حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بھی رخصت ہوئے

   
تاریخ : 
۱۰ مئی ۲۰۰۹ء

حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ میرے والد گرامی تھے، استاذ محترم تھے، شیخ و مربی تھے، اور ہمارے درمیان دوستی اور بے تکلفی کا وہ رشتہ بھی موجود تھا جو باپ اور اس کے بڑے بیٹے کے مابین ہوتا ہے۔ وہ ۵ مئی کو رات ایک بجے کے لگ بھگ کم و بیش ایک صدی اس دنیا میں گزار کر دارِ آخرت کی طرف کوچ کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں خود ہجری اعتبار سے تریسٹھ برس کا ہو چکا ہوں اور میرے جذبات و تاثرات کا وہی عالم ہے جو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کا اپنے والد گرامی حضرت مولانا سید محمد زکریا بنوریؒ کی وفات پر تھا۔ وہ مولانا سید یوسف بنوریؒ کی وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل اس جہان فانی سے رخصت ہوئے تھے۔ جب اپنے بزرگ باپ کی وفات پر مولانا بنوریؒ رو رہے تھے تو کسی نے دریافت کیا کہ حضرت! آپ کے والد بزرگوار نے ماشاء اللہ خاصی عمر پائی اور بہت اچھی زندگی گزاری ہے، آپ روتے کیوں ہیں؟ فرمایا کہ روتا اس لیے ہوں کہ اب مجھے ’’ابے یوسف‘‘ کہہ کر بلانے والا نہیں رہا۔ چنانچہ میری کیفیت بھی کچھ اس طرح کی ہے اور سوچتا ہوں کہ اب ’’زاہد کو بلاؤ‘‘ کون کہے گا؟ اور ’’زاہد ادھر آؤ‘‘ کہہ کر بلانے والا کون ہوگا؟

وفات کے وقت ان کی عمر ہجری حساب سے اٹھانوے برس تھی کہ وہ اپنا سن ولادت ۱۳۳۲ ہجری بتایا کرتے تھے۔ ان کے والد محترم جناب نور احمد خان مرحوم شاہراہ ریشم پر واقع شنکیاری سے چند میل کے فاصلے پر کڑمنگ کے قریب ایک پہاڑی چوٹی ’’چیراں ڈھکی‘‘ پر رہتے تھے اور چھوٹے موٹے زمیندار تھے۔ سوات کے معروف روحانی پیشوا حضرت اخوند زادہ عبد الغفورؒ سواتی سے ان کا بیعت و عقیدت کا تعلق تھا اور وہ ضلع مانسہرہ کے طول و عرض میں آباد سواتی قوم میں سے تھے۔ والد محترمؒ نے دینی تعلیم اپنے چھوٹے بھائی مولانا عبد الحمیدؒ سواتی، جن کا گزشتہ سال اپریل میں انتقال ہوا، کے ہمراہ مانسہرہ، گوجرانوالہ، جہانیاں منڈی، وڈالہ سندھواں اور دیگر علاقوں کے دینی مدارس میں حاصل کی اور ۱۹۴۱ء میں دارالعلوم دیوبند پہنچے جہاں دونوں بھائیوں نے دورۂ حدیث کیا اور حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی سے شرف تلمذ کے ساتھ سند فراغت حاصل کی۔ ۱۹۴۳ء میں وہ گکھڑ ضلع گوجرانوالہ آگئے اور جی ٹی روڈ پر واقع مسجد بوہڑ والی میں امامت و خطابت کا سلسلہ شروع کیا جو ۲۰۰۰ء تک مسلسل جاری رہا۔ پانچ وقت نمازوں کی امامت، نماز فجر کے بعد بلاناغہ درس قرآن و حدیث، اور جمعہ و عیدین کے خطبوں کے علاوہ درس نظامی کے مختلف درجات کی تدریس کم و بیش ساٹھ برس تک ان کا روز مرہ کا معمول رہی۔وقت کی پابندی میں لوگ مولانا ظفر علی خان مرحوم کے ساتھ والد گرامیؒ کا نام بھی لیا کرتے تھے اور عام طور پر ان کےبارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ لوگ ان کے معمولات کو دیکھ کر اپنی گھڑیاں سیدھی کیا کرتے ہیں۔

۱۹۵۲ء میں چچا محترم مولانا صوفی عبد الحمیدؒ سواتی نے گھنٹہ گھر گوجرانوالہ کے قریب مدرسہ نصرۃ العلوم قائم کیا تو والد محترمؒ اس کی تدریس سے وابستہ ہوئے اور صدر مدرس، شیخ الحدیث، اور ناظم تعلیمات کی حیثیت سے ۲۰۰۰ء تک خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ نارمل سکول گکھڑ میں اساتذہ کی تربیت کے لیے جے وی، ایس وی، اور سی ٹی طرز کے کورسز کے شرکاء کو روزانہ درس قرآن کریم کی صورت میں قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر سے بہرہ ور کرنے کا سلسلہ بھی کم و بیش ربع صدی تک جاری رہا۔ ایک بار ہم نے ان اداروں سے تعلیم پانے والے حضرات کے اعداد و شمار کا محتاط اندازے سے حساب لگانا چاہا تو یہ نتیجہ سامنے آیا کہ والد مرحوم کے براہ راست شاگردوں کی تعداد تیس ہزار سے کسی طرح کم نہیں ہوگی جو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اور کسی نہ کسی شعبے میں دینی اور تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ مجھے دنیا کے مختلف حصوں میں وقتاً فوقتاً جانے کا موقع ملتا رہتا ہے، امریکہ، یورپ، افریقہ، مشرق بعید، مشرق وسطیٰ، اور وسط ایشیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں دیکھا جہاں ان کا کوئی شاگرد موجود نہ ہو اور دینی خدمات سر انجام نہ دے رہا ہو۔

والد محترم نے دو شادیاں کی تھیں۔ ہماری دونوں ماؤں سے ہم بارہ بھائی اور تین بہنیں پیدا ہوئے۔ تین بھائی بچپن میں ہی فوت ہوگئے جبکہ نو بھائی جوان ہوئے جو سب کے سب دینی تعلیم سے آراستہ ہیں، عالم ہیں، قاری ہیں، حافظ ہیں اور دینی تعلیم کے کسی نہ کسی شعبے سے وابستہ ہیں۔ تینوں بیٹیاں دینی تعلیم سے بہرہ ور ہیں، قرآن کریم کی حافظہ ہیں، درس نظامی کی تعلیم سے بھی فیض یافتہ ہیں، اور دینی علوم کی تدریس میں مصروف ہیں۔ والد محترم خود حافظ قرآن نہیں تھے مگر سب بیٹوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم حفظ کرایا۔ جب ان سے کوئی پوچھتا کہ حضرت کیا آپ حافظ ہیں؟ تو جواب میں کہتے کہ ’’میں حافظوں کا باپ ہوں‘‘۔ ایک بار ہم نے ان کے بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں، پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں اور باقی اولاد میں قرآن کریم کے حافظوں کا شمار کیا تو ان کی تعداد چالیس کے لگ بھگ تھی، چنانچہ وہ فی الواقع حافظوں کے باپ تھے۔

وقت کی پابندی کے ساتھ ساتھ ان کی یادداشت اور علوم کا ذہنی استحضار بھی ضرب المثل تھا۔ گزشتہ نو برس سے صاحب فراش تھے، کروٹ اپنے اختیار سے نہیں بدل سکتے تھے، مگر یادداشت کا یہ عالم تھا کہ کتاب کے باب اور صفحہ نمبر کے ساتھ حوالہ بتایا کرتے تھے۔ اس حالت میں بھی ہمیں کسی مسئلے یا حوالے کے بارے میں تردد ہوتا تو ان سے پوچھتے اور وہ جس کتاب اور جس صفحے کا حوالہ دیتے وہ وہیں مل جاتا تھا۔ ضعف کی عمر میں اخبار باقاعدگی سے سنتے، حالات سے باخبر رہتے اور ان پر تبصرہ بھی کیا کرتے تھے۔ جمعہ کے روز شام کو تھوڑی دیر کے لیے ان کے پاس میرا حاضری کا معمول تھا۔ وہ مجھ سے ملکی حالات کے بارے میں دریافت کرتے تھے، مجاہدین کی سرگرمیاں، اور سوات و دیگر شمالی علاقوں کے حالات ان کی دلچسپی اور پریشانی کے خاص موضوعات تھے۔ آخری دنوں میں سوات کے بارے میں خبریں سن کر اور حالات معلوم کر کے آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے۔ کتاب اور علم کے ساتھ دلچسپی آخر وقت تک قائم رہی، کسی نئی کتاب کے بارے میں معلوم ہوتا تو فرمائش کر کے منگواتے تھے اور کچھ نہ کچھ سنتے رہتے تھے۔

میں والد گرامیؒ کی وفات سے چند روز قبل برطانیہ اور سعودی عرب کے سفر سے واپس آیا ہوں۔ جانے سے پہلے میں نے انہیں بتایا اور دعا کی درخواست کی تو دعا کے ساتھ کہنے لگے سنا ہے کہ حدیث کی کتاب ’’مسند ابی یعلی‘‘ چھپ گئی ہے، وہ میرے لیے لیتے آنا۔ اس کتاب کا محدثین کے ہاں اکثر تذکرہ ملتا ہے اور اس کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں مگر مطبوعہ صورت میں کافی عرصے سے ناپید تھی۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، اور جدہ کے نصف درجن سے زائد کتب خانوں میں تلاش کے بعد وہ کتاب حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ مگر گزشتہ جمعہ کے روز میں نے جب مسند ابی یعلی ان کی خدمت میں پیش کی تو وہ معذوری کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکے تھے اور گفتگو بھی اشاروں میں ہی کر پا رہے تھے۔

والد گرامیؒ عمر بھر دینی و قومی تحریکات میں حصہ لیتے رہے، تحریک آزادی میں جمعیۃ علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا، ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں کم و بیش دس ماہ اور ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیٰ میں ایک ماہ تک جیل میں رہے۔ ایک طویل عرصہ تک جمعیۃ علمائے اسلام ضلع گوجرانوالہ کے امیر رہے اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں سرگرم حصہ لیتے رہے۔ وہ اہل سنت کے دیوبندی مکتب فکر کے علمی ترجمان سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے مسلکی اختلافات کے حوالہ سے مختلف موضوعات پر پچاس سے زیادہ ضخیم کتابیں لکھی ہیں جن کے متعدد ایڈیشن طبع ہو چکے ہیں۔ ان کے انداز تحقیق، اسلوب بیان، اور علمی ثقاہت کا ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم نے بھی کھلے دل کے ساتھ اعتراف کیا ہے جن کی کتاب ’’دو اسلام‘‘ کا تحقیقی جواب والد محترمؒ نے ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران ملتان جیل میں تحریر کیا تھا۔ ڈاکٹر برق مرحوم نے اپنی کتاب ’’دو اسلام‘‘ کے آخری ایڈیشن میں لکھا ہے کہ اس کتاب کے جواب میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے جس کتاب کے اسلوب بیان، تحقیق، اور متانت سے وہ متاثر ہوئے ہیں وہ مولانا سرفراز خان صفدر کی کتاب ’’صرف ایک اسلام‘‘ ہے۔

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی وفات پر لوگوں کو روتے ہوئے دیکھ کر مولانا سید حسین احمدؒ مدنی نے کہا تھا کہ ’’تم کیوں روتے ہو، تمہارے لیے تو ہم ہیں۔ رونے کا حق تو ہمارا ہے کہ ہمارے لیے کوئی نہیں رہا‘‘۔ آج اہل علم یتیم ہوگئے ہیں کہ مشکل وقت میں رہنمائی کے لیے جن سے رجوع کیا کرتے تھے وہ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ہمیں ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter