بھلوال سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر چک ۱۱ نامی بستی کے ایک نوجوان اعجاز حسین نے ۱۹۶۵ء کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا تھا جس کی یاد کو اس کا خاندان ابھی تک تازہ رکھے ہوئے ہے۔ بلکہ اس کے بھائیوں نے اس یاد کو ہمیشہ زندہ رکھنے کا بھی انتظام کر دیا ہے۔ شہید اعجاز حسین پاک آرمی کا سپاہی تھا، اس کے بھائی حاجی فدا حسین ایڈووکیٹ نے اپنی خاندانی زمین میں شہید کی یاد میں ایک وسیع مسجد بنوائی جو آبادی سے خاصی دور ہونے کی وجہ سے مطلوبہ رونق حاصل نہ کر سکی تو کچھ احباب نے انہیں مشورہ دیا کہ مسجد کے ساتھ دینی مدرسہ بنا دیں جس سے مسجد بھی آباد ہو گی اور قرآن کریم و دیگر دینی علوم کی تعلیم و تدریس سے شہید کو مستقل ثواب بھی ملتا رہے گا۔ انہوں نے یہ مشورہ قبول کرتے ہوئے وہاں دینی مدرسہ تعمیر کر دیا لیکن تعمیر مکمل ہونے سے چند ماہ قبل وہ خود اس دنیا سے کوچ کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اور اب ان کے بھائی آصف اعجاز صاحب مسجد و مدرسہ کے انتظامی امور کی دیکھ بھال کر رہے ہیں جبکہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل مولانا عصمت اللہ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ درس نظامی کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ۳ اکتوبر کو ظہر کے بعد اس مدرسہ کی افتتاحی تقریب تھی جس میں مولانا مفتی شاہد مسعود، مولانا یعقوب احسن، اور مفتی محمد فرقان کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا مفتی شاہد مسعود نے آج کی تقریب کے ایک پہلو پر بہت اچھی گفتگو کی ہے کہ ایک دینی مدرسہ کا آغاز ہو رہا ہے جس میں قرآن و سنت و دیگر دینی علوم کی تعلیم سے علاقہ کے عوام کو بہت فوائد حاصل ہوں گے۔ جبکہ میں دوسرے پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ مدرسہ ایک شہید کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے جس نے ۱۹۶۵ء کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اس کے خاندان نے اپنے شہید سپوت کی یاد کو تازہ رکھنے کا بہت خوبصورت اہتمام کیا ہے۔ آج کل پاک بھارت سرحد پر کشیدگی کا ماحول پھر سے دکھائی دے رہا ہے اس لیے میں اس موقع پر وطن کے دفاع کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی چند جھلکیاں آپ حضرات کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔
جناب رسول اللہؐ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اور ایک ریاست کا ماحول بنا تو آنحضرتؐ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مدینہ منورہ اور اردگرد کے سب قبائل کو جمع کر کے مشترکہ حکومتی نظام کے ساتھ ساتھ مشترکہ دفاع کے معاہدہ کا اہتمام فرمایا۔ ’’میثاق مدینہ‘‘ میں سب نے مل کر طے کیا کہ مدینہ منورہ پر حملہ کی صورت میں اس کے دفاع کی ذمہ داری سب پر ہوگی اور مسلمان و کافر مل کر اس وطن کا تحفظ کریں گے۔ اس طرح آپؐ نے یہ اصول دیا کہ وطن کا دفاع سب اہل وطن کی مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے بعد دس سال کے دوران جناب نبی اکرمؐ نے دو درجن سے زائد جنگیں لڑیں جن میں صرف دو ایسی تھیں جن میں مدینہ پر حملہ کیا گیا تھا اور وہ مدینہ منورہ کے ماحول میں لڑی گئی تھیں۔ ایک احد کی جنگ اور دوسری احزاب کی جنگ تھی جن میں مدینہ منورہ دشمن کی یلغار کا نشانہ بنا تھا اور ان جنگوں میں دشمن کے ساتھ یہودیوں کی ساز باز کو ’’میثاق مدینہ‘‘ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کا ایکشن لیا گیا تھا۔
احد کی جنگ کے حوالہ سے دو باتوں کا بطور خاص ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلی بات کہ نبی اکرمؐ نے جنگ کے میدان میں جانے سے قبل مسلم سوسائٹی کو اعتماد میں لیا تھا اور سب کے مشورہ کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر جا کر جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن مدینہ سے زیادہ دور نہیں گئے تھے بلکہ آبادی سے باہر اس کے ساتھ ہی احد پہاڑ کے دامن کو میدان جنگ بنایا تھا جو کہ مشورہ میں پیش کی جانے والی دو مختلف تجویزوں کو جمع کرنے کی ایک صورت تھی۔ اور دوسری بات یہ کہ آنحضرتؐ ایک ہزار کا لشکر لے کر احد کے میدان میں گئے تھے جن میں سے تین سو افراد ساتھ چھوڑ کر واپس آگئے تھے جو عین حالت جنگ میں سنگین جرم اور غداری کے مترادف تھا۔ چنانچہ ان کے بارے میں یہ تجویز سامنے آئی کہ ان سے بھی جنگ کی جائے مگر حضورؐ نے اس موقع پر داخلی محاذ کھولنے سے گریز کیا اور کسی قسم کا کوئی ایکشن نہ لے کر مدینہ منورہ کے اندرونی ماحول کو خلفشار سے بچا لیا۔ جبکہ قرآن کریم نے بھی فمالکم فی المنافقین فئتین والی آیات میں حضورؐ کی اس حکمت عملی کی حمایت کر دی۔ یہ جناب رسول اللہؐ کی حکمت و تدبر کا شاہکار تھا کہ بیرونی جنگ کے ساتھ ساتھ اندرونی جنگ کا ماحول قائم نہ ہونے دیا اور داخلی وحدت کی ہرممکن حفاظت فرمائی۔
مدینہ منورہ پر دوسرا حملہ غزوۂ احزاب کے موقع پر ہوا تھا جس کے جواب میں حضورؐ نے جنگ کے روایتی طریقوں سے ہٹ کر ایک نیا اسلوب اختیار کیا جو فارسیوں کا طریقہ تھا کہ شہر کے دفاع کے لیے اردگرد خندق کھودی جائے۔ اس سے آنحضرتؐ کی یہ سنت اور ذوق سامنے آیا کہ جنگ کے لیے جو طریقہ بھی وقت کی ضرورت ہو اسے اختیار کیا جائے اور دنیا کے تجربات سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔
اس کے ساتھ ایک بات شہید اعجاز حسین کے حوالہ سے کہنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس نے چونڈہ کی جنگ میں جام شہادت نوش کیا تھا جب انڈیا نے سینکڑوں ٹینکوں کے ذریعہ خوفناک یلغار کی تھی۔ ظاہری طور پر ٹینکوں کی اتنی بڑی یلغار کا راستہ روکنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر پاک فوج کے بہادر جوان اپنے سینوں پر بم باندھ کر ان ٹینکوں کے نیچے گھس گئے اور اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دے کر اس یلغار کو ناکام بنا دیا۔ اس موقع پر یہ سوال اٹھا تھا کہ کیا یہ خودکشی نہیں ہے؟ اس کا جواب علماء کی طرف سے دیا گیا تھا کہ اس قسم کے خودکش حملے بسا اوقات جنگ کی ناگزیر ضرورت بن جاتے ہیں اس لیے یہ بھی جنگ کا ہتھیار ہیں جو میدان جنگ میں ہوں تو جائز اور ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔ البتہ میدان جنگ سے ہٹ کر کسی اور مقصد کے لیے اور پر امن ماحول میں اس قسم کی کاروائیاں بلاشبہ حرام ہیں اور ان کا کوئی جواز نہیں ہے۔
آج وطن عزیز کو پھر جنگ کی صورتحال کا سامنا ہے اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا کے ساتھ ساتھ اس کے لیے ہروقت تیار بھی رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائیں اور پوری قوم کو وحدت اور عزم کے ساتھ اس صورتحال کا سامنا کرنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔