فرانس کے بعد اب برطانیہ میں بھی مسلمان عورتوں کے حجاب کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے اور مسلمان خواتین کو حجاب سے باز رکھنے کی مہم میں برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی میدان میں کود پڑے ہیں۔ اس سے قبل فرانس میں یہ سوال کھڑا ہوا تھا اور حکومت فرانس نے مسلمان عورتوں کا یہ حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ اسلام کے شرعی احکام کے مطابق پردہ کریں اور شرعی حجاب استعمال کریں۔ اسی طرح ایک مسلمان ملک ترکی میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے ولی ایک محترم خاتون رکن پارلیمنٹ کو صرف اس لیے پارلیمنٹ کی رکنیت بلکہ اس کے ساتھ ملک کی شہریت سے بھی محروم ہونا پڑا تھا کہ اس نے پارلیمنٹ کے ایوانوں میں اسکارف کے بغیر بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا اور ابھی حال میں ایک اور مسلمان ملک تیونس کے بارے میں یہ خبریں عالمی پریس میں آئی ہیں کہ وہاں کی حکومت نے حجاب کے خلاف سرکاری سطح پر مہم شروع کر دی ہے اور مسلمان عورتوں کو پبلک مقامات پر شرعی حجاب کے استعمال سے زبردستی روکا جا رہا ہے۔
اس پس منظر میں برطانیہ کی ایک مسلم خاتون شہری کو اپنے دفتری اور تدریسی فرائض کی انجام دہی کے دوران حجاب کے استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے اور اس نے اپنے حق کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے پہلے برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا نے کہا کہ اس خاتون کو ملازمت سے نکال دینا چاہیے، اور اب روزنامہ پاکستان لاہور ۱۸ اکتوبر ۲۰۰۶ء کی ایک خبر کے مطابق برطانوی وزیر اعظم مسٹر ٹونی بلیئر نے بھی کہہ دیا ہے کہ پردہ معاشرے سے علیحدگی کی علامت ہے اس لیے اسے ترک کرنا ضروری ہے اور ہمیں روشن خیال مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ انتہا پسند مسلمانوں سے نمٹ سکیں۔
گویا پردہ اور حجاب روشن خیالی اور انتہا پسندی کے درمیان کشمکش میں مرکزی نکتہ اختیار کرتا جا رہا ہے اور بہت سے غیر مسلم ملکوں کے ساتھ ساتھ تو بعض مسلمان ممالک نے بھی طے کر لیا ہے کہ وہ ان کے خیال میں انتہا پسندانہ اسلام کی اس علامت کو ختم کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ یہ صورتحال دو حوالوں سے لمحہ فکریہ ہے:
- ایک یہ کہ نام نہاد روشن خیالی کی زد براہ راست ہمارے شرعی احکام پر پڑ رہی ہے۔ اور انسانی حقوق کے شوروغوغا اور عورتوں کے حقوق اور آزادی کے تحفظ کے واویلا کے اس دور میں مسلمان عورت کو یہ حق دینے سے انکار کیا جا رہا ہے کہ اپنی مرضی اور آزادی کے ساتھ اپنے مذہب کے ایک حکم پر عمل کر سکے اور اس معاملہ میں اپنی مرضی اور آزادی کو قائم رکھ سکے۔
- اور دوسرا اس حوالہ سے کہ ہمارے دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ مسلسل یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان موجودہ منافرت اور کشمکش کا تہذیب و ثقافت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کشمکش کو تہذیبی جنگ قرار دینا درست نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں اگر پردہ اور حجاب کا مسئلہ بھی تہذیب و ثقافت سے تعلق نہیں رکھتا اور ایک عورت کو پردے کے بارے میں اپنی مرضی کے مطابق آزادانہ طور پر کوئی طرز عمل اختیار کرنے کا حق دینے سے انکار بھی ثقافت، کلچر اور سولائزیشن کا مسئلہ نہیں ہے تو پھر ہمارے ان دانشوروں کو تہذیب، ثقافت، کلچر اور سولائزیشن کے الفاظ کو نئے معانی دینے کے لیے کوئی جدید ڈکشنری تیار کرنا ہوگی کیونکہ اب تک کے زمینی حقائق ان کے اس دعویٰ کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔