حضرت مولانا قاضی عبد الکریم صاحب آف کلاچی پاکستان کے بزرگ علماء میں سے ہیں اور اہم دینی و قومی مسائل پر ان کے وقیع مضامین مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے وہ ایک مسئلہ پر تسلسل کے ساتھ اظہارِ خیال کر رہے ہیں کہ کسی مسلمان ملک کی پارلیمنٹ میں غیر مسلموں کی نمائندگی کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے، اس لیے پاکستان کی پارلیمنٹ کو غیر مسلم ارکان سے خالص کرنے کے لیے دینی حلقوں کو جدوجہد کرنی چاہیے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اصولی طور پر یہ موقف درست ہے کیونکہ ایک اسلامی ریاست کی مجلسِ شوریٰ میں کسی غیر مسلم رکن کی موجودگی اسلامی شورائیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے، اور مشاورت کے مفاد کے بھی خلاف ہے، کیونکہ تمام تر عملی کوتاہیوں اور خرابیوں کے باوجود اپنے دستور کی رو سے پاکستان ایک اسلامی ریاست کہلاتا ہے، اور دستورِ پاکستان میں اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دینے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالے اور قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہ بنائے۔ ان دستوری تصریحات کے مطابق پارلیمنٹ اس بات کی پابند ہے کہ وہ اپنی تمام تر کارروائی قرآن و سنت کی روشنی میں انجام دے۔ اب ظاہر ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کے لیے ارکان کا خود قرآن و سنت پر ایمان ضروری ہے، اور جو شخص قرآن و سنت پر ایمان نہیں رکھتا اسے قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے کا پابند کرنا خود اس کے عقیدہ اور مذہب کے منافی ہے اور اس کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔
ہمارے خیال میں اسلام نے غیر مسلموں کو فوجی خدمات سے جو مستثنیٰ قرار دیا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک اسلامی ملک کی جنگ جہاد کے عنوان سے لڑی جاتی ہے جس کا بنیادی مقصد اسلام کی سربلندی ہے۔ اور کسی غیر مسلم کو اسلام کی سربلندی کے لیے جنگ پر مجبور کرنا اس کے عقیدہ و مذہب کے منافی ہے، اس لیے غیر مسلموں کو خود ان کے مفاد میں فوجی خدمات سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح اسلامی مشاورت بھی چونکہ قرآن و سنت اور اسلامی اصولوں کے دائرہ کی پابند ہے اور غیر مسلموں کو اس کا پابند کرنا ان کے عقائد اور مذہب سے متصادم ہے، اس لیے خود ان کا مفاد اس میں ہے کہ انہیں ان کے عقیدہ و مذہب کے خلاف مشاورت کے دائرہ میں شامل نہ کیا جائے۔
اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قاضی صاحب موصوف کا یہ موقف درست ہے اور ملک کے تمام دینی حلقوں کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ البتہ اس کے ساتھ ایک امر کا اضافہ ضروری ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ میں، جو دستور کی زبان میں مجلسِ شوریٰ کہلاتی ہے، غیر مسلموں کو نمائندگی نہ ملے، تو سوال یہ پیدا ہو گا کہ ان کے اپنے مسائل کے حل اور اس میں ان کی شرکت کا معاملہ کیسے انجام پائے گا؟ اس سلسلہ میں ہماری تجویز یہ ہے کہ غیر مسلموں کے معاملات اور امور کی انجام دہی کے لیے ان کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک مستقل ’’اقلیتی کونسل‘‘ تشکیل دی جائے جو ان کے مفادات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملکی معاملات میں ان کی جائز شرکت کے تقاضوں کو بھی پورا کرے۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے دینی حلقے ان تجاویز کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر اس سلسلہ میں کوئی مؤثر اور ٹھوس راہِ عمل اختیار کریں گے۔