پاکستان، افغانستان اور ایران کی کنفیڈریشن کی تجویز

   
تاریخ : 
۲۸ اپریل ۲۰۰۰ء

جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے گزشتہ روز لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں اپنے دورۂ افغانستان کے تاثرات بیان کرتے ہوئے تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان، افغانستان اور ایران پر مشتمل کنفیڈریشن قائم کی جائے اور تینوں ملک اپنے وسائل یکجا کر کے عالم اسلام کے وسیع تر اتحاد کی طرف پیش رفت کا آغاز کریں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے طالبان کی اسلامی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے افغانستان میں مثالی امن قائم کیا ہے اور وہ انتہائی مشکلات اور تکالیف کے باوجود پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کا ہمیں احساس تک نہیں ہے، اس لیے ان کی تجویز یہ ہے کہ پاکستان میں عوامی سطح پر افغانستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ تعاون کے لیے ’’افغان فنڈ‘‘ قائم کیا جائے اور طالبان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے۔ اس سے قبل تنظیم اسلامی پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر اسرار احمد بھی پاکستان اور افغانستان پر مشتمل کنفیڈریشن قائم کرنے کی تجویز پیش کر چکے ہیں مگر ان کی تجویز میں ایران کا ذکر نہیں تھا جبکہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے پاکستان اور افغانستان کی اس مجوزہ کنفیڈریشن میں ایران کو شامل کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

جہادِ افغانستان کے نتیجے میں وسطی ایشیا سے روسی استعمار کی پسپائی کے بعد وسطی اور جنوبی ایشیا کے مستقبل کے سیاسی نقشے کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے اور ہر طبقہ کے اہل دانش اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس سلسلہ میں اظہار خیال کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ دہلی سے شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالہ نے صورتحال کے اس رخ کی نشاندہی کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں میں وسطی ایشیا، افغانستان اور پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں اس خطہ میں مغل ایمپائر دوبارہ زندہ تو نہیں ہو رہا؟ تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر خود راقم الحروف کا وجدان بھی یہی کہتا ہے کہ ایک طرف پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا میں بڑھتے ہوئے روابط اور دوسری طرف جنوبی ہند میں ہندو انتہا پسندی کی روز افزوں منظم ہوتی ہوئی جذباتی تحریکات سے یوں لگتا ہے جیسے ہم پانی پت کی چوتھی اور آخری لڑائی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں جو غالباً وہی لڑائی ہوگی جسے بعض احادیث کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’غزوۂ ہند‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور جس کے بارے میں بعض اللہ والوں کی پیشین گوئیاں تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہیں کہ یہ فیصلہ کن اور آخری جنگ ہوگی جس کے بعد اس خطہ میں اسلام کا پرچم ایک بار پھر پوری آب و تاب کے ساتھ لہرائے گا اور مشرق وسطی اور مشرق بعید کی اسلامی قوتوں کے درمیان جنوبی ایشیا کی یہ پٹی جو خلیج کے طور پر حائل دکھائی دیتی ہے مکمل طور پر کاٹ دی جائے گی۔

اس لیے تاریخی عمل کے ایک منطقی مرحلہ کے طور پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک ایسا تعلق ناگزیر دکھائی دیتا ہے جو دونوں کو ایک متحد قوت کی شکل دے دے اور دونوں کی قوت و وسائل اور توانائیاں یکجا ہو کر ایک بار پھر اسی طرح جنوبی ہند کی انتہا پسند اور جنونی ہندو قوت کے سامنے متحد ہو کر صف بندی کریں جس طرح مرہٹوں کی خوفناک یلغار کے مقابلہ میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی دعوت پر والیٔ افغانستان احمد شاہ ابدالیؒ نے پانی پت کے میدان میں معرکہ بپا کر کے مرہٹوں کی قوت کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ مگر اس میں ایران کی شرکت کی بات تاریخی پس منظر کے حوالہ سے ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اور ہم اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔

ماضی کا ریکارڈ یہ کہتا ہے کہ ایران کے صفوی حکمرانوں نے جہاں ایک طرف ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلاف معرکۂ کارزار ہر دور میں سرگرم رکھا وہاں وہ وسطی ایشیا میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے اور متحدہ ہندوستان کی مسلم حکومت کو خلافتِ عثمانیہ سے کاٹ کر رکھنے کی پالیسی پر بھی مسلسل عمل پیرا رہے، اور ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ دہلی پر ان افغانوں کی حکومت قائم نہ ہونے پائے جو مذہبی طور پر اہل السنۃ والجماعۃ کے خالص رجحانات کے حامل تھے۔ چنانچہ افغانوں کے مقابلہ میں مغل حکمران ہر دور میں ایران کے صفوی بادشاہوں کے منظورِ نظر رہے اور بابر بادشاہ کو نہ صرف سمرقند کے قبضہ میں صفیوں کا تعاون حاصل رہا بلکہ شیر شاہ سوری کے ہاتھوں بابر کی شکست کو اس کے بیٹے ہمایوں کے ذریعے دوبارہ شکست میں تبدیل کرنے میں بھی صفوی بادشاہت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ جبکہ شیر شاہ سوری کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اہل سنت کے عقائد اور رجحانات کا حامل تھا اور اس کے شاہی سکہ پر ایک طرف اس کا نام بطور بادشاہ درج تھا اور دوسری طرف حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے اسمائے گرامی کندہ تھے جو شیر شاہ سوری کی حکومت کے مذہبی رجحانات کی نشاندہی کر رہے تھے۔

تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میرا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ اگر شیر شاہ سوری کے جانشینوں کو ہمایوں کے ہاتھوں شکست نہ ہوتی اور افغان حکومت کی جگہ دہلی میں مغل حکومت قائم نہ ہوتی تو برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں اسلام ایک اسلامی نظریاتی حکومت کے طور پر سامنے آتا، اور اس خطہ کا نہ صرف خلافت عثمانیہ کے ساتھ باقاعدہ تعلق قائم ہو جاتا بلکہ دعوت و تبلیغ کے مسلسل ماحول کی وجہ سے یہ صورتحال یقیناً نہ سامنے آتی کہ انگریزوں کے ہاتھوں مغل حکومت کے خاتمہ کے بعد بھی اس خطہ میں ہندوؤں ہی کی اکثریت باقی رہتی۔ مگر افغانوں کے مقابلہ میں مغلوں کا مزاج نسبتاً سیکولر تھا جنہوں نے مذہب کی بجائے علاقائی کلچر کے فروغ کو ترجیح دی اور اسلامی حکومت کی راہ ہموار کرنے کی بجائے مسلم حکومت کے ٹائٹل پر قناعت کرتے ہوئے پورے جنوبی ایشیا میں اسلام کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیا۔ شیر شاہ سوری کی حکومت کے خاتمہ میں یقیناً اس کے جانشینوں کی نا اہلی کا بڑا دخل تھا مگر اس میں سب سے اہم کردار ایران کے صفوی حکمرانوں کا رہا ہے۔ اور اس کے بعد بھی دہلی کے معاملات میں ان کی مداخلت کا یہ حال تھا کہ اورنگزیب عالمگیر کی اسلامی حکومت کو کامیاب ہوتا دیکھ کر اس کے بیٹوں اور اہل خاندان کو ورغلانے اور پھر دہلی پر نادر شاہ کے حملہ، وحشیانہ قتل عامہ اور لوٹ مار کے مراحل طے کر جانے میں بھی ایرانی حکمرانوں کو کوئی عار محسوس نہیں ہوئی۔ تاریخ شاہد ہے کہ دلی پر جب تک مسلمان حکومت رہی اسے ایرانیوں کی مداخلت کا ہمیشہ سامنا رہا۔

چنانچہ جب میرے جیسا طالب علم اس تاریخ کو پڑھتا ہے تو اسے یہ سن کر ہی پریشانی ہونے لگتی ہے کہ کیا پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں ایک بار پھر اسی دور میں واپس چلی جائیں گی اور ہمارے مقدر میں کیا کوئی اور نادر شاہ بھی تاریخ نے اپنے دامن میں چھپا رکھا ہے؟ اس لیے محترم ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب سے بصد ادب و احترام گزارش ہے کہ عالم اسلام کے اتحاد کے لیے ان کا جذبہ اپنی جگہ قابل قدر ہے اور بلاشبہ یہ ان کے عظیم باپ علامہ محمد اقبالؒ کی خواہش اور آرزو بلکہ ہر باشعور اور حساس مسلمان کی تمنا ہے، مگر اس کے لیے تجاویز کا خاکہ مرتب کرتے ہوئے زمینی حقائق اور تاریخی پس منظر کو نظر انداز نہ کریں۔ کیونکہ ماضی کے تلخ تجربات سے آنکھیں بند کر لی جائیں تو مستقبل کے نقشے میں صحیح رنگ بھرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter