مولانا حافظ عبد الرشید ارشد کا تعلق میاں چنوں سے تھا۔ جامعہ رشیدیہ ساہیوال سے فیض یافتہ تھے اور حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدی کے رفقاء میں سے تھے۔ پاکستان میں علماء دیوبند کے مسلک اور تعارف کو فروغ دینے میں جامعہ رشیدیہ اور اس کے دورِ اول کے بزرگوں کا جو کردار رہا ہے وہ بجائے خود دینی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ مولانا حافظ عبد الرشید ارشدؒ کو اللہ تعالیٰ نے لکھنے پڑھنے اور طباعت و اشاعت کا خصوصی ذوق عطا کیا تھا، دینی لٹریچر کی عمدہ طباعت و اشاعت میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کا قائم کردہ مکتبہ رشیدیہ ایک عرصہ تک شاہ عالم مارکیٹ لاہور میں خدمات سرانجام دیتا رہا۔ یہ مکتبہ اب کچھ عرصہ سے لوئر مال روڈ پر منتقل ہو چکا ہے۔ انہوں نے بہت سی مفید کتابیں شائع کی ہیں جن میں تفسیر مواہب الرحمان، مولانا ابوالکلام آزاد کے ’’الہلال‘‘ کی مکمل فائل، بیس بڑے مسلمان، الرشید کا دارالعلوم دیوبند، اور الرشید کا نعت رسول نمبر بطور خاص معرکہ کی چیزیں ہیں۔
حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم شور و شغب اور ہاؤہو کا مزاج نہیں رکھتے تھے بلکہ ایک طرف بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ ٹھوس کام کرنے والے بزرگ تھے۔ اب تو بحمد اللہ اس طرف بہت سے دوستوں کا رجحان ہوگیا ہے اور تحریری کاموں کا دائرہ دن بدن وسعت پکڑتا جا رہا ہے۔ لیکن ایک دور وہ تھا جب دین کے حوالے سے اور خاص طور پر دیوبندی مسلک کے حوالے سے عام مارکیٹ میں کوئی کتاب لانا معرکے کا کام ہوتا تھا۔ مولانا حافظ عبد الرشید ارشد نے اس دور میں اس عزم کے ساتھ مارکیٹ میں قدم رکھا اور نہ صرف یہ کہ اپنی جگہ بنائی بلکہ بعد میں آنے والے بہت سے دوستوں کے لیے راہ ہموار کی۔
’’ماہنامہ الرشید‘‘ کے نام سے ان کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدہ ملک کے اہم دینی جرائد میں شمار ہوتا تھا جو دینی و مسلکی معلومات اور حافظ صاحب کی یادداشتوں کا بیش بہا ذخیرہ ہوتا تھا۔ طرزِ تحریر سادہ، معلوماتی اور نصیحت آموز تھا۔ انہوں نے نوجوان علماء کے لیے معلومات اور نصائح کا بہت بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے، خدا کرے کہ ہم میں اپنے بزرگوں کے تجربات اور ارشادات سے استفادہ کا ذوق بیدار ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور متوسلین کو صبر جمیل کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔