نئی نسل کو زمانے سے واقف کرانے کا فریضہ

   
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، میرپور، آزاد کشمیر
۸ اپریل ۲۰۲۵ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ پرنسپل صاحب اور دیگر احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے اس عظیم تعلیمی ادارے میں میری استاذ برادری کے ساتھ کچھ دیر بیٹھنے اور بات چیت کا موقع عنایت کیا ہے۔ میں بھی بنیادی طور پر ایک استاذ ہوں اور گزشتہ نصف صدی سے اس شعبہ سے منسلک ہوں۔ میں اسے اپنے لیے اعزاز بھی سمجھتا ہوں اور ویسے بھی اپنی برادری کے ساتھ ذرا کھل کر اور اعتماد کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے۔ تفصیلی گفتگو کا موقع نہیں ہے، چند باتیں اس پر عرض کروں گا کہ ہماری نئی نسل کو آج کے زمانے سے واقف کرانے کے حوالے سے ہم اساتذہ کی ذمہ داری کیا ہے؟

تعلیمی اداروں کا بنیادی کردار یہ ہوتا ہے کہ اساتذہ کرام تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات و مشاہدات اور جذبات و احساسات اپنے شاگردوں کو منتقل کرتے ہیں اور یہ عمل معاشرے میں ارتقا کا سبب بنتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اساتذہ کرام اپنے علم اور مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر نئی نسل کو قوم و ملت اور ملک کی آئندہ قیادت سنبھالنے کے لیے تیار کرتے ہیں، اور نئی نسل ان سے راہنمائی حاصل کر کے مستقبل کی قیادت بننے کی اہلیت حاصل کرتی ہے۔

اس مناسبت سے ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا۔ ہمارے ہاں عربی ادب کی ایک مشہور کتاب ہے ’’دیوانِ حماسہ‘‘ جو میرے زیر تدریس رہی ہے۔ مجھے اس سلسلہ میں جب دینی مدارس کے اساتذہ سے گفتگو کا موقع ملتا ہے تو عام طور پر دیوان حماسہ کے دو اشعار کا حوالہ دیا کرتا ہوں، جن کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک نوجوان کو اس کے خاندان نے پال پوس کر جوان کیا، ناز و نعم میں اس کی پرورش کی اور خوب کھلایا پلایا، لیکن فنونِ حرب کی تعلیم نہیں دی۔ اور اسے جوان ہونے کے بعد جن دشمنوں سے سابقہ پیش آنے والا تھا، ان کے مقابلہ کے لیے اسے تیار نہیں کیا۔ وہ جوان ہوا اور عملی زندگی میں داخل ہوا تو دشمنوں سے آمنا سامنا ہوا مگر وہ ان کا مقابلہ نہ کر سکا اور اسے شکست سے دوچار ہونا پڑا، وہ اس صورتحال میں اپنے خاندان اور قبیلہ کو کوستے ہوئے کہتا ہے کہ ؎

فھلا اعدونی لمثلی تفاقدوا
اذا الخصم ابزی مائل الراس انکب
وھلا أعدونی لمثلی تفاقدوا
وفی الارض مبثوث شجاع وعقرب

میرے خاندان اور قبیلہ والے ایک دوسرے کو گم پائیں، جب انہیں معلوم تھا کہ میرا دشمن ٹیڑھی گردن والا، متکبر اور رعونت والا ہے تو انہوں نے مجھے اس کے مقابلہ کے لیے تیار کیوں نہیں کیا؟ اور وہ ایک دوسرے کو گم پائیں، جب ان کے سامنے تھا کہ زمین میں ہر طرف سانپ اور بچھو بکھرے ہوئے ہیں تو انہوں نے مجھے ان سے بچاؤ کے طریقے کیوں نہیں سکھائے؟

دوسری گزارش یہ کرنا چاہوں گا کہ آج کا ماحول نصف صدی پہلے کے ماحول سے بالکل مختلف ہے، اور اب جبکہ رفتار تیز ہوگئی ہے، ربع صدی بعد کا ماحول آج سے بالکل مختلف ہو گا۔ یہ دن بدن بدلتے ہوئے جو حالات ہیں، کیا یہ تعلیمی ماحول کے اندر علمی حوالے سے میری گرفت میں یا کم از کم دسترس میں ہیں؟ یہ میرا بحیثیت ایک استاذ کے خود اپنے آپ سے بھی سوال ہے اور آپ حضرات سے بھی کہ کیا زمانے کے یہ تغیرات، مثبت ہوں یا منفی، ان پر ہماری نظر ہے؟ ہمارے ہاں دینی تعلیمی کے ماحول میں فقہاء کے ہاں ایک جملہ کہا جاتا ہے کہ ’’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘‘ جو اپنے زمانے کے لوگوں سے یا زمانے کا ماحول سے واقف نہیں ہے وہ عالم نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے دینی جامعات کے ماحول میں بھی اور آپ کے کالج کے ماحول میں بھی ہم میں سے ہر ایک کو جائزہ لینا چاہیے کہ کیا اہلِ زمانہ سے میں واقف ہوں؟

تیسری بات کہ اہلِ زمانہ کون ہیں؟ میں باقی باتیں ایک طرف رکھتے ہوئے صرف اس حوالے سے عرض کروں گا کہ اس وقت پوری دنیا میں حکومتوں کی نہیں بلکہ معاہدات کی حکومت ہے، جن کا تعارف تو معاہدات کے طور پر ہے لیکن عملی طور پر یہ بین الاقوامی قانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ معاہدوں میں شریک ارکان میں سے جس کے پاس طاقت اور دولت ہے وہ ان معاہدات کی پابندی سے بچنے کا کوئی راستہ نکال لیتا ہے، اور جس کے پاس طاقت اور دولت نہیں اسے بہرحال ان کی پابندی کرنا پڑتی ہے، چاہے اس کا جی چاہے یا نہ چاہے۔

اس وقت یورپی یونین، یونائیٹڈ نیشنز، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن اور دیگر بین الاقوامی ادارے ہم پر دباؤ ڈالے ہوئے ہیں کہ معاہدات کی پابندی کرو۔ یورپی یونین کے بقول ستائیس معاہدات ایسے ہیں جن پر عملدرآمد ہمارے لیے لازمی ہے۔ اسلام آباد میں چند سال پہلے یورپی یونین کے ایک منسٹر آئے تھے جنہوں نے ایک سیمینار سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ جو مرضی کرو، یہ ستائیس کنونشنز تو آپ کو لاگو کرنا ہی پڑیں گے۔

آج سے چند سال پہلے ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب اسلام آباد یونیورسٹی میں شریعہ اکیڈمی کے انچارج تھے، میں نے ان سے کہا کہ میں اپنے ماحول میں بین الاقوامی ماحول سے واقف سمجھا جاتا ہوں لیکن میری تین چار معاہدات سے زیادہ پر دسترس نہیں ہے، جبکہ یورپی یونین ستائیس معاہدات کی بات کر رہی ہے، یہ کون سے ہیں؟ جہاں بھی ہم شریعت اور اسلام کے حوالے سے کوئی بات کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی معاہدہ ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ہے کہ جناب آپ اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ آپ ہم جیسے لوگوں کے لیے ایک بریفنگ ورکشاپ رکھیں، ہمیں ان معاہدات سے واقف کروائیں کہ ان کا متن کیا ہے، ہمارا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے اور کس طرح سے وہ ہم پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ چنانچہ اسلام آباد یونیورسٹی کی شریعہ اکیڈمی میں تین دن کا سیمینار ہوا اور ملک کے مختلف اداروں سے اصحابِ علم آئے، میں بھی اس میں اہتمام کے ساتھ شریک ہوا۔

یہی بات سیاسی دنیا میں ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اٹھائی تھی۔ پچھلے سال اقوام متحدہ نے پچھتر سالہ تقریبات کی ہیں۔ آج سے ربع صدی پہلے جب اقوام متحدہ نے گولڈن جوبلی منائی تھی اور پچاس سالہ تقریبات ہوئی تھیں، اس وقت مہاتیر محمد او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کے صدر تھے، انہوں نے تب یہ کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے نظام و قوانین کے حوالے سے ہمارے دو تحفظات ہیں: ایک تو ہمارے عقائد اور تہذیب کے حوالے سے ہیں کہ یہ معاہدات ہمارے بعض اسلامی اعتقادات اور تعلیمات سے ٹکراتے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کی اتھارٹی میں مسلم دنیا کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ دنیا پر اصل حکمرانی ویٹو پاورز رکھنے والے پانچ ممالک کی ہے۔ ان میں سے بعض مواقع پر چین نے ہماری حمایت کی ہے، جبکہ امریکہ ہمیشہ اسرائیل پر مہربان رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کسی فیصلے پر ان پانچ میں سے کوئی ملک ویٹو نہ کرے تو وہ نافذ ہو جاتا ہے، لیکن کوئی ایک بھی ویٹو کر دے تو وہ فیصلہ ختم ہو جاتا ہے۔

چنانچہ مہاتیر محمد نے یہ تجویز پیش کی کہ اقوامِ متحدہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کا بائیکاٹ کر دیں، اس بائیکاٹ کے ماحول میں میز بچھے گی اور مذاکرات ہوں گے تو ہم یہ دو مطالبات ان کے سامنے رکھیں گے۔ ہم دنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ نہیں ہیں تو پانچواں تو تسلیم شدہ ہیں، اس لیے اس ویٹو پاور میں ہمیں بحیثیت امتِ مسلمہ کے نمائندگی ملنی چاہیے۔ یہ آج سے پچیس سال پہلے کی بات کر رہا ہوں ، میں نے اس پر تفصیل سے لکھا تھا جو میری ویب سائیٹ پر موجود ہے، لیکن سوائے قطر کے دنیا کے کسی مسلمان ملک نے مہاتیر محمد کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی۔

یہ معاہدات ہم پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں، اس کی ایک عملی مثال عرض کر دیتا ہوں۔ چکوال کا ایک ڈکیتی کا کیس تھا جس میں مجرم نے قتل بھی کیا تھا اور ڈکیتی بھی کی تھی۔ اس میں اسپیشل کورٹ نے فیصلہ دے دیا کہ مجرم کو سرِ عام پھانسی دی جائے۔ اس فیصلے کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا کہ سرِعام پھانسی دینا اقوام متحدہ کے چارٹر اور قوانین کے خلاف ہے۔ اس پر بحث ہوئی کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق مجرم کو سزا دیتے ہوئے اس کی تذلیل اور تحقیر نہیں کی جائے گی، جبکہ قرآن کہتا ہے ’’ولیشھد عذابھما طآئفۃ من المومنین‘‘ (النور ۲) مجرم کو سزا لوگوں کی ایک جماعت کے سامنے دو تاکہ عبرت ہو۔ سپریم کورٹ کی بحث میں وفاقی حکومت کے اٹارنی جنرل کے علاوہ چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے ایڈووکیٹ جنرل بھی شریک ہوئے کہ ایک طرف قرآن کریم کی صراحت ہے اور دوسری طرف اقوامِ متحدہ کا منشور ہے، تو اب ہمیں کیا کرنا ہے؟

ہمارے ملک کے معروف وکیل تھے ایس ایم ظفر صاحب، فوت ہو گئے ہیں، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ انہوں نے ایک دلیل یہ دی کہ قرآن کہتا ہے کہ معاہدات کی پابندی کرو۔ ’’یا ایھا الذین اٰمنوا اوفوا بالعقود‘‘ (المائدہ ۱) اے ایمان والو اپنے عہد پورے کرو۔ دوسری دلیل یہ دی کہ قرآن کریم ’’بالمعروف‘‘ یعنی عرف پر فیصلے کرنے کی تلقین کرتا ہے اور آج کا عالمی عرف یہی ہے۔ اس پر چکوال کی اسپیشل کورٹ کا فیصلہ منسوخ ہوا اور طے ہوا کہ جب معاہدات کی بات آئے گی تو ہم ان کی پابندی کریں گے۔ یہ میں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔

میں خود ہیومن رائٹس کے ماحول کا طالب علم ہوں اور طویل عرصہ سے اس حوالے سے کام کر رہا ہوں۔ ویسے تو ہم پاکستانی گول مول معاملہ کرتے ہیں کہ اِدھر سے دباؤ ہوا تو کچھ اقدامات کر کے اِن کو مطمئن کر دیا، اُدھر سے دباؤ ہوا تو کچھ اقدامات کر کے اُن کو مطمئن کر دیا، لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اگر ہم بین الاقوامی معاہدات کی عملداری کو ویسے قبول کر لیں جیسے یورپی یونین اور بین الاقوامی ادارے کہتے ہیں، تو ہمیں قرآن و سنت کے بیشتر احکام سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔

میں نے یہ باتیں اس لیے عرض کی ہیں کہ یہ عالمگیریت کا زمانہ ہے اور اب علاقائیت برائے نام رہ گئی ہے، سمارٹ فون نے سب کچھ گلوبل کر دیا ہے، آج یہاں خدانخواستہ کوئی واقعہ ہو تو واشنگٹن اور نیروبی والوں کو پہلے پتہ چل جائے گا اور کشمیر والوں کو بعد میں پتہ چلے گا۔ اس لیے آج کے عالمگیر ماحول سے خود واقف ہونا اور اس کے تقاضوں اور تغیرات سے نئی نسل کو واقف کرانا بحیثیت استاذ ہم اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ غلط اور صحیح کی بحث بعد کی ہے لیکن واقفیت تو بہرحال حاصل کرنا ہو گی۔ اور یہ کہ بین الاقوامی معاہدات کس طرح ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں، کہاں وہ ہمارے موافق ہیں اور کہاں مخالف ہیں۔ ایک جگہ اس پر بات ہو رہی تھی تو میں نے عرض کیا کہ ان معاہدات کے حوالے سے جہاں ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے وہاں ہونی چاہیے، اور جہاں نہیں ہو سکتی وہاں ہمیں دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے کہ قرآن و سنت کی صریح نصوص پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے، البتہ جہاں اجتہاد اور تعبیر کی گنجائش ہے وہاں اس کے لیے ہم تیار ہیں۔

بہرحال میں اپنے آپ سے بھی یہ عرض کروں گا اور آپ حضرات سے بھی کہ اپنے ماحول سے واقف ہونا اور اسے اپنے تجربات و مشاہدات کے حوالے سے نئی نسل تک منتقل کرنا ہمارا فریضہ ہے، اور نئی نسل کو مستقبل کی قیادت کے لیے تیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری نئی نسل حماسی شاعر کے وہ اشعار ہمارے لیے پڑھتی رہے کہ جب ان کو پتہ تھا تو ہمیں کیوں نہیں بتایا، اب ہم کیا کریں؟ بس اس پیغام کے ساتھ میں آپ سے اجازت چاہوں گا، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter