نیویارک کی امیگریشن / قرآن کریم کا مقصدِ نزول

   
۳ اگست ۲۰۱۰ء

۲۲ جولائی کو نیویارک پہنچا تھا اور کم و بیش چار پانچ دن مصروف رہنے کے بعد اب بالٹیمور میں ہوں۔ جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر ہمارے جیسے لوگوں کے لیے امیگریشن کا مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے جس سے کم و بیش ہر دفعہ گزرنا پڑتا ہے، اس سال بھی اس آزمائشی مرحلہ سے گزرنا پڑا۔ گزشتہ سال اہلیہ بھی ساتھ تھیں اور امیگریشن کے عملے نے ہم دونوں کو جہاز سے اترتے ہی قابو کر لیا تھا، میں اس صورتحال کا عادی تھا مگر اہلیہ کے لیے یہ پہلا موقع تھا وہ بہت گھبرائیں مگر میں نے تسلی دی کہ پریشان نہ ہونا دو تین گھنٹے کی پوچھ گچھ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کم و بیش تین گھنٹے کاغذات کی جانچ پڑتال، سامان کی تلاشی اور سوالات و جوابات کے بعد ہمیں انٹری دے دی گئی۔ دراصل ’’محمد‘‘ اور ’’خان‘‘ دونوں میرے نام کا حصہ ہیں، ان میں سے کوئی لفظ بھی نام میں شامل ہو تو اسے چیکنگ کے لیے الگ کر لینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ میرا معاملہ تو ڈبل ہے کہ میرا نام پاسپورٹ میں ’’محمد عبد المتین خان‘‘ درج ہے، اس لحاظ سے میں دو آتشہ ہوں اور نیویارک ایئرپورٹ پر کئی بار ان دو نسبتوں کے ثمرات سمیٹ چکا ہوں۔

مگر اس سال ایک اور الجھن کھڑی ہو گئی جس نے دو گھنٹے زیادہ لے لیے اور میں امیگریشن، سکیورٹی چیکنگ اور کسٹم کے مراحل کم و بیش ساڑھے پانچ گھنٹے میں عبور کر پایا۔ وہ الجھن یہ تھی کہ میرا پورا نام جو شناختی کارڈ پر درج ہے ’’محمد عبد المتین خان زاہد‘‘ ہے۔ گزشتہ پاسپورٹوں پر یہ پورا نام درج ہوتا تھا مگر کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ میں نام کی طوالت کی وجہ سے ’’زاہد‘‘ حذف کر دیا گیا ہے، اس کی وجہ پوچھی گئی تو بتایا گیا کہ نئے پاسپورٹ میں اتنے لمبے نام کی گنجائش نہیں ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ پاسپورٹ کے حوالے سے لگے ہوئے ویزوں میں آخری نام ’’زاہد‘‘ ہے جبکہ اس پاسپورٹ میں آخری نام ’’خان‘‘ درج ہے۔ اس کیفیت میں بھی چار پانچ انٹرنیشنل سفر کر چکا ہوں کہیں کوئی الجھن پیش نہیں آئی مگر اس بار نیویارک ایئرپورٹ پر جس امیگریشن آفیسر سے واسطہ پڑا وہ شک میں پڑ گیا۔ میں اس الجھن کو حل کرنے کے لیے پرانا پاسپورٹ ساتھ رکھتا ہوں جو اس شک کو دور کر دیتا ہے مگر امیگریشن آفیسر نے مجھ سے کچھ پوچھے بغیر دو گھنٹے اس عقدے کو حل کرنے میں صرف کر دیے۔ کمپیوٹر پر ریکارڈ کو بار بار چیک کرنے کے علاوہ مختلف مقامات پر ٹیلی فون بھی کرتا رہا اور دو گھنٹے کی تگ و دو کے بعد مجھے کہا کہ ویزا پر نام اور ہے جبکہ پاسپورٹ میں مختلف نام درج ہے اس لیے۔ مگر ’’اس لیے‘‘ سے آگے کچھ کہنے سے پہلے میں نے اسے مزید گفتگو سے روک دیا اور بیگ سے پرانا پاسپورٹ نکال کر اس کے آگے رکھ دیا۔ اس نے دونوں پاسپورٹوں کو بار بار دیکھا اور بالآخر اس کا شک دور ہوگیا۔ پھر سامان کی تلاشی اور کاغذات کی چیکنگ وغیرہ میں تین گھنٹے مزید لگ گئے اور میں صبح ۹ بجے کے لگ بھگ جہاز سے اترنے کے بعد اڑھائی بجے ایئرپورٹ سے باہر نکل پایا۔ اس بار سوالات میں ایک نئے سوال کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ تم یہاں تقریروں کے پروگرام پر آتے ہو؟ میں نے کہا کہ پروگرام طے کر کے تو نہیں آتا لیکن چونکہ مذہبی معلم ہوں اس لیے کہیں تقاضہ ہوتا ہے تو انکار بھی نہیں کرتا اور حسب موقع تقریر وغیرہ کر دیتا ہوں۔

یہ صورتحال کم و بیش ہر دفعہ پیش آتی ہے اس لیے میں استقبال کرنے والے دوستوں کو قبل از وقت ایئرپورٹ آنے اور اتنا طویل انتظار کرنے کی زحمت نہیں دیتا بلکہ تمام مراحل سے فراغت کے بعد انہیں فون کرتا ہوں اور وہ آکر مجھے لے جاتے ہیں۔ نیویارک میں میرا پہلا پڑاؤ ’’دارالعلوم نیویارک‘‘ ہوتا ہے جو کوئینز کے علاقے جمیکا میں واقع ہے اور جے ایف کے ایئرپورٹ سے آدھ پون گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ وہاں فون کیا تو دارالعلوم کے مہتمم مولانا محمد یامین خان، بھائی برکت اللہ، مولانا حافظ اعجاز احمد اور مولانا قاری محمد یوسف عثمانی آگئے جن کے ہمراہ میں دارالعلوم پہنچ گیا۔ اول الذکر دونوں حضرات کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور دارالعلوم کے ذمہ دار ہیں جبکہ دوسرے دونوں بزرگ گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا حافظ اعجاز احمد دارالعلوم سے وابستہ ہیں اور وہیں مقیم ہیں جبکہ قاری یوسف عثمانی میری طرح وزٹ ویزے پر آئے ہوئے ہیں۔ چند روز قبل ان کے بیٹے محمود عثمانی کی بروکلین میں شادی ہوئی ہے اور قاری صاحب اسی سلسلہ میں تشریف لائے ہیں۔

جمعۃ المبارک ۲۳ جولائی کا خطبہ میں نے دارالعلوم کی مسجد میں دیا۔ ان دنوں دارالعلوم کے سالانہ امتحانات چل رہے تھے، میں نے اصولِ حدیث کی ایک کتاب کے طلبہ کا امتحان لیا۔ یہاں اساتذہ اور طلبہ میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش تینوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے حضرات شامل ہیں اس لیے تعلیم زیادہ تر اردو میں ہوتی ہے۔ شام کو لانگ آئی لینڈ کے ’’سیلڈن اسلامک سنٹر‘‘ میں حاضری ہوئی جہاں میرے پرانے دوست اور جمعیۃ علماء اسلام کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا عبد الرزاق عزیز امام و خطیب ہیں۔ نماز مغرب کے بعد بیان کا اہتمام تھا، رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اس لیے میں نے قرآن کریم کے حوالے سے گفتگو کی جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

رمضان المبارک قرآن کریم کا مہینہ ہے، قرآن کریم کا نزول اسی مبارک مہینے میں ہوا اور اسی میں زیادہ پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں رمضان المبارک کے دوران قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا معمول بڑھ جاتا ہے اور تراویح کے ساتھ ساتھ تہجد اور دیگر نوافل میں کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے۔ اس مناسبت سے میں آج کی محفل میں اس پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم قرآن کریم کس مقصد کے لیے پڑھتے ہیں اور اسے پڑھنا کس مقصد کے لیے چاہیے؟

  1. ہم عام طور پر قرآن کریم پڑھتے اور سنتے ہیں کہ اس سے اجر و ثواب حاصل ہوگا جو بلاشبہ حاصل ہوتا ہے۔
  2. ہم قرآن کریم گھروں میں، کاروباری مراکز میں اور دفاتر میں برکت کے لیے پڑھتے ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت سے ہمیں برکات حاصل ہوتی ہیں۔
  3. ہم قرآن کریم کو شفا کے لیے پڑھتے ہیں اور قرآن کریم روحانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ جسمانی بیماریوں میں بھی شفا کا باعث بنتا ہے۔
  4. ہم اپنے مرحوم دوستوں اور بزرگوں کو ایصالِ ثواب اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی نسبت سے قرآن کریم پڑھتے ہیں اور یہ مقصد بھی یقیناً حاصل ہوتا ہے۔

مگر یہ وہ فوائد ہیں جو ہم قرآن کریم سے حاصل کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کا اپنا مقصد اور ایجنڈا کیا ہے اس پر ہماری توجہ نہیں ہوتی۔ ہمارا معاملہ قرآن کریم کے ساتھ کچھ اس طرح کا ہوگیا ہے کہ ہمارے گھر میں کوئی بہت ہی معزز ہستی مہمان بن کر آجائے تو ہم اسے احترام اور پروٹوکول تو پورا دیں، اس کی خدمت میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں اور اس کی آمد سے جتنے فوائد حاصل کر سکتے ہوں وہ بھی کریں مگر اس سے یہ نہ پوچھیں کہ آپ کس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں اور آپ کی آمد کا کوئی ایجنڈا بھی ہے یا نہیں؟ اسے خودغرضی کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے ہمارا معاملہ قرآن کریم کے ساتھ اسی خود غرضی والا ہے۔ ہم بحمد اللہ تعالیٰ قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں، اس کے ساتھ عقیدت و محبت بھی رکھتے ہیں، اس کا ادب و احترام بھی کرتے ہیں، اس کی بے حرمتی پر ہماری غیرت بھی جوش میں آجاتی ہے اور اس سے اجر و ثواب، رحمت و برکت اور شفا و مغفرت کے سارے فوائد بھی حاصل کرتے ہیں۔ مگر اس سے یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں اور آپ کی آمد کا مقصد کیا ہے؟ جبکہ سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کے نزول کے اصل مقصد کی طرف توجہ دیں۔

قرآن کریم نے اپنا ایجنڈا، موضوع اور مقصد آغاز میں ہی واضح کر دیا ہے۔ سورہ البقرہ کی ابتدا اسی سے ہوتی ہے کہ اس کتاب میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ ’’ھدًی للمتقین‘‘ ہے۔ قرآن کریم کا موضوع اور مقصد ’’ہدایت‘‘ ہے۔ یہ ھدًی للناس بھی ہے اور ھدًی للمتقین بھی ہے۔ یہ نسلِ انسانی کی رہنمائی کے لیے آیا ہے، انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کا سلیقہ سکھانے آیا ہے اور دنیا و آخرت کے معاملات میں ہمیں گائیڈ کرنے کے لیے آیا ہے۔ اس لیے ہمیں قرآن کریم سے برکات و ثواب سمیٹنے کے ساتھ ساتھ رہنمائی حاصل کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اس آخری کتاب کا اصل مقصد یہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter