احادیث میں جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ایک بندے سے پوچھیں گے کہ ایک روز میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا اور ایک روز میں ننگا تھا تم نے مجھے لباس نہیں پہنایا۔ وہ بندہ حیرت اور تعجب سے سوال کرے گا کہ یا اللہ! کیا آپ بھوکے تھے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ہاں! وہ دریافت کرے گا کہ یا رب العزت! کیا آپ ننگے تھے؟ اللہ تعالیٰ جواب دیں گے کہ ہاں میں ننگا تھا۔ وہ شخص اسی حیرت کے عالم میں پھر پوچھے گا کہ یا رب! وہ کیسے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تمہارے پڑوس میں فلاں شخص بھوکا تھا اور میں نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ اپنے اردگرد کے بھوکوں کا خیال رکھو اور انہیں کھانا کھلاؤ۔ اگر تم اسے کھانا کھلاتے تو مجھے کھلاتے۔ تمہارے پڑوس میں فلاں شخص ننگا تھا اور میں نے تمہیں حکم دے رکھا تھا کہ اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھو اور جو بے لباس ہو، اسے لباس دو۔ اگر تم اسے لباس پہناتے تو مجھے پہناتے۔
اس ارشاد گرامی کو سامنے رکھ کر ہمارے لیے غور و فکر کا مقام یہ ہے کہ اگر ایک شخص کے بھوکے اور ننگے رہ جانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس کے اردگرد رہنے والے لوگوں سے سوال کریں گے اور انہیں مجرم ٹھہرائیں گے تو کسی قوم اور ملک کے پڑوس میں رہنے والی پوری قوم کے بھوک کا شکار ہو جانے پر کیا پڑوسی قوموں سے سوال نہیں ہو گا؟ اور کیا حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے انہیں مجرم قرار نہیں دیا جائے گا؟
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو اس کا درد دوسرا عضو خودبخود محسوس کرتا ہے، اور کسی ایک عضو کو درد ہو تو اس کی تکلیف سارے جسم کو محسوس ہونے لگتی ہے۔
لیکن آج ہم دنیا بھر کے مسلمان مجموعی طور پر ان دونوں احساسات سے عاری ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے سے درد کو محسوس کرنے کا جذبہ سرد پڑ چکا ہے۔ ورنہ عراق میں ہماری آنکھوں کے سامنے لاکھوں انسان بھوک کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بن چکے ہیں، مگر ہماری حمیت اور غیرت میں کوئی حرارت پیدا نہیں ہوئی۔ اور یہ بھوک اور ننگ وہ تھی جو کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں تھی جسے تقدیر کا فیصلہ قرار دے کر صبر و شکر کی تلقین پر گزارا کر لیا جائے، بلکہ یہ خود انسانوں کی مسلط کردہ بھوک تھی اور انسانوں پر انسانوں کی حکمرانی کا کرشمہ تھا جو تہذیب و تمدن اور انسانی حقوق کی علمبردار قوموں کے ہاتھوں وجود میں آیا اور لاکھوں انسانوں کو انسانیت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جبکہ ہماری بے حسی کا عالم یہ تھا کہ بین الاقوامی سرحدات کے ایک طرف بھوک اور ننگ کا عفریت ناچ رہا تھا اور دوسری طرف انہی بھوکوں اور ننگوں کے ہم مذہب بلکہ ہم قوم لوگوں کے عشرت کدے آباد تھے اور ابھی تک وہی صورتحال جوں کی توں چلی آ رہی ہے۔
اب وہی کھیل افغانستان میں کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی چھتری تان کر اس کی اوڑھ میں مظلوم اور جنگ زدہ افغان عوام کو بھوک اور قحط کے ذریعے عالمی استعمار کے سامنے جھکانے یا کچل دینے کے پروگرام پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ اور اس حوالے سے مجھے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی یاد آ رہا ہے کہ جب دجال کا ظہور ہوگا اور وہ پوری دنیا میں دجل و فریب کے ساتھ اپنا تسلط قائم کر کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے پھیر کر اپنی خدائی اور حکمرانی کے پرچم تلے جمع کرنے کے لیے شعبدہ بازی کا بازار گرم کر دے گا، لوگوں کی اکثریت اور اقوام کی اقوام اس کے دجل سے متاثر ہو کر اس کی حاکمیت قبول کر لیں گی، اور اس کی جھوٹی خدائی کا ڈنکا ہر طرف بجنے لگے گا، مگر کچھ اہلِ ایمان ایسے بھی ہوں گے جو اس کی پیشانی پر کفر کی مہر کو پڑھ لیں گے اور اس کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیں گے۔ وہ ان کا روزگار چھین لے گا، انہیں خوراک سے محروم کر دے گا اور وسائلِ زندگی سے محروم کر دے گا۔ حتیٰ کہ ایک حدیث نبویؐ کے مطابق بعض اہلِ ایمان کی خوراک صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر رہ جائے گا، اس کے سوا انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ اسی دوران ایک صاحبِ ایمان دجال کے جبر اور فریب کے سامنے کھڑا ہو جائے گا اور اس کی خدائی کو چیلنج کرے گا، جس پر دجال اس صاحبِ ایمان کو سزا کے طور پر قتل کرنا چاہے گا مگر اسے قتل نہیں کر سکے گا اور وہیں سے دجال کی جھوٹی خدائی کو ریورس گیئر لگ جائے گا۔
وہ دجال تو جب آئے گا آئے گا، مگر آج کے دجال کا طریق کار بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی اپنی خدائی منوانے کے لیے پوری دنیا میں دجل و فریب کا جال پھیلا چکا ہے، اور اس نے بھی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو ماننے اور دجال کی خدائی سے انکار کرنے والے اہلِ ایمان کو بھوک اور قحط کے ذریعے قتل کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ افغان قوم ہی اس آخری اہلِ ایمان کی صورت میں سامنے آ رہی ہے جو دجال کی خدائی کو کھلے بندوں چیلنج کر کے اور اس کی مسلط کردہ موت کو جوتے کی نوک سے ٹھکرا کر دجال کی عالمی یلغار کا رخ موڑ دے گی۔
اور یہ تاریخ کا عمل ہے جو اپنی فطری رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، جسے روکنے کی کوئی کوشش اب کامیاب نہیں ہو گی۔ مگر میں اس حوالے سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں اور ان کی وساطت سے پوری قوم اور پاکستانی قوم کے ہر طبقہ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کی روشنی میں ہم سب کو اور ہم میں سے ہر ایک کو میدانِ حشر کی عدالت کو سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کیے جانے والے اس فردِ جرم کا جواب سوچ لینا چاہیے کہ تمہارے پڑوس میں ایک پوری قوم بھوک کا شکار ہو گئی تھی اور اسے بھوکا مارنے پر دجالی قوتیں تل گئی تھیں، تم نے اپنے ان بھوکے بھائیوں کی اس مشکل گھڑی میں مدد کے لیے کیا کردار ادا کیا تھا؟ ۔۔۔