بہائی مذہب اور اس کے پیروکار

   
۱۰ دسمبر ۱۹۹۹ء

گزشتہ روز اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام (ق) کے زیر اہتمام ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیعہ راہنما علامہ علی غضنفر کراروی نے مذہبی امور کے سابق وزیر راجہ محمد ظفر الحق کے بارے میں شکوہ کیا کہ انہوں نے ’’بہائی مذہب‘‘ کے افراد کو ملک میں سرگرمیوں کی کھلی اجازت دے رکھی تھی بلکہ بہائیوں کی مذہبی کتاب ’’کتاب اقدس‘‘ کی رونمائی کی ایک تقریب میں بھی وہ شریک ہوئے تھے۔

راجہ محمد ظفر الحق کا تعارف ملک کے دینی حلقوں میں ایک راسخ العقیدہ اور دیندار مسلمان کے طور پر موجود ہے اور ہم ذاتی طور پر ان کی سرگرمیوں اور خدمات سے آگاہ ہیں جو ملک میں اپنے دائرہ اختیار کی حد تک مذہبی روایات کے فروغ اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے وہ سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے جب اسلام آباد میں بہائی مذہب کی ’’کتاب اقدس‘‘ کی رونمائی کی تقریب میں شرکت کی تو ہمیں بھی ان سے شکایت پیدا ہوئی تھی اور ہم نے اپنے جریدہ ’’الشریعہ‘‘ میں اس کا باقاعدہ اظہار بھی کیا تھا۔

بہائی مذہب کا ابتدائی تعلق ایران سے ہے جس طرح برصغیر پاک و ہند میں برطانوی استعمار نے مسلمانوں میں فکری انتشار پیدا کرنے کے لیے قادیانی نبوت کو جنم دیا تھا، اسی طرح ایران میں اس طرح کے مقاصد کے لیے روس کی زار شاہی حکومت نے بہائی مذہب کی آبیاری کی تھی۔ اس مذہب کے بانی مرزا محمد علی باب ہیں جن کی نسبت سے یہ مذہب ’’بابی‘‘ کہلاتا ہے، جبکہ اس کو دنیا بھر میں پروان چڑھانے کا کردار مرزا بہاء اللہ شیرازی نے سرانجام دیا اور اس لیے یہ مذہب ’’بہائی‘‘ کہلاتا ہے۔

محمد علی باب کی ولادت بیس اکتوبر ۱۸۱۹ء کو شیراز میں ہوئی اور پچیس سال کی عمر میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی رسائی اہلِ تشیع کے بارہویں امام یعنی امام غائب تک ہو گئی ہے، اور انہیں امام غائب اور ان کے پیروکاروں کے درمیان واسطہ اور دروازہ (باب) کی حیثیت حاصل ہے۔ بہائی روایات کے مطابق مرزا محمد علی باب نے ۱۸۴۴ء کو مکہ مکرمہ جا کر حرم شریف میں حاجیوں کے سامنے اپنے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا، جس پر ایران واپسی کے بعد انہیں شیعہ علماء کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا اور نو جولائی ۱۸۵۰ء کو تبریز چھاؤنی میں سزائے موت دے دی گئی۔

مرزا محمد علی باب کے بعد ملا محمد علی بار فروشی ان کے جانشین ہوئے، لیکن ان کی بجائے مرزا بہاء اللہ شیرازی زیادہ مستعد ثابت ہوئے اور انہوں نے اس گروہ کی قیادت پر قبضہ کرنے کے بعد دعویٰ کیا کہ محمد علی باب تو صرف بطور مبشر ان کی آمد کی خوشخبری دینے آئے تھے جبکہ اصل مہدی وہ ہیں اور اب دنیا کی نجات ان کی تعلیمات سے وابستہ ہو گئی ہے۔

اس مذہب کو فروغ دینے میں ایک خاتون شاعرہ ’’قرۃ العین طاہرہ‘‘ کی سرگرمیوں کا بہت دخل ہے جو قادر الکلام خطیبہ اور شاعرہ تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ (نعوذ باللہ) حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ظہورِ ثان ہے۔

بہائی مذہب وحدتِ ادیان کا داعی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ سب مذہب برحق ہیں اور بہائی مذہب سب آسمانی مذاہب کا مجموعہ اور نچوڑ ہے۔ چنانچہ لاہور سے شائع ہونے والے بہائی مذہب کے ترجمان ماہنامہ نفحات کے ایک مقالہ نگار نے اکتوبر ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ:

’’اہل بہاء تمام پیغمبروں اور اوتاروں کو مانتے ہیں اور سب کی سچائی دنیا کو سمجھاتے ہیں ۔ تمام مقدس کتابوں کے حقائق اور اسرار اہلِ بہاء کے روبرو منکشف ہو ر ہے ہیں۔ الواح الٰہی کی روشنی میں سب کتابوں کے بھید کھل گئے ہیں۔ تمام مذاہب جو ایک دوسرے کی کتاب کو جھوٹا بتاتے ہیں ظلمت میں ہیں، اندھیرے میں ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ جب وہ بصیرت حاصل کرتے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں کہ تمام مذاہب اصل میں ایک ہی مذہب ہیں، سب مقدس کتابیں اصل میں ایک ہی کتاب ہیں، سب احکام و فرمان ایک ہی حاکم علی الاطلاق کے احکام ہیں۔ سب کی غرض انسان کو ترقی و فلاح کی معراج پر پہنچانا ہے اور اب تمام مذاہبِ عالم دینِ بہائی میں اس طرح جذب ہو گئے ہیں جس طرح نہریں دریا میں پہنچ کر ایک ہو جاتی ہیں۔ حضرت بہاء اللہ کا ظہور تمام انبیاء کا ظہور ہے مگر نئی اور اعلیٰ تجلیات کے ساتھ ’’الواحِ حضرت بہاء اللہ‘‘ میں تمام کتبِ الٰہیہ جمع ہو گئی ہیں، جیسے عطر میں بہت سے پھول جمع ہو جاتے ہیں لیکن نئی قوت و شان کے ساتھ۔‘‘

اسی طرح بہائیوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا بلکہ قیامت تک وحی و نبوت کا سلسلہ چلتا رہے گا اور نبی آتے رہیں گے۔ مذکورہ مقالہ نگار نے اسی مقالہ میں اس عقیدہ کا بھی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

مرزا بہاء اللہ شیرازی کے بقول ان پر جو وحی الٰہی نازل ہوئی اسے ’’الواح الٰہی‘‘ اور ’’کتابِ اقدس‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور بہائیوں کے بقول اس وحی کے نزول کے بعد (نعوذ باللہ) قرآن کریم اور شریعت محمدیہؐ منسوخ ہو گئے ہیں۔ فلسطین میں ’’عکہ‘‘ نامی بستی کو بہائی مذہب میں مقدس مذہبی شہر کا درجہ حاصل ہے اور وہ ان کا قبلہ کہلاتا ہے۔ دنیا کے بہت سے شہروں میں بہائیوں کے بڑے بڑے مراکز موجود ہیں۔ شکاگو کا بہائی سنٹر کچھ عرصہ قبل مولانا منظور احمد چنیوٹی کے ہمراہ راقم الحروف نے بھی دیکھا تھا اور وہاں کے ذمہ دار حضرات سے معلومات حاصل کی تھیں۔

ایران میں مذہبی انقلاب کے بعد بہائیوں کو سب سے زیادہ ریاستی جبر کا نشانہ بننا پڑا اور انقلابی مذہبی حکومت نے ایران کے مختلف شعبوں میں وسیع اثر و رسوخ رکھنے والے بہائیوں پر کاری ضرب لگائی۔ بہت سے افراد سزائے موت کے مستحق ٹھہرے اور بے شمار جلاوطن ہو گئے، جن کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں آ کر آباد ہوئی اور کراچی، اسلام آباد، ملتان، حیدر آباد، پشاور اور لاہور سمیت درجنوں بڑے شہروں میں ان کے مراکز تعمیر ہو چکے ہیں جہاں وہ اپنی مذہبی اور تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter