عید الاضحیٰ سے قبل چھٹیوں کے دو دن اسلام آباد میں گزرے۔ ۲۸ اگست کو مولانا سمیع الحق کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں حاضری کا وعدہ تھا، جامعہ نصرۃ العلوم میں اسباق پڑھا کر ظہر تک جامعہ رحمانیہ ماڈل ٹاؤن ھمک اسلام آباد پہنچا اور نمازِ ظہر کے بعد مسجد میں قربانی کی اہمیت کے حوالہ سے ایک نشست میں گفتگو کی۔ پھر مولانا حافظ سید علی محی الدین کے ہمراہ آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہوا جس کی مختصر رپورٹ گزشتہ کالم میں ذکر کر چکا ہوں۔ رات جامعہ رحمانیہ میں بسر کی، فجر کی نماز کے بعد ماڈل ٹاؤن کی جامع مسجد الیاس میں درس دیا اور مولانا ثناء اللہ غالب کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیالات ہوا۔ مولانا محمد رمضان علوی بھی تھوڑی دیر بعد آگئے اور ہم نے بحریہ ٹاؤن میں بگھار شریف کی نقشبندی خانقاہ کے سجادہ نشین صاحبزادہ ساجد الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔
کہوٹہ کے قریب یہ خانقاہ موسیٰ زئی شریف کے معروف بزرگ حضرت خواجہ محمد عثمان دامانیؒ کے خلیفہ مجاز حضرت خواجہ محمد ہاشمؒ نے قائم کی تھی، ان کے بعد حضرت خواجہ عبد الرحمانؒ اور حضرت خواجہ محمد یعقوبؒ نے اس سلسلہ کو پھیلایا، علاقہ بھر میں اس خانقاہ کے روحانی اور اصلاحی اثرات وسیع پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ صاحبزادہ ساجد الرحمان اس وقت خانقاہ کے سجادہ نشین ہیں، ملک کے ممتاز ارباب علم و دانش میں شمار ہوتے ہیں اور اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں مختلف اہم مناصب پر فائز چلے آرہے ہیں۔ مجھے گزشتہ سال حافظ سید علی محی الدین کے ہمراہ بگھار شریف جانے کا موقع ملا تھا جہاں سادگی کے ساتھ تعلیمی و اصلاحی ماحول کے تسلسل نے بہت متاثر کیا اور موسیٰ زئی شریف کے بزرگوں کے لیے دلی عقیدت میں اضافہ ہوا کہ ان کا فیض کہاں کہاں اپنا کام کر رہا ہے۔ خود میرا روحانی تعلق بھی والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا حسین علی صاحبؒ کے ذریعہ خانقاہ موسیٰ زئی شریف سے ہے۔ اس لیے موسیٰ زئی شریف کی نسبت جہاں اور جس رنگ میں ملے انس و الفت کے احساس میں اضافہ ہوتا ہے۔ صاحبزادہ صاحب محترم نے بھی اسی الفت و محبت سے نوازا، اللہ تعالیٰ انہیں خوش رکھیں، آمین۔
اس کے بعد پاکستان شریعت کونسل اسلام آباد کے امیر مولانا مفتی سیف الدین کے ہاں حاضری ہوئی اور ان کے ہمراہ گولڑہ شریف جانے کا پروگرام بن گیا۔ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے خلفاء میں سے تھے اور حدیث میں حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ کے شاگرد تھے، جبکہ چشتی سلسلہ کے بڑے بزرگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ قادیانیت کے خلاف جن بڑے بزرگوں نے علمی و دینی جدوجہد کا باقاعدہ اہتمام کیا ان میں حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ صف اول کے بزرگوں میں سے ہیں۔ جبکہ گولڑہ شریف کی خانقاہ کا شمار ان چند بڑے روحانی مراکز میں ہوتا ہے جو مسلکی تفریق میں فریق بنے بغیر اعتدال کے ساتھ تمام مسلمانوں کی اصلاح اور راہنمائی کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔
مولانا محمد رمضان علوی، مولانا مفتی محمد سیف الدین، حافظ سید علی محی الدین اور ان کے ایک عزیز مولانا صاحب کے ہمراہ خانقاہ میں حاضری ہوئی جہاں حضرت پیر صاحبؒ اور دیگر بزرگوں کی قبور پر فاتحہ خوانی اور دعا کی سعادت حاصل ہوئی۔ موجودہ سجادہ نشین بزرگ حج کے لیے تشریف لے گئے تھے، خاندان کے ایک فاضل نوجوان جناب پیر سید نجم الدین سے ملاقات کا موقع مل گیا۔ واپسی پر اسلام آباد میں جناب جعفر بھٹی سے ان کے بھائی کی وفات پر تعزیت کی۔ جعفر بھٹی ہمارے باذوق ساتھیوں میں سے ہیں، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے گہری عقیدت اور ان کی کتابوں کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں، ایک عرصہ سے لندن میں رہائش پذیر ہیں، ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے رفقاء میں سے ہیں اور فورم کے سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی نسبت سے ایک علمی ادارہ قائم کر رکھا ہے اور لائبریری میں کتب جمع کرنے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ ان کا ارادہ حضرت ندویؒ کے نام سے ایک علمی و فکری مرکز قائم کرنے کا ہے جس کی مشاورت میں راقم الحروف اور مولانا محمد رمضان علوی بھی شریک ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کے چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا تھا، انا للہ وانا الیہ راجعون، ان سے تعزیت کرتے ہوئے ہم نے مرحوم کے لیے مغفرت کی دعا کی، اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔