صنعتی مزدور کو پیش آمدہ مسائل اور معاشی تحفظ کے فقدان کو دور کرنے کے لیے مختلف حضرات اور پارٹیاں اپنے اپنے پروگرام پیش کر رہی ہیں، اور صنعتی مزدور کے لیے مختلف مراعات اور سہولتوں کا اعلان کر رہی ہیں۔ دین پسند عوام اور علماء حق کی نمائندہ تنظیم ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کے مرکزی قائدین بھی اس سلسلہ میں کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لیے سوچ بچار کر رہے (ہیں) اس لیے یہ سوال اٹھانے کا مناسب وقت یہی ہے کہ اسلام نے اپنے اقتصادی اور معاشی نظام میں صنعتی مزدور کو کیا حیثیت دی ہے؟ کیونکہ جب تک اس حیثیت کی وضاحت اور تعین نہیں ہوتا، صرف چند ایک مراعات اور سہولتوں سے مزدور کے مسائل وقتی طور پر دب تو سکتے ہیں، مستقل طور پر حل نہیں ہو سکتے۔ اس خیال کے پیش نظر علماء کرام اور اہلِ اجتہاد کی توجہ اس طرف مبذول کرا رہا ہوں کہ اس سلسلہ میں جلد از جلد قوم کی راہنمائی فرمائیں۔
(۱) بعض لوگوں نے مزدور کو کارخانہ کی ملکیت کے حقوق میں حصہ دار قرار دیا ہے۔ اس صورت میں یہ مسئلہ ’’شرکتِ عقد‘‘ کی صورت اختیار کر جائے گا اور مزدور کارخانہ کی ملکیت اور منافع دونوں میں حصہ دار اور شریک ہو گا۔ کیا یہ صورت کسی بھی جہت سے درست ہے؟
(۲) بعض حضرات صنعتی مزدور کو ’’اجیرِ محض‘‘ کی حیثیت دے کر کارخانہ دار اور مزدور کے مابین طے پا جانے والے معاوضہ کو ہی اس کا حقِ محنت قرار دیتے ہیں۔ اس صورت میں یہ مسئلہ ’’باب الاجارہ‘‘ سے متعلق ہو گا اور مزدور اس طے شدہ معاوضہ کے علاوہ قانونی طور پر کسی اور چیز کا مستحق نہیں ہو گا۔ کیا یہ صورت درست ہے؟
اور اس صورت میں یہ اشکال بھی سامنے آتا ہے کہ کیا اجیر (مزدور) کی محنت سے حاصل ہونے والا منافع اس مسئلہ کو ’’باب الاجارہ‘‘ سے متعلق رہنے بھی دیتا ہے یا نہیں؟ اور کیا ’’باب الاجارہ‘‘ میں کوئی ایسی شکل بھی ہے کہ اجیر کی محنت کاروبار (صنعت) کی شکل اختیار کر کے منافع پر منتج ہو؟
(۳) کچھ بزرگوں کا خیال ہے کہ صنعتی مزدور کو فقہی اصطلاح میں ’’مضارب‘‘ قرار دے کر منافع میں حصہ دار ٹھہرایا جائے۔ اس صورت میں کارخانہ دار (رب المال) اور مزدور (مضارب) کے مابین طے پانے والا معاہدہ ’’مضاربۃ‘‘ بن جائے گا اور مزدور نصف، ثلث، ربع یا کسی بھی نسبت سے منافع کا حصہ پائیں گے۔
لیکن اس صورت میں ’’اجرت‘‘ یا معاوضۂ خدمت‘‘ کا سوال ختم ہو جاتا ہے۔ تو کیا اگر کارخانہ دار کو ’’رب المال‘‘ اور کارخانہ میں کام کرنے والے مزدوروں اور کارکنوں کی مجموعی ہیئت کو ’’مضارب‘‘ اور ان کے مابین عقد کو ’’مضاربۃ‘‘ قرار دے دیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ ہے؟
کیا فرماتے ہیں علماءِ دین و مفتیانِ شرعِ متین بیچ اس مسئلہ کے؟