اسلامی سربراہ کانفرنس کا مایوس کن اجلاس

   
اپریل ۲۰۰۸ء

روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ ۱۵ مارچ کے مطابق سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار میں منعقد ہونے والے اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل جناب اکمل الدین اوغلو نے کہا ہے کہ مغربی اور اسلامی ممالک کے مابین ’’اسلام فوبیا‘‘ کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ سرگرمیوں، مذاکرات اور باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مذہب، ہمارے پیغمبر اور ہمارے بھائیوں کو ہدف بنانے والے غیر ذمہ دارانہ حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس سے تنظیم کے سیکرٹری جنرل کا یہ خطاب توہین رسالت کے حوالے سے مغربی دانشوروں کی مہم کے معروضی تناظر میں اصولی طور پر درست ہونے کے باوجود ہمارے نزدیک انتہائی مایوس کن ہے اور مسلم عوام کی امیدوں اور توقعات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ دنیا بھر کے اسلامی حلقوں کو توقع تھی کہ اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں قرآن کریم اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی کے حالیہ واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے گا اور مسلم حکومتوں کے نمائندے باہم مل بیٹھ کر اس سلسلے میں مغرب کے ساتھ دوٹوک بات کرنے کی حکمت عملی اختیار کریں گے، لیکن حسب سابق اس اجلاس میں بھی بات تقاریر اور رسمی قراردادوں سے آگے نہیں بڑھی اور اس کی کارروائی پڑھ کر ہمیں یوں محسوس ہوا ہے کہ یہ حکومتوں کی سطح کا کوئی اجلاس نہیں تھا، بلکہ کسی بین الاقوامی این جی او کی رسمی سی میٹنگ تھی جس میں موقف کے اظہار اور اس کے حق میں تقاریر اور قراردادوں پر قناعت کرنے میں ہی عافیت سمجھی گئی ہے۔

دوسری طرف ڈنمارک کے اخبارات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی بار بار اشاعت اور ہالینڈ میں قرآن کریم کے بیان کردہ واقعات کے حوالے سے ایک تحقیر آمیز فلم کی تیاری کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ایک جریدے ہفت روزہ ’’ہیومن ایونٹس‘‘ نے اعلان کیا ہے کہ وہ جناب نبی اکرمؐ کے بارے میں ایک کتاب مفت تقسیم کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے جس کے بارے میں مسلمان حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ توہین آمیز کتاب ہے۔ روزنامہ پاکستان لاہور ۲۰ مارچ ۲۰۰۸ کی خبر کے مطابق اس دل آزار کتاب کا نام ’’دنیا کا عدم برداشت پر مبنی مذہب اور اس کے بانی محمد کی حقیقت‘‘ بتایا جاتا ہے۔ اس کا مصنف رابرٹ اسپنسر ہے۔ یہ کتاب ہفت روزہ ’’ہیومن ایونٹس‘‘ نے شائع کی ہے اور اسے پورے امریکہ اور یورپ میں مفت تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ مسلم حکومتوں کی بے حسی اور عدم سنجیدگی کا نتیجہ ہے کہ مغرب میں توہین رسالت اور توہین قرآن کریم کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دنیائے اسلام کے عوامی اور دینی حلقوں کی طرف سے مسلسل احتجاج کے باوجود وقفہ وقفہ سے نئے دل آزار واقعات سامنے آ رہے ہیں۔

جہاں تک مسلمانوں پر عدم برداشت کے الزام کا تعلق ہے، یہ واضح طور پر مغرب کی دھاندلی اور فریب کاری ہے، اس لیے کہ مغرب کی یونیورسٹیاں اور علمی ادارے صدیوں سے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بحث کر رہے ہیں اور مقالات، مضامین اور تجزیے لکھتے آ رہے ہیں، جن میں اختلاف بھی ہوتا ہے اور تنقید بھی موجود ہوتی ہے، لیکن مسلمانوں نے ان کے بارے میں کبھی عدم برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ دلیل کا جواب ہمیشہ دلیل سے دیا ہے۔ البتہ اختلاف اور توہین میں ہم نے ہمیشہ فرق کیا ہے اور سنجیدہ تنقید اور استہزا و تمسخر کے درمیان فاصلوں کو قائم رکھا ہے۔ اسلامیان عالم کو قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی کے حوالے سے جو بے پناہ محبت اور عقیدت ہے، اس کا فطری تقاضا ہے کہ وہ ان دونوں کے حوالے سے توہین، استہزا اور تمسخر کی کوئی بات برداشت نہ کریں۔ اس لیے اگر وہ ایسے کسی واقعہ پر غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے جذبات میں گرمی پیدا ہوتی ہے تو یہ بالکل فطری بات ہے اور مغرب کو اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔

مغرب اگر اپنی کتاب مقدس اور حضرت مسیح بن مریم علیہما السلام کی راہنمائی سے عملاً دستبرداری اختیار کر لینے کے بعد ان کے ساتھ عقیدت و محبت سے محروم ہو چکا ہے اور اس کی جذباتیت بے حس ہو چکی ہے تو اسے اس کا بدلہ مسلمانوں سے نہیں لینا چاہیے۔ اور نہ ہی یہ توقع رکھنی چاہیے کہ مسلمان بھی مغرب کی مسیحی امت کی طرح دینی تعلیمات کی راہنمائی سے دستبردار ہو جائیں گے اور قرآن کریم اور رسول اکرمؐ کے ساتھ جذباتی وابستگی کو خیر باد کہہ دیں گے۔

باقی رہی بات آزادیٔ رائے اور آزادیٔ صحافت کی تو ہم مغرب کا یہ موقف تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے کہ مغرب کے ہر ملک میں ’’ازالہ حیثیت عرفی‘‘ کے عنوان سے اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کا قانون موجود ہے اور کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی حیثیت عرفی اور معاشرتی سٹیٹس کو مجروح ہوتا محسوس کرے تو اس کے تحفظ کے لیے قانون سے رجوع کرے۔ اور صرف مغرب نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کا قانون اپنے ہر شہری کو یہ تحفظ فراہم کرتا ہے، اس لیے اگر ایک عام شہری اپنی حیثیت عرفی کے قانونی تحفظ کا حق رکھتا ہے تو حضرات انبیائے کرام علیہم السلام، بالخصوص حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ حق ہے کہ ان کے تاریخی مقام اور عرفی حیثیت کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر قانون بنایا جائے اور دنیا کے کسی بھی شخص کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبروں اور دنیا کے اربوں انسانوں کے محبوب مذہبی پیشواؤں کے بارے میں استہزا، تمسخر ، تحقیر اور گستاخی کا لہجہ اختیار کر سکے۔

اسلامی کانفرنس تنظیم کے مذکورہ سربراہی اجلاس میں عالم اسلام کے دیگر مسائل بھی زیر بحث آئے ہیں جن میں فلسطین کی صورتحال کو بطور خاص زیرغور لایا گیا ہے لیکن ان مسائل میں بھی رسمی خطابات اور قراردادوں سے ہٹ کر کوئی سنجیدہ پیشرفت اور لائحہ عمل سامنے نہیں آیا جس سے مایوسی میں اضافہ ہوا ہے اور ہمارے خیال میں مسلم حکومتوں سے دنیا بھر کے مسلم عوام کی اسی مایوسی سے اس ردعمل نے جنم لیا ہے جسے انتہا پسندی، دہشت گردی اور بنیاد پرستی قرار دے کر اس کے خلاف عالمی سطح پر باقاعدہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس مبینہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اسباب میں جہاں مغرب کی سیاسی قیادت اور نام نہاد سیکولر دانش کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جانب دارانہ اور معاندانہ رویہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے، وہاں مسلم ممالک کے حکمران طبقات کا غیر سنجیدہ طرز عمل، مجرمانہ تغافل اور مغرب کے سامنے ان کا فدویانہ رویہ بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے جسے دور کیے بغیر اس مبینہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہے جو اصلاح احوال کے معروف طریقوں پر مسلمانوں کے رہے سہے اعتماد کو بھی دھیرے دھیرے پسپائی کی طرف دھکیلتی جا رہی ہے۔

ہمارے خیال میں اس صورتحال میں سب سے زیادہ ذمہ داری مسلم حکومتوں اور عالم اسلام کے حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں اور اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم کو رسمی قراردادوں اور خطابات کے بجائے عملی اقدامات اور مسلم امہ کی جرأت مندانہ قیادت کا فورم بنائیں کیونکہ اس کے بغیر معاملات کا رخ صحیح سمت میں موڑنے کا اور کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔

   
2016ء سے
Flag Counter