ جبکہ شام کے فاتح حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت ابو عبیدہؓ اور حضرت یزید بن ابی سفیانؓ تینوں ہیں۔
فلسطین مسلمانوں کی تحویل میں دور فاروقی میں آیا لیکن جناب نبی کریمؐ کے زمانے میں ہی اس کے مسلمانوں کے قبضہ میں آ جانے کی پیشین گوئی ہو چکی تھی۔ یہ پیشین گوئی قیصر روم ہرقل نے کی تھی کہ یہ جگہ مسلمانوں کے قبضے میں آئے گی۔ بخاری شریف کی تفصیلی روایت ہے جو کہ حدیثِ ہرقل اور حدیثِ ابو سفیانؓ کے نام سے معروف ہے۔
صلح حدیبیہ کے بعد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف علاقوں کے بادشاہوں کے نام اسلام کی دعوت کے خطوط لکھے تو ایک خط روم کے بادشاہ ہرقل کو بھیجا۔ روم اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی اور سپر پاور تھی۔ قیصر روم ہرقل کے پاس حضرت دحیہ کلبیؓ حضور نبی کریمؐ کا خط لے کر گئے، ہرقل یروشلم کے دورے پر شام میں آیا ہوا تھا جو اس وقت روم کا صوبہ تھا۔ ہرقل کو بیت المقدس میں اسلام کی دعوت کا خط موصول ہوا۔ بڑے لوگوں کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ تحقیق کرتے ہیں کہ دعوت دینے والا کون ہے، پہلے اس کا تعارف حاصل کرتے ہیں، پھر اس خط کو پڑھتے ہیں۔ چنانچہ جب حضورؐ کی طرف سے اسے اسلام کی دعوت ملی تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ جو صاحب نبوت کا دعویٰ کر رہے ہیں اگر ان کے علاقے سے کچھ لوگ شام میں تجارت کے لیے آئے ہوئے ہوں تو مجھ سے ملاؤ تاکہ میں ان کے بارے میں تحقیق کروں کہ وہ صاحب کون ہیں اور ان کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟ حضرت ابوسفیانؓ، جو بعد میں اسلام لائے، اس وقت حضورؐ کے حریف تھے اور عرب دنیا میں آپؐ کے سب سے بڑے مدمقابل تھے۔ خندق کی لڑائی میں اسلامی لشکر کے خلاف متحدہ محاذ کی قیادت ابوسفیانؓ نے کی تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ وہ اس وقت شام میں موجود تھے۔
حضرت ابو سفیانؓ نے اسلام لانے کے بعد خود یہ سارا واقعہ بیان کیا ہے کہ قیصر روم ہرقل کے کارندے ہمارے پاس آئے اور پوچھا آپ مکہ سے آئے ہیں؟ ہم نے بتایا، ہاں۔ انہوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ابوسفیانؓ کہتے ہیں کہ ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو بادشاہ نے روم کے بڑے بڑے سردار اکٹھے کر رکھے تھے، دربار سجا ہوا تھا، ہرقل اور اس کے درباری بیٹھے ہوئے تھے، گویا آج کی زبان میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تھا۔
حضرت ابوسفیانؓ فرماتے ہیں کہ قیصر روم نے ہم سے پوچھا کہ جو صاحب نبوت کے دعویدار ہیں، آپ میں سے ان کا قریبی رشتہ دار کون ہے؟ میں نے کہا میں ان کا چچا بھی لگتا ہوں اور خسر بھی ہوں۔ ہرقل نے تدبیر یہ کی کہ اپنے سامنے مجھے آگے بٹھایا اور میرے ساتھیوں کو پیچھے بٹھا دیا، اور ان سے کہا کہ میں ابو سفیان سے ان صاحب کے بارے میں کچھ معلومات لینا چاہتا ہوں جو اپنے آپ کو نبیؐ کہتے ہیں، اگر یہ جواب میں گڑبڑ کریں تو آپ پیچھے سے اشارہ کر دینا۔ حضرت ابو سفیانؓ کہتے ہیں کہ اس طریقے سے اس نے مجھے پابند کر دیا، ورنہ ممکن ہے میں گول مول بات کرتا، لیکن اب مجھے صرف سچ ہی بولنا تھا۔ چنانچہ ہرقل نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں سوالات کیے، آپؐ کا تعارف حاصل کیا کہ یہ مدعئ نبوت کون صاحب ہیں؟ ان کا نسب کیسا ہے؟ کردار کیسا ہے؟ بہت سے سوالات کیے، میں جواب دیتا رہا۔
حضرت ابو سفیانؓ کہتے ہیں کہ اس دوران ایک دفعہ مجھے کچھ گنجائش ملی کہ میں گول مول بات کروں۔ قیصر روم نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا اس نبی کے ساتھ کبھی کوئی معاہدہ ہوا ہے؟ میں نے کہا ہاں ہوا ہے۔ اس نے پوچھا کہ کبھی اس بات کا تجربہ ہوا ہے کہ اس نے معاہدہ کر کے توڑا ہو؟ میں نے کہا اس سے پہلے تو ایسا نہیں ہوا، البتہ اب ہم ایک معاہدے میں ہیں، پتا نہیں وہ پورا کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ کہتے ہیں کہ اس کے سوا میں کوئی گول مول بات نہیں کر سکا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ سارا تعارف کر کے، تسلی کر کے آخر میں ہرقل نے یہ سوال کیا ’’ماذا یامرکم؟‘‘ وہ تمہیں کیا حکم دیتا ہے؟ اس کی دعوت کیا ہے؟ ذرا منظر دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعوت کے اسباب کیسے پیدا کیے کہ عالمی سطح پر دنیا کا سب سے بڑا حریف ہرقل سوال کر رہا ہے، اور جزیرۃ العرب کے دائرے میں حضورؐ کا سب سے بڑا حریف جواب دے رہا ہے اور حضورؐ کا تعارف کرا رہا ہے۔ جب ہرقل نے سوال کیا ان صاحب کی تعلیمات کیا ہیں؟ تو دنیا کے سب سے بڑے حکمران کے سامنے اس کے دربار میں حضوؐر کا جزیرۃ العرب کا سب سے بڑا حریف آپؐ کی دعوت پہنچاتا ہے اور جواب دیتا ہے ’’یامرنا ان نعبد اللہ وحدہ ونترک ما کان یعبد اٰباءنا ویامرنا بالصلٰوۃ والصدق والصلۃ والعفاف‘‘ اس کی دعوت یہ ہے کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں، اللہ کے سوا جن کی پوجا ہمارے آبا و اجداد کرتے آرہے ہیں سب کو چھوڑ دیں۔ وہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ نماز پڑھا کرو، سچائی اختیار کرو، صلہ رحمی کرو اور پاکدامن رہو۔ یہ اس کی بنیادی دعوت ہے۔
میں اس پر کہا کرتا ہوں کہ اللہ کتنا بے نیاز ہے، کہاں دعوت پہنچا رہا ہے اور کس کی زبان سے پہنچا رہا ہے؟ دنیا کے اس وقت کے سب سے بڑے دربار میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت آپ کا سب سے بڑا مد مقابل پیش کر رہا ہے، کافر کو کافر دعوتِ اسلام پہنچا رہا ہے اور دعوت بھی بغیر کسی گڑبڑ کے صحیح پہنچا رہا ہے۔
ان سوالات و جوابات کے بعد قیصر روم نے حضرت ابو سفیانؓ سے کہا کہ جو باتیں میں نے پوچھی ہیں اور آپ نے بتائی ہیں، اگر یہ باتیں درست ہیں ’’انہ لنبی‘‘ تو وہ واقعی نبی ہے ’’وسیملک موضع قدمی ہاتین‘‘ اور جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں وہ یہاں کا بادشاہ بنے گا۔
اس پر میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں بعد میں آیا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی اس کی پیشین گوئی ایک عیسائی سلطنت کے بادشاہ کی زبان سے ہو گئی تھی کہ فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں جائے گا اور بیت المقدس پر ان کی حکومت ہوگی۔ چنانچہ وہ پیشین گوئی چند سالوں بعد حضرت عمر ؓکے زمانے میں پوری ہو گئی۔
فلسطین کے بارے میں جناب نبی اکرمؐ کی ایک اور پیشین گوئی کا ذکر کر دیتا ہوں۔ حضور نبی کریمؐ نے قیامت سے پہلے ہونے والی بڑی جنگوں کا ذکر فرمایا کہ خوفناک جنگیں ہوں گی، ان میں بے شمار لوگ قتل ہوں گے حتیٰ کہ پچاس عورتوں کو سنبھالنے والا ایک نگران ہوگا یعنی اٹھانوے فیصد مردوں کی آبادی ختم ہو جائے گی۔ آپؐ نے ملاحم کبرٰی کے آخری مرحلے کی بات فرمائی کہ ایک مسیح آسمان سے اترے گا یعنی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اور ایک مسیح زمین پر گھومے گا یعنی مسیح الدجال، دونوں مسیح آپس میں ٹکرائیں گے۔ ایک مسیح دوسرے کو قتل کرے گا یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو قتل کریں گے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ یہ ملاحم کبریٰ کا فائنل راؤنڈ ہوگا۔
اس پر ایک لطیفہ ذکر کرتا ہوں۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوٰی تھا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں ، لوگوں نے اس سے کہا کہ مسیح ابن مریمؑ کے بارے میں تو روایات میں آتا ہے کہ وہ ’’لد‘‘ کے مقام پر دجال کو قتل کریں گے۔ مرزا قادیانی نے لکھا ہے اور اس کی کتاب میں موجود ہے کہ میں نے ایک دفعہ لدھیانہ میں ایک عیسائی مناظر کو جو شکست دی تھی، دجال کو قتل کرنے سے یہی مراد ہے اور حضورؐ کی وہ پیشین گوئی پوری ہو چکی ہے۔ دجال سے مراد وہ عیسائی مناظر ہے اور لد سے مراد لدھیانہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسیح دجال کو آخری مقابلے میں لد کے مقام پر قتل کریں گے۔ یہ لد، تل ابیب شہر کا پرانا نام بتایا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ حضورؐ کی پیشین گوئی ہے کہ تمام جنگوں کا فائنل راؤنڈ فلسطین میں ہوگا اور آخری مقابلہ دو مسیحوں کا ہو گا جس کے بعد دنیا کی صورتحال بدل جائے گی اور ہر طرف اسلام کا غلبہ ہوگا۔
فلسطین کے حوالے سے احادیث نبویہؐ کی پیشین گوئیوں میں سے ایک تو پوری ہو چکی ہے کہ مسلمانوں کا اقتدار بیت المقدس پر قائم ہوا تھا جو سالہا سال قائم رہا، جبکہ دوسری پیشین گوئی بھی ان شاء اللہ پوری ہو گی کہ لد کے مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دجال قتل ہوگا اور دجالی قوتوں کی آخری شکست ہوگی۔ اس لیے فلسطین کے ساتھ ہمارا ماضی کا تعلق بھی ہے اور مستقبل کا بھی ہے کہ وہ دجال کے مقابلہ میں ہمارا آخری مورچہ ہوگا، جس کے فتح ہوتے ہی دنیا اطمینان کا سانس لے گی اور انسانی سوسائٹی میں آسمانی تعلیمات کی عملداری کے نئے دور کا آغاز ہو جائے گا، ان شاء اللہ العزیز-