مسلم سربراہ کانفرنس لاہور کا اختتام

   
یکم مارچ ۱۹۷۴ء

مسلم سربراہوں کی سہ روزہ لاہور کانفرنس متعدد کھلے اور بند اجلاسوں، طویل بحث و تمحیص اور قائدین کی تقاریر کے بعد قراردادوں، فیصلوں اور اعلانِ لاہور کے اجراء کے ساتھ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوگئی۔ ’’لاہور کانفرنس‘‘ کے بارے میں جن توقعات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے وہ کہاں تک پوری ہوئی ہیں، اس کا اندازہ کانفرنس کے اعلانات سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ تمام مسلم راہنماؤں نے اخوت و محبت کے ماحول میں عالم اسلام کے مسائل کا جائزہ لیا، ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کی اور باہمی ارتباط کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض کیا۔

مسلم قائدین کا اس انداز سے مل بیٹھنا ہی اتحاد عالم اسلام کی طرف ایک اہم قدم ہے اور اس سے یقیناً ملت اسلامیہ کو ایک پلیٹ فارم پر منظم دیکھنے کے خواہشمند حضرات کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ مسلم قائدین کے ارشادات سے یہ بات بھی بخوبی محسوس ہوتی ہے کہ ملت اسلامیہ کی مشکلات کے حقیقی اسباب و علل اور عالم اسلام کے بنیادی مسائل اب مسلم سربراہوں پر زیادہ اوجھل نہیں رہے۔ مسلم قائدین کی تقاریر میں:

  • امپیریلزم اور کمیونزم کے جواب میں اسلام کا ذکر،
  • دو بڑے بلاکوں کے تسلط سے آزاد ’’تیسری دنیا‘‘ کا تصور،
  • ملت اسلامیہ کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کا عزم،
  • اتحاد و اخوت کی منزل کی جانب گامزن ہونے کا جذبہ،
  • اور مظلوم اتحاد و ممالک کی حمایت کا اعلان

ہمارے اس خیال کو تقویت بخشتا ہے اور ہمارے نزدیک یہ کانفرنس کا خوش آئند ترین پہلو ہے۔ اس نقطۂ نظر سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ لاہور کانفرنس نے مسلم راہنماؤں کو عالم اسلام کے مسائل کو سمجھنے اور ایک دوسرے کی مشکلات سے آگاہ ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ کے باہمی ربط و تعاون اور وحدت و اخوت کی بنیادیں اور زیادہ مضبوط ہوں گی۔

کانفرنس کے اس افادی پہلو پر اظہارِ مسرت کے ساتھ ہم ان امور کا ذکر بھی ضروری سمجھتے ہیں جن کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ اگر ان پر معقول توجہ دی جاتی تو کانفرنس کی افادیت دوچند ہو سکتی تھی۔ مثلاً:

  1. عالم اسلام پر استعماری قبضہ کے فکری، سیاسی، معاشرتی اور معاشی اثرات سے گلوخلاصی کی طرف قدم بڑھائے بغیر اتحاد عالم اسلام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ بعض راہنماؤں نے اپنی تقاریر میں اس کی طرف اشارات کیے ہیں جو یقیناً خوش آئند ہیں مگر یہ اہم حقیقت عمل کی متقاضی تھی۔
  2. مسلہ کشمیر بھی فلسطین کی طرح لاکھوں مسلمانوں کی مظلومیت کا مسئلہ ہے۔ کانفرنس کے ایجنڈا اور اعلانات میں اس کی عدم موجودگی عالمی سطح پر بہت سی غلط فہمیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر مسلم قائدین دنیا بھر کی مظلوم اقوام کے زمرے میں کشمیر کے ساٹھ لاکھ مسلمانوں کو بھی شامل سمجھ لیتے تو یہ بات ان مظلوموں کے قافلۂ حریت کے لیے حدی کا کام دے سکتی تھی۔
  3. کانفرنس کے موقع پر حکومت کی طرف سے حزب اختلاف کو مکمل طور پر نظر انداز کر دینے کو بھی کم از کم الفاظ میں ’’انتہائی نامناسب اور نامعقول‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ حزب اختلاف ایک جمہوری ملک میں متبادل قیادت سمجھی جاتی ہے۔ ایسے اہم قومی مسئلے کے سلسلہ میں خصوصاً بیرونی مہمانوں کی آمد پر حزب اختلاف کو نظر انداز کرنے سے نہ صرف یہ کہ بین الاقوامی سطح پر حکومت پاکستان کے ’’جمہوری رویہ‘‘ کی نقاب کشائی ہوئی ہے بلکہ کانفرنس کے شرکاء بھی حزب اختلاف کے جہاندیدہ راہنماؤں کے مفید مشوروں سے محروم رہے ہیں، جو یقیناً دین و ملت کے لیے بہتر مشورے دیتے۔
  4. اس موقع پر ہم حکومت پنجاب کے اس غیر جمہوری حکم کی مذمت کیے بغیر نہیں رہ سکتے جس کے تحت کانفرنس سے قبل پریس کے مالکان کو چند ’’خاص عنوانات‘‘ پر لٹریچر کی اشاعت سے روک دیا گیا تھا۔ اس پابندی کے نتیجہ میں ’’ترجمان اسلام‘‘ کا خصوصی نمبر اس لیے اشاعت سے رہ گیا کہ اس میں ملک و ملت کے خلاف حکومت کے ایک ’’محبوب ۔۔۔‘‘ کی سازشوں سے پردہ اٹھایا گیا تھا۔ اسی طرح مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان بھی ’’المتبنیٔ القادیانی‘‘ کے نام سے اپنا عربی کتابچہ شائع نہ کر سکی جسے مجلس کے زعماء بیرونی مہمانوں میں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ حتیٰ کہ مشہور شاعر ابوالاثر حفیظ جالندھری کو بھی یہ شکایت ہے کہ ان کی ایک نظم کا عربی ترجمہ صرف اس لیے اشاعت سے روک دیا گیا کہ اس میں ’’یہود و نصارٰی‘‘ کی مذمت موجود تھی۔
  5. ہم نہیں سمجھ پائے کہ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو معزز مہمانوں سے دور رکھنے اور پاکستانی عوام کو مہمانوں تک اپنے دلی جذبات پہنچانے سے روکنے میں کانفرنس کی کامیابی کا کونسا راز پنہاں تھا۔

بہرحال ان تمام شکایات کے باوجود ہم کانفرنس کے فیصلوں اور مسلم راہنماؤں کے اس اتحاد کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان فیصلوں پر عمل کرنے اور اتحاد عالم اسلام کی خاطر صحیح سمت قدم اٹھانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین یا الہ العالمین)

   
2016ء سے
Flag Counter