روزنامہ نوائے وقت لاہور ۴ فروری ۱۹۹۷ء کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ نے یہ کہہ کر اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ جس ادارے کا سربراہ اسلامی علوم سے بے بہرہ ہو اس کی رکنیت کو وہ قبول نہیں کر سکتے۔
اسلامی نظریاتی کونسل ملک کا ایک آئینی ادارہ ہے جس کا کام ملک میں رائج قوانین کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لینا اور خلافِ اسلام قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھال کر حکومت کو سفارشات پیش کرنا ہے۔ آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت کے لیے اہلیت اور تجربہ کا معیار مقرر ہے لیکن بدقسمتی سے اکثر و بیشتر اس کا خیال نہیں رکھا جاتا، اور حکومتیں اہلیت و استعداد کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے منظورِ نظر افراد کو خوش کرنے کے لیے سیاسی بنیادوں پر تقرریاں کرتی ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین ہمارے محترم دوست ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس ادارے کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کی تقرری کی بنیاد ان کا قانونی تجربہ نہیں بلکہ سیاسی ضرورت تھی، اور یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک قابل احترام سابق جج کو اس پر اپنے منفی تاثرات کا اظہار کرنا پڑا ہے۔
موجودہ حکومت نے سیاسی اور سفارشی تقرریوں کی نفی کرتے ہوئے میرٹ کی بنیاد پر ملازمتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ میرٹ کے اس اصول کا اطلاق اسلامی نظریاتی کونسل پر بھی ہونا چاہیے، اور کونسل کے موجودہ ڈھانچے پر نظرثانی کرتے ہوئے حکومت کو خالصتاً عملی بنیاد پر اس کی تشکیلِ نو کرنی چاہیے، تاکہ اہل اور باصلاحیت افراد کے ذریعے یہ ادارہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اپنا آئینی کردار صحیح اور مؤثر طور پر ادا کر سکے۔