’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۳)

   
۱۴ مارچ ۱۹۶۹ء

(مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی کی تصنیف ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ کی تلخیص۔ قسط ۳)

قرآنی نصوص اور ان کی مؤید احادیثِ رسول اور ان سے مستنبط فقہی احکام یہ واضح کرتے ہیں کہ ’’حقِ معیشت کی مساوات‘‘ کا یہ نظریہ منشاء الٰہی کے خلاف نہیں بلکہ عین منشائے الٰہی کے مطابق ہے۔ اور یہ جدید نظریہ نہیں ہے کہ مارکسزم کی حمایت اس سے مرعوبیت کی بنا پر احکامِ اسلامی کی انوکھی تعبیر کے ذریعہ وجود میں آیا ہو۔ بلکہ اسلام کا وہ بنیادی اور اساسی ’’حکم‘‘ ہے جو اپنے وجود سے آج تک غیر متبدل اور غیر متزلزل رہا ہے۔ اور اگر ہم نے اس کو سمجھنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی، یا دوسرے انسانوں کے اختراعی معاشی نظاموں سے مرعوب ہو کر ہم نے ’’اسلامی معاشی نظام‘‘ کو یکسر بھلا دیا، تو اس میں اپنا قصور ہے، نہ کہ اسلامی نظام کے بیان کرنے والے اور اس کی اصل حقیقت سے روشناس کرانے والے کا۔

اور یہ بھی سخت گمراہی ہے کہ ہم یہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ غربت و امارت کا یہ ناپاک تفاوت اور ظالمانہ امتیاز جو آج ہم کو کائنات پر چھایا ہوا نظر آتا ہے، خدا کا بنایا ہوا ہے، بلکہ یہ فاسد ’’نظامِ ہائے معاشی‘‘ کے ثمرات و نتائج ہیں اور خدا کی مرضی یہ ہے کہ اس قسم کے تمام نظام ہائے فاسد کو یک قلم سوخت ہو جانا چاہیے۔

درجاتِ معیشت

اگرچہ حقِ معیشت میں سب مساوی ہیں لیکن درجاتِ معیشت میں مساوی نہیں ہیں، اور معیشت میں درجات کا تفاوت ایک حد تک فطری ہے۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ سب کے لیے سامانِ معیشت ایک ہی طرح کا ہو، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہو سب کے لیے۔ مگر درجات کا یہ تفاوت ایسے اعتدال پر قائم رہے کہ کسی حالت میں بھی وہ لوگوں کے درمیان وجہ ظلم نہ بن سکے۔ یعنی تفاوتِ درجات تو ہو لیکن نہ ایسا کہ ’’معیشت‘‘ انسانوں کو دو طبقوں میں اس طرح تقسیم کر دے کہ ایک کی ترقی دوسروں کے فقر و افلاس کا سبب بنے، اور دوسرا پہلے کے معاشی اغراض کا آلۂ کار بن کر رہ جائے۔

درجات کا یہ تفاوت جماعت کے دوسرے افراد کو محروم المعیشت بنانے اور ذاتی اغراض کی خاطر دوسرے افراد کو محروم المعیشت بنانے اور ذاتی اغراض کی خاطر معاشی دستبرد کرنے کے لیے نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں دولت و سرمایہ کا مقصد زیادہ سے زیادہ نفع بازی نہیں بلکہ انفرادی حاجات و ضروریات کے ساتھ ساتھ اجتماعی حاجات و ضروریات کی تکمیل ہے۔

احتکار و اکتناز کی حرمت

دولت اور سرمایہ داری کے وہ اصول قطعاً ناقابلِ تسلیم ہیں جن میں احتکار (ذخیرہ اندوزی) اور اکتناز (جمعِ مال) کی کوئی صورت بن سکے، اور ان سے دولت و کنز پھیلنے اور تقسیم ہونے کی بجائے خاص حلقوں اور مخصوص طبقوں میں محدود ہو جائے، اور اس طرح عام انسانی زندگی کو مفلوک الحال بنا دے۔ اکتناز اور احتکار کی حرمت کے لیے (قرآن کریم میں بہت سی) آیات قابلِ توجہ ہیں۔ ان آیات میں ادائے زکوٰۃ و صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔ اور قرآن کریم میں ایک بہت بڑا ذخیرہ ان ہی احکام کی ترغیب و ترہیب اور ان سے متعلق احکام اور تفصیلات پر مبنی ہے۔ اور ان سب کی روح یہ ہے کہ دولت و ثروت جمع و ذخیرہ کے لیے نہیں ہے بلکہ صَرف و خرچ کے لیے ہے۔ اور اس کا مصرف ذاتی و انفرادی تعیش کی بجائے انفرادی و اجتماعی ضروریات کی کفالت ہے۔ اسی لیے ان آیات کی تفسیر میں ’’جمہور‘‘ کا مسلک یہ ہے کہ جس مال سے زکوٰۃ اور دوسرے مالی فرائض ادا نہ کیے گئے ہوں تو وہ مال احتکار و اکتناز کی فہرست میں شامل اور ’’کنز‘‘ سے متعلق وعید کا مصداق ہے۔ اور اسی قسم کی دولت و ثروت کا نام سرمایہ داری ہے۔ اور یہ حرام اور باطل ہے اور تباہ کر دینے کے قابل ہے۔ اور اپنی ضروریات اور اہل و عیال کی حاجاتِ اصلیہ اور مالی فرائض و واجبات کی ادا کے بعد بھی دولت بچے تو اس کا پس انداز کرنا اگرچہ جائز ہے مگر خلافِ اولیٰ ہے، کیونکہ اب اس مال پر اجتماعی حقوق عائد ہو چکے ہیں، اور اب اس کو اجتماعی حاجات میں صَرف ہونا چاہیے۔ اور ان آیاتِ زکوٰۃ و صدقات اور منعِ اکتناز و احتکار کے علاوہ آیاتِ میراث اور قانونِ وراثت بھی اسی حکمت پر مبنی ہے کہ دولت و ثروت جمع و ذخیرہ کے لیے نہیں ہے بلکہ تقسیم اور پھیلنے کے لیے ہے تاکہ اس کا استفادہ زیادہ سے زیادہ عام ہو سکے۔

فاسد نظامِ معیشت کا انسداد اور سرمایہ و محنت میں عادلانہ توازن

خرید و فروخت اور لین دین کے معاملات میں کوئی ایسا معاملہ جائز نہیں ہے جس سے فاسد نظامِ معیشت بروئے کار آئے، یا اس کو کسی بھی قسم کی اعانت پہنچے، یا محنت اور معیشت کے لیے جائز جدوجہد بے حقیقت ہو کر رہ جائے، اور اس طرح محنت و سرمایہ کے درمیان اعتدال و توازن باقی نہ رہے۔ اسی لیے اس نے ربوٰا (سود) کے ہر قسم کے تجارتی کاروبار، قمار (جوا) کی تمام ظاہر و خفی اقسام و اصناف، احتکار و اکتناز کی تمام اشکال، اور اسی طرح کے عقودِ فاسدہ کی دوسری تمام صورتوں کو ناجائز اور مردود قرار دیا، اور معاملات کے کسی شعبہ میں بھی عدل و انصاف ہی کو اساس و بنیاد قرار دیا ہے۔

یہاں مارکسزم (اشتمالیت) کی طرح مذہبی انارکی بھی نہیں ہے اور طبقاتی جنگ بھی موجود نہیں، بلکہ ایک عالمگیر اخوت و ہمدردی کا غیر فانی اعلان ہے۔ اور سرمایہ دارانہ نظام کی طرح دولت سمیٹ کر مخصوص طبقہ کے حوالہ کرنا بھی حرام قرار دیا گیا ہے تاکہ باطل اور ظلم کی بنیادیں کسی حالت میں بھی قدم نہ جما سکیں اور دنیاءِ انسانی کے کسی ایک فرد کو بھی اپنی معاشی حیات میں انسانوں کے ہاتھوں ضیق اور تنگی پیدا نہ ہو۔

انفرادی معیشت

’’اسلام کے معاشی نظام‘‘ میں فرد سے متعلق احکامِ معیشت کیا ہیں؟ سو عمیق نظر ڈالنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں تین چیزیں فطری طور پر سامنے آتی ہیں: (۱) کیا کمائیں؟ (۲) کیا خرچ کریں؟ (۳) کس پر خرچ کریں؟ یعنی وہ کون سی آمدنی ہے جس کو جائز آمدنی کہا جا سکتا ہے، اور اس آمدنی میں سے کیا خرچ کرنا چاہیے، اور کس پر خرچ کرنا چاہیے؟ چنانچہ اسلام نے ان تینوں فطری سوالات کو حل کرنے کے لیے ’’انفرادی معیشت‘‘ کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔

پہلے حصہ میں انسان کو جدوجہد کی ترغیب اور کسبِ معاش کے لیے حرکت کی دعوت دی ہے اور یہ بتایا ہے کہ انسان کو اپنی معاش خود اپنے ہاتھوں کی محنت سے کمانا چاہیے، کیونکہ جمود احد ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جانے کی زندگی موت کے مرادف اور اس کو حیات کہنا بے معنی ہے اور نہ اس طریق زندگی کو ’’توکل‘‘ کی زندگی کہا جا سکتا ہے۔

انفرادی مسائل معیشت میں سب سے پہلی منزل ’’کسبِ معیشت‘‘ اور ’’ابتغاءِ رزق‘‘ کی منزل ہے۔ قرآن عزیز یہ کہتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی استعداد کے مطابق معیشت کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ دنیا میدانِ عمل ہے، یہاں سمود و خمود موت کے مرادف ہے۔ اس کارگاہِ ہستی میں خدائے تعالیٰ نے سامانِ رزق کے ذخیرے جمع کر دیے ہیں مگر تلاش وسعی شرط ہے۔

کسبِ معاش کے اساسی اصول

آیات و احادیث اور احکامِ اسلامی کے پیش نظر جب ایک شخص کسبِ معاش کے لیے قدم اٹھائے تو کیا اس کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی معیشت کے حصول میں جو طریقہ بھی چاہے اختیار کرے؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اس انفرادی جدوجہد میں اس کو چند ایسے اصول کا پابند بنایا گیا ہے جو ’’نظامِ معیشت‘‘ کو فاسد ہونے سے بچاتے، اور صاحبِ معیشت کی زندگی کو معاشی رفاہیت کے ساتھ دینی اور اخلاقی رفعت عطا کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی انفرادی معیشت میں ہمیشہ دو اصول پیش نظر رکھے: ایک یہ کہ جو حاصل کیا جائے وہ ’’حلال‘‘ ہو۔ اور دوسرے یہ کہ جن طریقوں سے حاصل کیا جائے وہ ’’طیب‘‘ ہوں۔

مراد یہ ہے کہ کھانے پینے پہننے اور اشیا کے استعمال کرنے میں، نیز وسائلِ آمدنی میں ’’نظامِ معیشت‘‘ کی روح یہ ہے کہ ایک ’’مسلم‘‘ کو ایسی تمام چیزوں سے بچنا چاہیے جن کی ترکیب ان عناصر سے کی گئی ہو جو جسمانی امراض کا ۔۔ بنتے اور اس کو فاسد کرنے میں ’’سمیّت‘‘ کا کام کرتے ہیں، اور یا قوائے حیوانی کو برانگیختہ کر کے ان کو ۔ ۔ ۔

(بقیہ حصہ دستیاب نہیں ہو سکا)

(باقی آئندہ)
   
2016ء سے
Flag Counter