ختم نبوت کی جدوجہد کا ایک اور سنگِ میل

   
تاریخ : 
۲۹ نومبر ۲۰۱۷ء

حکومت اور تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے درمیان معاہدہ اور اس کے نتیجے میں دھرنے کے اختتام پر پوری قوم نے اطمینان کا سانس لیا ہے کہ ختم نبوت جیسے نازک اور حساس مسئلہ پر ملک سنگین بحران او رخلفشار سے نکل گیا ہے اور تحریک ختم نبوت کے ایک بڑے تقاضے کی بھی بحمد اللہ تکمیل ہوگئی ہے، فالحمد للہ علٰی ذلک۔ اس میں جس نے بھی کسی مرحلہ میں کوئی کردار ادا کیا ہے وہ تحسین و تبریک کا مستحق ہے۔ بالخصوص معاہدہ کے دونوں فریق حکومت اور تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے ارباب حل و عقد اور ان کے درمیان معاہدہ و مفاہمت کی راہ ہموار کرنے والے حلقے تبریک و تحسین کے ساتھ شکریہ کے بھی حقدار ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔اس کے ساتھ ساتھ دھرنےاور اس کے پس منظر و نتائج کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور حسب عادت کچھ حلقے انہیں پھیلانے اور ان میں ضمنی سوالات کا اضافہ کرتے چلے جانے میں مصروف ہیں۔ ان میں سے کچھ باتیں متعدد حضرات نے مجھ سے بھی فون پر دریافت کی ہیں اس لیے بعض سوالات کا سرسری جائزہ اس کالم میں لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ایک صاحب نے پوچھا ہے کہ اس تحریک میں دیوبندیوں کا کیا کردار ہے حالانکہ وہ ختم نبوت کی تحریک میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں لیکن اس دفعہ وہ فرنٹ پر دکھائی نہیں دیے۔ میں نے عرض کیا کہ اسے اگر مسلکی معاصرت سے ہٹ کر زمینی حقائق کے حوالے سے دیکھا جائے تو صورتحال یہ ہے کہ تحفظ ختم نبوت کے مطالبات کی جدوجہد نے جو صورت اختیار کر لی تھی اس کے تین دائرے بنتے ہیں:

  1. ایک محاذ پارلیمنٹ کا ہے کہ اصل مسئلہ وہیں کھڑا ہوا تھا اور اس کا حل بھی وہیں نکلنا تھا۔ اس سلسلہ میں یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ پارلیمنٹ میں الیکشن قوانین کا متنازعہ ترمیمی بل پیش ہونے پر ہاؤس میں سب سے پہلے اس کے بارے میں آواز جمعیۃ علماء اسلام کے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے اٹھائی۔ اور مختلف مراحل سے گزر کر جب پارلیمانی جدوجہد آخری مرحلہ تک پہنچی تو وہ ترمیمی بل جس کے ذریعے ساری کوتاہیوں کی تلافی کی گئی اور سابقہ صورتحال بحال ہوئی اس بل کا مسودہ ایوان میں جمعیۃ علماء اسلام کے پارلیمانی گروپ نے پیش کیا اور اسے ایوان سے منظور کرانے میں مولانا فضل الرحمان اور راجہ محمد ظفر الحق کی محنت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
  2. دوسرا دائرہ عدالتی تھا جہاں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے پیش رفت کی اور مجلس کے مرکزی راہنما مولانا اللہ وسایا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چنانچہ ان کی رٹ درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے متنازعہ ترمیمی بل کے متعلقہ حصوں کو معطل کرتے ہوئے حکومت کو عدالت میں طلب کر لیا اور ابھی کیس کی سماعت جاری ہے۔
  3. جبکہ اس سلسلہ میں تیسرا محاذ عوامی دباؤ کا تھا جس میں ہمارے بریلوی دوستوں نے تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے عنوان سے پیش قدمی کر کے ان دھرنوں کا اہتمام کیا اور حکومت کو بالآخر ان کے مطالبات تسلیم کرنا پڑے۔

اس مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں قادیانیوں اور ان کے بہی خواہ حلقوں کی یہ سازش نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ آئندہ کے لیے بھی بحمد اللہ انہیں بریک لگ گئی ہے۔ گویا اس بار تحریک ختم نبوت کے مطالبات کو آگے بڑھانے اور انہیں حکومت سے منوانے میں پارلیمنٹ میں جمعیۃ علماء اسلام، عدالتی محاذ پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور عوامی دباؤ کے محاذ پر تحریک لبیک یا رسول اللہؐ نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے جس پر ان تینوں جماعتوں کے قائدین کے ساتھ ساتھ سینٹ میں قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق بھی مبارکباد کے مستحق ہیں اور میرے خیال میں اس تنوع کو مسلکی معاصرت کی بجائے تقسیم کار کے حوالہ سے دیکھا جائے تو ایک خوبصورت تکون ہمارے سامنے آتی ہے۔

جہاں تک تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے دھرنے اور مطالبات کا تعلق ہے اس کی سب دینی جماعتوں نے حمایت کی ہے اور خود ہم نے بھی ان کالموں میں متعدد بار اس حمایت کا اظہار کیا ہے۔ مگر دھرنوں میں شرکت کے حوالہ سے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ دھرنوں کا اہتمام کرنے والوں نے اپنے مخصوص حلقے سے ہٹ کر نہ کسی کو شرکت کی دعوت دی ہے او رنہ ہی وہاں دوسرے حلقوں کی شرکت کے لیے حوصلہ افزائی کا کوئی ماحول موجود تھا۔ چنانچہ اس دھرنے کے دوران گوجرانوالہ میں معروف اہل حدیث راہنما مولانا مشتاق احمد چیمہ کی دعوت پر تمام مکاتب فکر کے سرکردہ زعماء کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور اہل تشیع کے ذمہ دار راہنماؤں نے شرکت کی۔ بریلوی مکتب فکر کے ممتاز راہنما صاحبزادہ نصیر احمد اویسی کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں یہ تجویز زیربحث آئی کہ ہم سب کو دھرنے کے شرکاء کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔ میں بھی اجلاس میں شریک تھا، اجلاس کے کم و بیش سبھی شرکاء اس تجویز سے متفق تھے مگر یہ طے پایا کہ پہلے وہاں کے ماحول کا جائزہ لے لینا چاہیے کہ کیا ہماری وہاں حاضری دھرنے کے لیے مفید ہوگی، کہیں اس ماحول میں کسی نئی الجھن کا باعث تو نہیں بن جائے گی؟ اس پر دھرنے میں شریک ہونے والے بعض دوستوں سے دریافت کیا گیا تو ان کا جواب اثبات میں نہیں تھا، اس لیے ہم سب دوست خواہش کے باوجود وہاں جانے کا فیصلہ نہ کر سکے۔

اس پس منظر میں تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے قائدین کو اس کامیاب پیش رفت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے ہم امید رکھتے ہیں کہ ان کی یہ کاوش اور قربانی آئندہ بھی تحریک ختم نبوت کے لیے جاری رہے گی اور وہ اس کے عمومی تقاضوں کا احساس کرتے ہوئے اس دینی محنت کو زیادہ وسیع اور مؤثر دائرے میں آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter