الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر ۱۸ ستمبر کو ’’ائمہ و خطباء کی ذمہ داریاں اور ان کی مشکلات و مسائل‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جو صبح ساڑھے دس بجے شروع ہو کر چار بجے تک جاری رہا۔ اس سال اکادمی میں دو نئی کلاسوں کا آغاز کیا گیا ہے، ایک کلاس حفظ قرآن کریم کی ہے جس میں حفظ کے ساتھ مڈل تک عصری تعلیم کا اہتمام کیا گیا ہے اور دوسری درس نظامی کے اولٰی اور ثانیہ کے درجات کے ساتھ تین سال میں میٹرک تک تعلیم کی کلاس ہے جس کے ساتھ گوجرانوالہ بورڈ سے میٹرک کا امتحان دلوایا جائے گا اور محدود طلبہ میں مسافر طلبہ کی سہولت بھی اس سال رکھی گئی ہے۔
نئے تعلیمی سال کے آغاز پر یہ سیمینار منعقد ہوا جس کی ایک نشست کی صدارت الحاج عثمان عمر ہاشمی نے اور دوسری نشست کی صدارت راقم الحروف نے کی، مولانا سید عبد الخبیر آزاد خطیب بادشاہی مسجد لاہور اور مولانا مفتی محمد طیب مہتمم جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد بالترتیب پہلی اور دوسری نشست کے مہمان خصوصی تھے، جبکہ خطاب کرنے والوں میں مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا مفتی فخر الدین عثمانی، مولانا عبد الواحد رسول نگری، مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، مولانا حافظ محمد رشید اور ڈی ایچ اے لاہور کے خطیب پروفیسر مولانا حافظ سمیع اللہ فراز شامل ہیں۔
مولانا مفتی محمد طیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ مساجد اور ائمہ مساجد کے مسائل کے حل کے لیے باہمی رابطہ و اجتماع کا کوئی فورم موجود نہیں ہے حالانکہ مسائل بھی بہت ہیں اور مشکلات بھی کافی ہیں مگر باہمی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کی مشکلات سے آگاہ نہیں ہو پاتے۔ ان مسائل میں مساجد کے مسائل بھی ہیں اور ائمہ و خطباء کے مسائل بھی ہیں جبکہ ہر جگہ کے مسائل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان مسائل میں ہماری ذمہ داریوں کا سوال بھی شامل ہے اور ہماری مشکلات بھی ان مسائل کا حصہ ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اگر ہم اپنی ذمہ داری کی طرف پوری توجہ دیں تو مشکلات پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ مثلاً ہم امامت و خطابت کو ڈیوٹی سمجھتے ہوئے اسی حد تک محدود نہ رہیں بلکہ مسجد کے فورم سے فائدہ اٹھا کر درس و تدریس، نمازیوں کی ذہن سازی اور نوجوانوں کو تعلیم و تعلم کے ذریعے قریب کرنے کی کوشش کریں، اس سے دینی فائدہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد کے ماحول میں ہمارا اعتماد بھی قائم ہوگا۔ مگر یہ سارا کام مشنری جذبہ کے ساتھ اور رضاکارانہ انداز میں ہونا چاہیے اس کے بے شمار فوائد ہیں۔
مولانا عبد الرؤف فاروقی نے خطاب کرتے ہوئے کہ ہر سطح کے ائمہ مساجد کے مسائل الگ ہیں۔ دیہات کی مساجد کے مسائل اور ہیں، شہروں کی مساجد کے مسائل مختلف ہیں، کمیٹیوں کے تحت چلنے والی مساجد کے ائمہ و خطباء دیگر نوعیت کی مشکلات سے دوچار ہیں، جبکہ خود مسجد بنا کر چلانے والے علماء کرام اور ائمہ کی مشکلات اس سے الگ نوعیت کی ہیں، اسی طرح محکمہ اوقاف کی مساجد کے اماموں کے مسائل اور قسم کے ہیں اور فوج یا سرکاری اداروں کی مساجد کے ائمہ و خطباء کو اس سے الگ نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سب کے تفصیلی جائزہ کی ضرورت ہے۔ الشریعہ اکادمی اس مسئلہ پر مباحثہ کا آغاز کرنے پر مبارکباد کی مستحق ہے لیکن یہ صرف ایک سیمینار کی بات نہیں ہے اس کے لیے مستقل کام کی ضرورت ہے تاکہ مسائل کا احساس اجاگر کر کے ان کے حل کے لیے راہ ہموار کی جائے۔ مولانا فاروقی نے کہا کہ ہمارے بہت سے ائمہ و خطباء اب سے کچھ عرصہ قبل سیاسی و دینی تحریکات میں پیش پیش ہوتے تھے جس کی وجہ سے مقامی ماحول اور انتظامیہ کے حوالے سے ان کا رعب و دبدبہ ہوتا تھا مگر اب غالب اکثریت نے سیاسی عمل، دینی تحریکات اور معاشرتی میل جول سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
مولانا عبد الحق خان بشیر نے اپنے خطاب میں اس ضرورت پر زور دیا کہ خطیب کو جمعہ کے خطبہ کے لیے تیاری کرنی چاہیے اور مستند معلومات کی بنیاد پر گفتگو کرنی چاہیے، اس لیے کہ تیاری اور مستند معلومات کے بغیر کی جانے والی گفتگو ادھوری رہ جاتی ہے جس کے اثرات منفی ہوتے ہیں۔ اور آج کے دور میں عام لوگوں کے لیے صرف ان خطباء کرام کے خطبات کشش کا باعث بنتے ہیں جو باقاعدہ تیاری کرتے ہیں اور سنی سنائی باتوں پر گزارہ کرنے کی بجائے علمی اور معلوماتی مواد اپنے بیان میں پیش کرتے ہیں۔ خطیب کو معاشرتی ضرورتوں کا بھی خیال کرنا ہوگا، مثال کے طور پر ملک میں یوم کشمیر منایا جا رہا ہے تو خطیب کو اس کے بارے میں بھی بات کرنی چاہیے اور غیر متعلقہ موضوعات پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح خطیب کو چاہیے کہ وہ اپنے سامعین کو دینی معلومات مہیا کرنے اور احکام و مسائل سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ دینی شخصیات اور اپنے بزرگوں سے بھی متعارف کرائے۔ جس کے لیے حضرات صحابہ کرامؓ، بزرگان دین بالخصوص اکابر علماء دیوبند کا کوئی نہ کوئی واقعہ یا ارشاد موقع محل کی مناسبت سے اپنے خطبات میں ضرور شامل کرنا چاہیے۔ مولانا عبد الحق نے کہا کہ مطبوعہ خطبات کے مجموعوں نے خطباء کے اندر مطالعہ کا ذوق ختم کر دیا ہے جس کا بہت نقصان ہو رہا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا عبد الخبیر آزاد نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں باہمی رابطہ اور مشاورت کو فروغ دینا چاہیے اور ایک دوسرے کی مشکلات میں ساتھ دینا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں اپنے ہم مسلک لوگوں اور نمازیوں کی مشکلات میں بھی حصہ دار بننا چاہیے۔ ہمارے اسلاف جب بات کرتے تھے ان کی بات کا اثر ہوتا تھا اس لیے کہ وہ صاحبِ کردار ہوتے تھے اور ان کی نیکی و تقویٰ پر لوگوں کا اعتماد ہوتا تھا۔ آج یہ ماحول کم ہوتا جا رہا ہے، ہمیں اپنے معمولات، طرز عمل اور کردار کو بہتر بنانا ہوگا تبھی ہماری باتوں میں اثر ہوگا اور خاص طور پر مسلکی معاملات میں حمیت سے کام لینا چاہیے اور مناسب طریقہ سے مسلک اور اہل مسلک کا دفاع کرنا چاہیے ۔
مولانا مفتی فخر الدین عثمانی نے کہا کہ ہمارے خطباء کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو حلال و حرام کے مسائل سے آگاہ کریں اور موقع محل کی مناسبت کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری مسائل کو عوام کے سامنے بیان کریں، انہوں نے کہا کہ دینی احکام پر عمل اور نیکی اور تقویٰ کے معاملہ میں میں لوگوں کے سامنے عملی نمونہ بننا چاہیے۔
مولانا عبد الواحد رسول نگری نے کہا کہ خطباء کو وقت اور لوگوں کے مزاج کی تبدیلی کا احساس کرنا چاہیے، ایک وقت تھا جب لمبی لمبی تقریریں پسند کی جاتی تھیں اور مشکل جملوں اور محاوروں میں گفتگو کو کمال سمجھا جاتا تھا، اب یہ صورتحال نہیں ہے، آپ سادہ الفاظ میں اور مختصر وقت میں اپنی بات کو سمجھا سکیں تو یہی خطابت کا کمال ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی محسوس کی جانی چاہیے کہ لوگوں کی ضرورت اور دلچسپی کے مسائل اگر ہم بیان نہیں کریں گے تو وہ ٹی وی چینلز سے اور دیگر ذرائع سے رجوع کریں گے اور اگر وہی مسائل ہم اچھے انداز میں ان کو سمجھا دیں تو انہیں ادھر جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی مگر ہمارے ہاں ان ضروریات کا خیال عام طور پر نہیں رکھا جاتا۔
مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ خلوص اور مشن کو اپنی محنت کی بنیاد بنانا چاہیے اور قناعت، صبر اور بے نیازی سے کام لینا چاہیے، اس کے ہمیشہ اچھے اثرات سامنے آتے ہیں اور صبر و حوصلہ کا پھل ہمیشہ میٹھا نکلتا ہے۔
راقم الحروف نے بھی سیمینار میں کچھ گزارشات پیش کیں جو کسی اور موقع پر اس کالم کا حصہ بنیں گی ان شاء اللہ تعالٰی۔ مگر سردست اتنی گزارش ہے کہ مساجد اور ان کے ائمہ کی مشکلات اور ائمہ و خطباء کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ہمارے ۱۶ رمضان المبارک اور ۱۹ شوال کے یہ دو سیمینارز اچھا تجربہ ثابت ہوئے ہیں اور ان سے ہمیں ایک دوسرے کے مسائل و مشکلات کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔