نشرِ خبر اور اسلامی تعلیمات

   
۱۰ دسمبر ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بخاری شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ایک مرحلے میں، کچھ دن ایسا ہوا کہ حضورؐ کو اپنے اوپر کچھ اثرات محسوس ہوتے تھے۔ ظاہری بات یہ ہوتی تھی کہ کھانا کھایا ہے ، [پھر بھول کر] دوبارہ مانگا ہے، [بتایا جاتا کہ] ابھی تو آپ نے کھانا کھایا تھا، [فرماتے] اچھا۔ [جب]  کھانا نہیں کھایا   [عرض کیا جاتا کہ]  کھانا کھا لیں، [فرماتے کہ] کھا لیا ہے۔ یہ کوئی پانچ سات دس دن ایسی کیفیت، یہ دنیا داری کے معاملات میں پیش آئی۔ حضورؐ پریشان ہو گئے کہ میرے ساتھ یہ معاملہ؛ کسی کے ساتھ بھی ٹھیک نہیں ہے، لیکن حضورؐ تو اللہ کے پیغمبر ہیں۔

اللہ رب العزت نے خواب کے ذریعے یہ ساری حقیقت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کھولی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، خواب میں، کہ میں لیٹا ہوا ہوں۔ خواب کا منظر بیان فرما رہے ہیں۔ خواب میں میں لیٹا ہوا ہوں۔ ایک آدمی سرہانے آکر کھڑا ہو گیا ہے، ایک پاؤں کی طرف کھڑا ہو گیا ہے۔ آپس میں مکالمہ کر رہے ہیں۔ ایک اِدھر کھڑا ہے، ایک پاؤں کی طرف کھڑا ہے۔ آپس میں گفتگو کر رہے ہیں کہ ان بزرگوں کو کوئی پریشانی ہے؟ کہا، ہاں، ہے۔ کیا پریشانی ہے؟ ان کو اس قسم کی پریشانی ہے کچھ دنوں سے۔ یہ پریشانی ہے کیا؟ کہا کہ ان پر ایک صاحب نے جادو کیا ہے۔ یہودیوں کا معمول تھا جادو کرنا۔ مدینہ منورہ میں یہودیوں کا عام معمول تھا جادو کرنا۔ کس نے کیا ہے؟ لبید بن اعصم، یہ یہودی تھا۔ لبید بن اعصم نے کیا ہے۔ اچھا! کس چیز پر کیا ہے؟ کنگھی کے بال ہیں کچھ، کنگھی ہے، اس پر اس نے کوئی جادو کیا ہے، جس کے اثرات ان کو محسوس ہو رہے ہیں۔ وہ کہاں رکھے ہیں؟ کہا، ’’بئر فی ذروان‘‘ کنواں ہے، اس کے کنارے پر ایک چٹان ہے، جن چیزوں پر پڑھ کر اس نے کیا ہے نا، وہ وہاں چٹان کے نیچے رکھی ہیں۔

یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دو آدمی، فرشتے تھے دو، دونوں نے اس مکالمے کے ذریعے خواب میں بتایا کہ یہ ایک واقعہ ہوا ہے آپ کے ساتھ۔ صبح کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، دو چار ساتھی لیے، وہاں گئے ’’بئر ذروان ‘‘ پر۔ فرماتے ہیں کہ پانی کا رنگ بدلا ہوا تھا، کنواں تھا یا چشمہ تھا۔ اور اونچے اونچے گھنے درخت تھے ’’[ولکان نخلہا] رءوس الشیاطین‘‘۔ چٹان تلاش کی، چٹان کے نیچے کنگھی بھی مل گئی، بال بھی مل گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بال لیے اور تھوڑے فاصلے پر مٹی کھود کر دبا دیے۔ اب واپس آئے۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضورؐ نے فرمایا، عائشہ! وہ جو مجھے پریشانی تھی نا، دو چار دن میں پریشان سا تھا، اس کا اللہ پاک نے مجھے بتا دیا ہے۔ یہ خواب میں نے دیکھا ہے اور فرشتوں نے یہ مجھے بتایا ہے۔ بندہ بھی ہے لبید بن اعصم، یہودی ہے۔ اور یہ بال بھی مل گئے ہیں اور میں جگہ بھی دیکھ آیا ہوں۔ وہ ساری تفصیل جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتا دی۔ تفصیل سن کر حضرت عائشہؓ نے پوچھا، وہ بال اور کنگھی کدھر ہیں؟ فرمایا، وہ مٹی کھود کے وہیں دبا آیا ہوں۔ ’’ھلا نشرتہ؟‘‘ لوگوں کو کیوں نہیں دکھایا آپ نے، اس کو نشر کیوں نہیں کیا؟ ایک بات ہوئی ہے، فرشتوں نے بتا بھی دیا ہے، بندہ بھی متعین ہو گیا ہے، ملزم بھی نامزد ہو گیا ہے، کنگھی بھی مل گئی ہے، بال بھی مل گئے ہیں، دبا کر کیوں آ گئے ہیں؟ ’’ھلا نشرتہ‘‘ آپ نے اس کو نشر کیوں نہیں کیا؟ یعنی لوگوں کو کیوں نہیں بتایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملہ فرمایا: مجھے پریشانی تھی، اللہ پاک نے میری پریشانی دور کر دی ہے، تو میں لوگوں میں شر کیوں پھیلاؤں؟ مجھے ایک پریشانی تھی، اللہ پاک نے خواب کے ذریعے مجھے پریشانی کی وجہ بتا دی ہے، میں اس کو دبا کے آ گیا ہوں۔ تو میں اس کو اب مدینہ منورہ میں نشر کروں تو کہرام مچے گا۔ ایک عام آدمی کے بارے میں یہ بات ہو تو سوسائٹی میں کیا ہوتا ہے۔ تو اللہ پاک نے مجھے اس پریشانی سے آگاہ کر دیا ہے ، بچا لیا ہے، میں اس کو نشر کر کے لوگوں میں شر کیوں پھیلاؤں؟ اس لیے میں خاموشی کے ساتھ؛ دو چار آدمیوں کو پتہ ہے جو میرے ساتھ گئے تھے۔ نہ میں نے مسجد میں اعلان کیا ہے، نہ کہیں کسی کو بتایا ہے، اور وہ کنگھی اور بال دفن کر کے آ گیا ہوں۔

یہاں سے فقہاء یہ مسئلہ بیان فرماتے ہیں، کوئی واقعہ ہو، کوئی خبر ہو، پہلی بات تو ہے کہ تحقیق کرو۔ کوئی خبر آپ کے علم میں آئی ہے تو پہلا دائرہ کیا ہے، خبر کی تحقیق کرو۔ ’’ان جآءکم فاسق بنبا فتبینوا‘‘ جب تک خبر کی تحقیق نہ کر لو کہ ہے یا نہیں ہے، آگے نہیں چلاؤ۔ پہلا دائرہ تو یہ ہے۔ قرآن پاک نے تین دائرے بیان کیے ہیں کسی خبر کے بارے میں۔ کسی واقعے کے بارے میں، خبر کے بارے میں تین دائرے بیان کیے ہیں۔

  1. پہلا دائرہ کیا بیان کیا ہے؟ ’’فتبینوا‘‘۔ کوئی خبر تمہیں پہنچی ہے، اس کے بارے میں پہلے تحقیق کرو کہ ہے یا نہیں ہے۔ فیک تو نہیں ہے کہیں۔ ’’ان تصیبوا قوماً‌ بجہالۃ فتصبحوا علیٰ ما فعلتم نادمین‘‘ (الحجرات ۶)۔ خبر صحیح نہ ہو، تم کوئی کارروائی کر ڈالو، پھر خود ندامت ہو۔ کسی خبر کے بارے میں پہلا درجہ کیا ہے؟ ’’فتبینوا‘‘۔ تحقیق کرو۔ ’’ان تصیبوا قوماً‌ بجہالۃ‘‘ بے خبری میں خبر کو صحیح سمجھ کر تم نے کوئی ری ایکشن دے دیا ہے۔ ’’فتصبحوا علیٰ ما فعلتم نادمین‘‘ بعد میں پتہ چلا کہ خبر تو صحیح نہیں تھی، ری ایکشن ہم نے کر دیا ہے، تو خود شرمساری ہو تمہیں۔ پہلا دائرہ یہ ہے۔
  2. دوسرا دائرہ قرآن پاک نے کیا بیان فرمایا ہے؟ ’’ولو ردوہ الی الرسول [والیٰ اولی الامر منہم] لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم‘‘ (النساء ۸۳)‘‘ ذمہ دار لوگوں تک پہنچاؤ۔ اس خبر کو چلانا ہے یا نہیں چلانا، اہلِ علم، اہلِ تجربہ تک پہنچاؤ، وہ دیکھیں کہ خبر آگے چلانے کی ہے یا نہیں ہے۔
  3. اور تیسرا دائرہ یہ کہ خبر کی تحقیق ہو گئی ہے، ملزم نامزد ہو گیا ہے، جرم پکڑا گیا ہے، اب تیسرا دائرہ یہ ہے کہ اس خبر کے اثرات کیا ہوں گے۔ سچی خبر ہے، صحیح خبر ہے، ثابت شدہ خبر ہے، لیکن اگر معاشرے میں شر پیدا ہوتا ہے خبر کے پھیلانے سے، تو حضورؐ نے فرمایا، نہیں بھئی نہیں۔

یہ میں نے کس لیے عرض کیا ہے؟ آج کل ہمارے ہاں خبر ہی چلتی ہے۔ میرے علم میں ایک خبر آئی ہے، تحقیق کیے بغیر میں نے سو دو سو آدمیوں کو بھیجنی ہے۔ بہت سے واقعات میرے سامنے ہیں، واقعات ہوئے ہیں، ری ایکشن ہوا ہے، گاؤں جل گئے ہیں، محلے جل گئے ہیں۔ دوسرے دن جی، خبر فیک تھی۔

اور یہاں کیا ہے؟ خبر ہے، تحقیق ہوئی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں جا کے آلۂ واردات بھی پکڑا ہے، ملزم بھی نامزد ہو گیا ہے، ساری بات ہو گئی ہے، حضورؐ اس کو نشر نہیں کر رہے۔ اماں جان پوچھ رہی ہیں ’’ھلا نشرتہ؟‘‘ یا رسول اللہ! خبر کا آپ نے اعلان کیوں نہیں کیا؟ آپ نے مسجد میں اعلان کیوں نہیں فرمایا، لوگوں کو بتایا کیوں نہیں؟ اور حضورؐ نے فرمایا کہ عائشہ! میرے ساتھ بات تھی نا، مجھے اللہ پاک نے بچا لیا ہے، محفوظ کر لیا ہے، تو میں خبر پھیلا کر لوگوں میں شر کیوں پیدا کروں؟

اس لیے؛ روزانہ میرا بھی کام یہی ہے، آپ کا کام بھی یہی ہے، ہم خبریں وصول کرتے ہیں، موبائل میری جیب میں بھی ہے، آپ کی جیب میں بھی ہے۔ تو میں نے یہ بات اس لیے عرض کی ہے کہ کوئی خبر؛ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ’’کفیٰ بالمرء کذبا ان یحدث کل ما سمع او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ یہ ارشاد نبوی ہے، کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ جو سنے آگے چلا دے۔ جو بات علم میں آئی ہے، اس کو آگے نشر کر دے، کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے۔

میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ہماری یہ عادت بن گئی ہے کہ کوئی خبر میرے علم میں آئی ہے، میں نے پندرہ بیس، سو دو سو دوستوں کو بھیجنی ہے، یہ دیکھے بغیر کہ خبر کا ری ایکشن کیا ہو گا، اثرات کیا ہوں گے۔ یہ تو دیکھنا ہی نہیں نا کہ خبر ہے بھی کہ نہیں۔ پہلی بات، خبر ہے یا نہیں ہے۔ اس خبر کے پھیلانے سے فائدہ ہو گا، نقصان ہو گا؟ امن کو فائدہ ہو گا کہ شر کو فائدہ ہو گا۔ خبر ثابت ہو گئی ہے پھر بھی یہ دیکھنا ہے کہ یہ ثابت شدہ خبر ہے، اس کے پھیلانے سے لوگوں میں خرابی تو نہیں پیدا ہو گی، شر تو نہیں پیدا ہو گا۔ تو ہمیں اس بارے میں محتاط رہنا چاہیے، خبر کی تحقیق کرنی چاہیے، اس کے اثرات دیکھنے چاہئیں، ورنہ پھر وہی حدیث ہے ’’کفی بالمرء کذبا ان یحدث کل ما سمع‘‘ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو آگے چلا دے، نتیجہ دیکھے بغیر، خبر کی تصدیق کیے بغیر، اللہ پاک ہمیں اس سے محفوظ فرمائیں۔

https://www.facebook.com/reel/1134913008047394

2016ء سے
Flag Counter