طالبان کے بارے میں مایوسی کا آغاز

   
۱۱ مارچ ۱۹۹۹ء

اسلام آباد میں امارت اسلامی افغانستان کے سفیر مفتی سعید الرحمن حقانی کا ایک انٹرویو ’’اوصاف‘‘ میں نظر سے گزرا جس میں انہوں نے طالبان حکومت کو درپیش مشکلات اور معروضی مسائل کے حوالہ سے طالبان کی پالیسیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے فرمودات میں سے دو باتوں کے بارے میں کچھ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ایک تو افغانستان کی تقسیم کے خدشات کے پس منظر میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان تقسیم ہو۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ یہ خدشہ بلکہ خطرہ ایک عرصہ سے افغان عوام کے سروں پر لٹک رہا ہے اور عالمی طاقتوں کا منصوبہ ہی یہ ہے کہ افغانستان کو شمال اور جنوب میں تقسیم کر کے کابل اور وسطی ایشیا کے درمیان ’’بفر اسٹیٹ‘‘ قائم کر دی جائے تاکہ کابل کی نظریاتی اسلامی حکومت وسطی ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاستوں پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ کابل میں ایک مستحکم اور نظریاتی اسلامی حکومت کا قیام اور اردگرد ممالک پر اس کے اثر انداز ہونے کے امکانات عالمی قوتوں بالخصوص امریکہ کے لیے سوہان روح بنے ہوئے ہیں۔

اس وقت اس ایجنڈے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ کام ہو رہا ہے کہ کابل میں کسی نظریاتی اسلامی حکومت کو مستحکم نہ ہونے دیا جائے۔ اور اس کے شمال اور جنوب دونوں اطراف میں اثر انداز ہونے کے امکانات کو محدود کر کے اس کے اثر انداز ہونے کا رخ مشرق اور مغرب کی طرف موڑ دیا جائے۔ تاکہ جہاں اسلام آباد اور وسطی ایشیا کو طالبان کے اثرات سے محفوظ رکھنے کا اہتمام ہو وہاں سنکیانگ اور تہران کے بارے میں امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے طالبان ہی کی قوت استعمال میں آجائے۔ یہ ایک گہری اور خطرناک چال ہے جو عالمی سیاست کی بساط پر اس وقت پوری مہارت کے ساتھ کھیلی جا رہی ہے اور پاکستان کی افواج کو طالبان کے اثرات سے بچانے کے لیے امریکہ کی طرف سے پاک فوج کے ساتھ تعلقات کار کی بحالی کی نئی پالیسی بھی اسی گیم کا حصہ ہے۔

یہ اس دور کی بات ہے جب طالبان نے قندھار اور اس کے ساتھ گیارہ صوبوں کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا مگر کابل اور ہرات ابھی ان کی دسترس میں نہیں آئے تھے۔ طالبان کا ایک وفد پاکستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کر کے دینی مدارس میں زیر تعلیم افغان طلبہ کو ترغیب دے رہا تھا کہ وہ تعلیمی سرگرمیوں کو کچھ عرصہ کے لیے معطل کر کے طالبان فورس میں شامل ہوں تاکہ طالبان کی تحریک جلد کسی نتیجے پر پہنچ سکے۔ یہ وفد گوجرانوالہ بھی آیا اور راقم الحروف کے ساتھ اس کے ارکان کی ملاقات ہوئی۔ میں نے اس وقت اس وفد سے عرض کیا تھا کہ طالبان کے خلوص، جذبہ، دینداری اور ایثار میں کسی شک کی گنجائش نہیں اور ہم ہر وقت ان کی کامیابی کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔ مگر موجودہ تناظر میں دو باتوں کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔

ایک یہ کہ طالبان کی تحریک کہیں غیر شعوری طور پر افغانستان کی تقسیم کا باعث نہ بن جائے، کیونکہ طالبان کی ذمہ دار قیادت کا بیشتر حصہ پشتون رہنماؤں پر مشتمل ہے اور فارسی بان کمیونٹی کو طالبان کی لیڈرشپ میں اس نوعیت کی نمائندگی حاصل نہیں ہے جو افغانستان کی تقسیم کی راہ میں رکاوٹ بن سکے۔ جبکہ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ طالبان کی قیادت کے ذہن میں اسلامی نظام اور آج کے حالات میں اس کی تطبیق کا عملی خاکہ کیا ہے، یہ بات کچھ واضح نظر نہیں آرہی۔ اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ طالبان کی اسلامی حکومت پورے خلوص اور جذبہ للہیت کے ساتھ نفاذ اسلام کے لیے جو عملی اقدامات اپنے ذہن اور ترجیحات کے مطابق کرے وہ باقی دنیائے اسلام میں کنفیوژن کا باعث بن جائیں۔ اور اس سے مسلم ممالک کی اسلامی تحریکات کو قوت ملنے کی بجائے ان کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ ہوجائے۔

اس واقعہ کو کئی سال گزر چکے ہیں اور اس کے بعد کابل، ہرات، جلال آباد اور مزار شریف جیسے اہم مراکز بھی طالبان کے زیرتسلط آچکے ہیں اور معاملات کافی آگے بڑھ گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میرا ذہن ان خدشات سے نجات حاصل نہیں کر سکا اور دونوں حوالوں سے کوئی ایسی تبدیلی ابھی تک سامنے نہیں آئی جو ان خدشات کے دھبوں کو ذہن کی سلیٹ سے صاف کرنے میں معاونت کرتی ہو۔ اس لیے اگر اسلام آباد میں متعین افغان سفیر مفتی سعید الرحمن حقانی یہ کہہ رہے ہیں کہ طالبان کی حکومت افغانستان کی تقسیم کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی تو ان کا یہ ارشاد یقیناً خوشی اور اطمینان کا باعث ہے اور ہم ان کی کامیابی کے لیے سراپا دعا ہیں۔ مگر اتنی گزارش ضرور کرنا چاہتے ہیں کہ افغانستان کی تقسیم کو روکنے اور اس سلسلہ میں عالمی سازشوں اور امریکی عزائم کو ناکام بنانے کے لیے کچھ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے جن سے طالبان کی حکومت پوری طرح باخبر ہوگی۔ اور اسے ان سے باخبر ہونا بھی چاہیے کیونکہ اس کے بغیر افغانستان اور وسطی ایشیا کو امریکہ کی نئی شکارگاہ بنانے سے نہیں روکا جا سکے گا۔

افغان سفیر کے مذکورہ انٹرویو کا دوسرا اہم نکتہ اسامہ بن لادن کے بارے میں ہے جس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسامہ بن لادن سعودی عرب کی حکومت کے ساتھ طالبان کی اسلامی حکومت کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنے ہیں جس کی وجہ سے ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی گئی ہے اور وہ ناراض ہو کر روپوش ہوگئے ہیں۔ اس کا عام سا مطلب یہ ہے کہ طالبان کی حکومت نے سعودی عرب اور اسامہ بن لادن میں سے ایک کے انتخاب میں سعودی حکومت کو ترجیح دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور اسامہ بن لادن سے مواصلات اور روابط کی سہولتیں واپس لے کر اس فیصلہ پر عملدرآمد کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔

اس پر ان حلقوں نے یقیناً اطمینان کا سانس لیا ہوگا جو ایک عرصہ سے طالبان کے رہنماؤں کے کانوں میں کھسر پھسر کر رہے تھے کہ ایک شخص کی خاطر حکومت کو ناراض کرنا دانش مندی نہیں ہے کہ اسامہ ایک شخص ہے جو اپنی حکومت کا باغی ہے اور اسے اس حد تک اہمیت دینا عقلمندی کی بات نہیں ہے کہ سعودی حکومت کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آجائے ۔مگر اسلامی تحریک کے میرے جیسے نظریاتی کارکنوں کے لیے یہ فیصلہ الجھن کا باعث بنا ہے اور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان ہزاروں کارکنوں کو مایوسی ہوئی ہے جو طالبان کی اسلامی تحریک کو دنیا میں احیائے اسلام کا نقطۂ آغاز سمجھ کر اپنی تمام تر دعائیں، تمنائیں اور ہمدردیاں اس کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔

کیونکہ اسامہ بن لادن ایک شخص کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک سوچ اور فکر کا نمائندہ ہے جو اسلام کی سربلندی اور دنیا میں اسلام کے دوبارہ غلبے اور نفاذ کے لیے موجودہ عالمی نظام اور بین الاقوامی استعماریت کے پورے نیٹ ورک کو مسترد کر کے اسلام کو اس کے مقابل ایک مستقل نظام کے طور پر لانے کے لیے کوشاں ہے۔ اور طالبان کے ساتھ دنیا بھر کی اسلامی تحریکات اور نظریاتی کارکنوں کی ہمدردیوں اور حمایت کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ طالبان کی اسلامی حکومت موجودہ عالمی سسٹم میں ایڈجسٹ ہونے کی بجائے اسلام کو موجودہ عالمی نظام کے بالکل متوازی نظام کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ اور وہ اقوام متحدہ، امریکہ اور موجودہ مسلمان حکومتوں کے نیٹ ورک کا حصہ نہیں بننا چاہتی، اسی وجہ سے اس نے اسامہ بن لادن کو تحفظ اور امن فراہم کر رکھا ہے اور اس کے بارے میں امریکی مطالبات کو خاطر میں نہیں لا رہی۔

دونوں راستے بالکل واضح ہیں۔ ایک طرف مروجہ عالمی نظام ہے، امریکی قیادت ہے، بین الاقوامی ادارے ہیں اور انہی کے زیر سایہ چلنے والی مسلم حکومتیں ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اسلامی تحریکات ہیں، اسلام کے غلبہ کا عزم ہے اور ایڈجسٹمنٹ کی بجائے مروجہ نیٹ ورک کو کلیتاً مسترد کرتے ہوئے اسلام کے اجتماعی اور عالمی کردار کا احیا ہے۔ پہلا راستہ سہولتوں کا ہے، آسائشوں کا ہے اور موجودہ عالمی سسٹم سے بے پناہ فائدے حاصل کرنے کا ہے۔ جبکہ دوسرا راستہ ایثار کا ہے، قربانی کا ہے، فقر و فاقہ کا ہے۔ ایک راستہ شاہ فہد کا ہے جبکہ دوسرا راستہ اسامہ بن لادن کا ہے۔ یہ فیصلہ کن دوراہا ہے جہاں سے طالبان کی اسلامی حکومت نے بالآخر ایک طرف کو مڑ جانا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا انہی کا کام ہے کہ وہ کدھر کا رخ کرتے ہیں۔ البتہ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ بات طالبان کی قیادت سے عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام کا احیا اور غلبہ تو مقدر ہو چکا ہے۔ اور یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ یہ غلبہ مروجہ عالمی سسٹم اور اس کی آلہ کار مسلم حکومتوں کے ساتھ مفاہمت کی صورت میں نہیں ہوگا بلکہ اسامہ بن لادن جیسے مجاہدوں اور درویشوں کے ہاتھوں ہوگا۔ اس لیے اگر اس عالمی انقلاب کا نقطۂ آغاز بننا طالبان کے مقدر میں نہیں ہے تو اس سے اسلامی تحریکات کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ فطرت کا قانون اور تاریخ کا عمل اٹل ہوتے ہیں اور پھر:

تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی!
   
2016ء سے
Flag Counter