’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۲)

   
۲۸ فروری ۱۹۶۹ء

(مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی کی تصنیف ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ کی تلخیص۔ قسط ۲)

کیونکہ وہ ’’معاشی نظام‘‘ کے جس ماحول میں جدوجہد کر رہا ہے اس کی بنیاد زیادہ سے زیادہ نفع کمانے اور سودے بازی پر قائم ہے، اور یہ صرف اربابِ دولت و ثروت ہی کو اور زیادہ بلند کرتا اور باقی تمام انسانی آبادی کو افلاس و احتیاج سے دوچار بناتا ہے۔ یہاں رفعِ حاجات و تکمیلِ ضروریات کے محرکات کام نہیں کرتے جو عام رفاہیت کا پیغام لائیں اور خوشحالی کو بحال کریں۔

دوسرے یہ کہ ’’معاشی نظام‘‘ کا محرک اور منشا نفع بازی نہ ہو بلکہ ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اور رفعِ حاجات ہو۔ اور اس کے منصۂ شہود پر لانے کے لیے صرف یہ ذہنیت کام کر رہی ہو کہ انفرادی و اجتماعی احتیاجات کو پورا کیا جائے نہ کہ زیادہ سے زیادہ نفع کو پیش نظر رکھا جائے۔

’’معاشی نظام‘‘ کے ان ہر دو محرکات یا ہر دو ذہنیتوں میں سے اسلام ایک ایسے ’’معاشی نظام‘‘ کا بانی اور مؤسس ہے کہ جس کی بنیاد صرف کائناتِ انسانی کی رفعِ حاجات و ضروریات اور انفرادی و اجتماعی احتیاجات کی تکمیل پر قائم ہے۔ وہ معاشیات کو دولتمندوں کے درمیان نفع کی دوڑ کا میدان نہیں بنانا چاہتا بلکہ رفعِ حاجات و تکمیلِ ضروریات کے لیے ایک مفید اور نفع بخش بنا کر اس کی افادیت کو عام کرنا چاہتا ہے۔ ’’اسلامی معاشی نظام‘‘ ایسا بہتر نظام ہے جو اپنے اندر ’’علم المعیشت‘‘ کے قدیم و جدید نظام ہائے مذہبی و عقلی کے تمام محاسن سموئے ہوئے ہے اور اس سے بھی زیادہ خوبیوں کا مالک ہے، اور ان کے مصائب و نقائص سے یکسر خالی بلکہ ان کے مذموم اثرات کا بے نظیر تریاق ہے۔ اور ان تمام محاسن کے علاوہ اس کو یہ برتری حاصل ہے کہ وہ انسانوں کے دماغ کی اختراع نہیں ہے کہ جس کی بنیاد انتقام یا طبقاتی منافرت جیسی خام کاریوں پر رکھی گئی ہو، بلکہ یہ نظامِ کائنات کے خالق کا بنایا ہوا نظام ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نور اللہ مرقدہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں ’’باب ابتغاء الرزق‘‘ کے عنوان سے نہایت پر شوکت اور مدلل مضمون تحریر فرمایا ہے جس سے (اسلام کے معاشی) اصول کی ایک جامع اور مبسوط تفصیل سامنے آ جاتی ہے (جس کا خلاصہ یہ ہے) یعنی

(الف) معیشت میں فطری تفاوتِ درجات کے باوجود تمام مخلوق برابر اور یکساں ہے، اور خدا نے تمام معاشی وسائل میں زمین اور پیداوار زمین کو سب کے لیے مباح الاصل پیدا کیا ہے، اور تعیین و تشخیص جائز قبضہ سے ہی وجود میں آتی ہے۔

(ب) اور کسی فرد کو ان اموالِ مباح میں اسی قدر اور اسی طریق سے قبضہ و تصرف جائز ہے کہ اس سے دوسرے فرد کے لیے معاشی ضیق کے اسباب پیدا نہ ہو جائیں۔

(ج) نیز معاشی معاملات میں ’’باہمی تعاون و اشتراکِ عمل‘‘ واجب اور ضروری ہے۔

(د) اور یہ تعاون ایسے صحیح اور صالح طریقوں پر مبنی ہونا چاہیے کہ اس سے نظامِ تمدن میں ابتری نہ پھیل جائے۔ یعنی ان کے ذریعہ معاشی معاملات میں ایک دوسرے کو مدد ملے، نہ کہ ایک کا فائدہ دوسرے کی مضرت پر موقوف ہو۔

(ہ) اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ کائنات میں ایک ’’صالح معاشی نظام‘‘ موجود ہو جو خدائے تعالیٰ کے حکم اور منشا کو پورا کرتا ہو۔

(و) پس اس ’’صالح معاشی نظام‘‘ میں وہ تمام معاملات ناجائز اور حرام ہیں جن میں باہمی تعاون کا مطلق دخل ہی نہ ہو، بلکہ ایک فرد کی تباہی اور مضرت پر دوسرے فرد کی مالی منفعت کا مدار ہو۔ جیسا کہ مثلاً قمار (جوا) خواہ وہ غیر مہذب طریقوں سے عمل میں آئے یا سٹہ اور لاٹری وغیرہ مہذب طریقہ ہائے تجارت کے ذریعہ سے۔

(ز) اور وہ معاملات بھی ناجائز اور حرام ہیں جن میں بظاہر اگرچہ باہمی رضا اور تعاون نظر آتا ہو، لیکن اس کی تہ میں زبردستی کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ مثلاً ربوٰا (سودی لین دین) اور ایسے تمام اجارات و معاملات جن میں ایک جانب سرمایہ دار کا سرمایہ ہے اور دوسری جانب ایک مفلس و نادار کی اضطراری ضرورت۔ اور سرمایہ دار مفلس کے افلاس اور اس کی اضطراری حاجت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اور اجارہ، رہن اور دوسرے معاملات میں اس سے ایسی شرائط منظور کرا لیتا ہے جو انصاف اور عدل کی نگاہ میں کسی طرح جائز نہیں۔ مگر مفلس کے افلاس اور ضرورت مند کی ضرورت نے ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا۔

(ح) پس اس قسم کے تمام معاملات اگرچہ باہمی رضامندی سے بھی طے پا جائیں، تب بھی اسلام اور خدائے کائنات کے نزدیک باطل اور ظلم ہیں۔ اور ’’صالح معاشی نظام‘‘ میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں، خواہ ان کے ظاہری فائدے کتنے ہی خوشگوار کیوں نہ ہوں۔ اس لیے کہ اس قسم کے کاروبار کا آخری نتیجہ عوام کی فلاکت و افلاس اور ایک مخصوص طبقہ کی مالی اجارہ داری کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس لیے یہاں مہاجنی سود کا کاروبار بھی ملعون ہے اور سودی بنکوں کا سسٹم بھی مذموم و مطرود۔ اور یہاں مستاجروں کے وہ تمام طریقہ ہائے تجارت بھی حرام ہیں جن میں اجیر کے جائز اور عادلانہ اجرت و حقوق کی حق تلفی ہو۔ اور اجیر کی وہ خیانت بھی ناجائز جس سے صاحبِ سرمایہ کو ناحق نقصان پہنچانے کی سعی کی جائے۔

(ا) ان تفصیلات سے یہ بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ ’’معاشی نظام‘‘ کا جو اساسی مقصد ہے اس کو کامیاب بنانے کے لیے ’’اسلام کے اقتصادی نظام‘‘ کے علاوہ دوسری کوئی راہ نہیں ہے۔ یہاں مارکسزم (اشتمالیت) کی طرح مذہبی انارکی بھی نہیں ہے اور طبقاتی جنگ بھی موجود نہیں۔ بلکہ ایک عالمگیر اخوت و ہمدردی کا غیر فانی اعلان ہے۔ اور سرمایہ دارانہ نظام کی طرح دولت و وسائلِ دولت سمیٹ کر مخصوص طبقہ کے حوالہ کرنا بھی حرام قرار دیا گیا ہے، تاکہ باطل اور ظلم کی بنیادیں کسی حالت میں بھی قدم نہ جما سکیں، اور دنیائے انسانی کے کسی ایک فرد کو بھی اپنی معاشی حیات میں ضیق اور تنگی پیدا نہ ہو۔

قرآن عزیز نے اپنی اساسی روش کے مطابق عبادات، معاشرتی معاملات، سیاسیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح معاشیات میں بھی صرف اساسی اصول اور معجزانہ اختصار کے ساتھ اصول و کلیات کا ہی ذکر کیا ہے۔ اور ان کی تفصیلات و تشریحات کو ارشاداتِ نبوی (احادیث) اور ان سے مستنبط احکام (فقہ) کے حوالہ کر دیا ہے۔ معاشیات سے متعلق قرآن عزیز نے جن اساسی اصول کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں:

حقِ معیشت میں مساوات

(۱) رزق اور معاش کا حقیقی تعلق صرف ذاتِ الٰہی سے ہے اور وہی ہر فرد کا کفیل ہے۔ اور اگرچہ اس کی مصلحتِ عام اور حکمتِ تام کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے متنوع ماحول میں رزق کے اندر تفاوتِ درجات پایا جائے، لیکن امارت و غربت کے فطری تنوع کے باوجود یہاں ایک فرد بھی محروم المعیشت نہ رہنے پائے۔ کیونکہ اس نے حقِ معیشت کو سب کے لیے مساوی اور برابر رکھا ہے اور کسی کو بھی اس حقِ مساوات میں دخل انداز ہونے کا حق عطا نہیں فرمایا۔

درجاتِ معیشت میں فطری حد تک تفاوت کے باوجود حقِ معیشت میں تمام کائناتِ انسانی مساوی اور برابر شریک ہے۔ اور کسی صاحبِ ثروت کی دولت و ثروت، غریبوں کی غربت میں اضافہ کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ خدا کی وہ امانت ہے جو اجتماعی نظام کے زیر فرمان غربا و مساکین کی غربت و مسکنت کو فنا کرنے کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔ گویا صاحبِ ثروت کی ثروت، غربا کی غربت کے لیے رحمت ثابت ہو نہ کہ زحمت۔

اور اگر اربابِ ثروت ایسے عادل سسٹم کو منظور نہ کریں اور اس پر عمل پیرا نہ ہوں تو پھر خدا کے نائب (خلیفہ) کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے ’’اجتماعی معاشی نظام‘‘ کے مطابق اربابِ ثروت کو قانوناً اس پر مجبور کرے۔ اور اگر بیت المال کا مالیہ کافی نہ ہو اور اس سے بھی قلمروِ خلافت میں محروم المعیشت انسان موجود رہ جائیں، تو اہلِ دولت کے سرمایہ سے بہ جبر حاصل کر کے ’’حقِ معیشت کی مساوات‘‘ کو بروئے کار لائے۔ خواہ وہ اہلِ دولت اپنے مال میں سے تمام ’’عائد شدہ مالی فرائض و حقوق‘‘ ادا کر چکے ہوں۔‘‘

(باقی آئندہ)
   
2016ء سے
Flag Counter