۶ ستمبر کو یومِ دفاعِ پاکستان اور ۷ ستمبر کو یومِ ختم نبوت تھا، بحمد اللہ تعالٰی دونوں دن خاصی مصروف رہی۔ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع ہمارے قومی فرائض میں سے ہے اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع بھی اہم ترین ملی تقاضا ہے چنانچہ ملک بھر میں دونوں حوالوں سے بھرپور جوش و خروش کا اظہار کیا گیا جس میں تھوڑا بہت ہمارا حصہ بھی شامل ہے۔
۶ ستمبر کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ’’اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام ’’استحکامِ پاکستان سیمینار‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مقررین نے دفاعِ وطن کے حوالہ سے جذبات کا اظہار کیا۔ نئے قلمکاروں کا یہ فورم ہمارے پرانے ساتھی مولانا اللہ وسایا قاسم شہیدؒ کے فرزند حفیظ چودھری نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر بنایا ہے جو نوجوانوں میں لکھنے پڑھنے کا ذوق بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی تربیت، حوصلہ افزائی اور باہمی رابطہ کے لیے مؤثر اور مفید کام کر رہا ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے اپنا نصف صدی قبل کا ماحول یاد آجاتا ہے جب ہم چند دوستوں کے درمیان، جن میں مولانا سعید الرحمان علویؒ اور مولانا عزیز الرحمان خورشید بھی شامل تھے، اس بات پر مسابقت رہتی تھی کہ کسی ضروری عنوان پر خبر یا مضمون لکھنا، اخبارات سے رابطہ کر کے اسے چھپوانے کی کوشش کرنا، پھر یہ تلاش کرنا کہ تحریر کہاں چھپی ہے اور کتنی چھپی ہے؟ اور اس کے بعد ان کی کٹنگز ریکارڈز میں محفوظ کرنا ہمارا محبوب مشغلہ ہوتا تھا۔ اب یہ سارا ماحول ماضی کی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا نے تو روایات ہی بدل کر رکھی دی ہیں۔ اسلامک رائٹرز موومنٹ کے اس سیمینار میں نوجوانوں کی زبانوں سے ملک و قوم اور دین و ملت کے دفاع کی پرجوش باتیں سن کر بہت خوشی ہوئی اور اس موقع پر کچھ گزارشات میں نے بھی پیش کیں۔
اسی روز نماز مغرب کے بعد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام مجلس کے لاہور دفتر کے ساتھ مسجد عائشہؓ میں منعقدہ ختم نبوت کانفرنس میں حاضری ہوئی اور مولانا اللہ وسایا کے ساتھ مختلف امور پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ عالمی مجلس کی سرگرمیاں دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ وقت کے تقاضوں اور جدوجہد کی ضروریات کے مطابق مسلسل مصروف عمل رہتی ہے جس سے قوم کی راہنمائی ہوتی ہے، مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت کا احساس تازہ رہتا ہے اور نوجوان علماء کی تربیت ہوتی رہتی ہے۔ میں نے اپنی گزارشات میں اس بات کا بطور خاص ذکر کیا کہ قادیانیوں کی ملکی نظام میں شمولیت کے مسئلہ کو دوسری غیر مسلم اقلیتوں کے حوالہ سے دیکھنا درست نہیں ہے اس لیے کہ ملک میں بسنے والے ہندوؤں، عیسائیوں اور سکھوں وغیرہ سے ہمارا مذہب ضرور مختلف ہے لیکن مذہبی حوالوں سے ان کی ہمارے ساتھ کوئی محاذ آرائی نہیں ہے۔ جبکہ قادیانیوں نے مسلمانوں کے اجماعی عقائد اور موقف کے خلاف دنیا بھر میں محاذ آرائی کا بازار گرم کر رکھا ہے اور وہ خود کو مسلمان کہہ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر قرار دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ان کی یہ مورچہ بندی اور امت مسلمہ کے اجماعی موقف سے انکار نے انہیں دوسری غیر مسلم اقلیتوں کی صف سے الگ کر رکھا ہے، جب تک ان کی یہ مورچہ بندی قائم ہے موجودہ صورتحال قائم رہے گی اور تحریک تحفظ ختم نبوت پورے جوش و جذبہ کے ساتھ جاری رہے گی۔
۷ ستمبر کو جمعہ کا دن تھا، مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعۃ المبارک کے خطبہ کے موقعہ پر میں نے اہم امور پر معروضات پیش کیں اور مغرب کے بعد مجلس احرار اسلام پاکستان کے لاہور مرکز میں منعقدہ کانفرنس میں شریک ہوا۔ اس موقع پر جناب لیاقت بلوچ، مولانا محمد امجد خان، مولانا قاری زوار بہادر، مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، مولانا سید کفیل شاہ بخاری، مولانا محب النبی، جناب اعجاز چودھری اور مختلف مکاتب فکر کے دیگر سرکردہ حضرات سے ملاقات ہوئی۔ اور سب سے زیادہ خوشی برادر بزرگوار حضرت مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاریؒ کے فرزند و جانشین مولانا سید عطاء اللہ شاہ ثالث کو اسٹیج پر بیٹھے دیکھ کر ہوئی کہ یہ منظر دیکھنے کو ایک عرصہ سے آنکھیں ترس رہی تھیں، اللہ تعالٰی نظر بد سے محفوظ رکھیں اور بخاری خاندان کو اسی طرح باہمی محبت و اعتماد کے ساتھ اپنی روایات زندہ رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
میں نے اس موقع پر اپنی گزارشات میں یہ عرض کیا کہ وزیراعظم عمران خان جب ’’ریاست مدینہ‘‘ کی بات کرتے ہیں تو سچی بات یہ ہے کہ بہت خوشی ہوتی ہے اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالٰی انہیں اس سمت عملی پیش رفت کرنے کی توفیق دیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں یاددہانی کے طور پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب ریاست مدینہ کی حکمرانی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سنبھالی تو انہوں نے اڑھائی سالہ مختصر دور حکومت میں تین بڑے اہم کام کیے تھے:
- عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ کرتے ہوئے اس دور کے مدعیان نبوت کی سرکوبی کی تھی۔
- زکٰوۃ کے منکرین کا استیصال کر کے ایک دینی فریضہ کا تحفظ کیا تھا۔
- اور قرآن کریم کو سرکاری طور پر کتابی شکل میں محفوظ کر کے اللہ تعالٰی کی عظیم اور آخری کتاب کی حفاظت کے بارے میں ذہنوں میں پیدا ہونے والے خدشات و خطرات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا تھا۔
جس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ امت کے اسلامی عقائد کا تحفظ، دینی احکام و فرائض کی حفاظت اور اسلامی علوم کا تحفظ و فروغ ریاستِ مدینہ کی بنیاد تھی اور یہ تینوں کام اسلامی ریاست کے فرائض میں شامل ہیں۔ اس لیے کچھ لوگوں کا یہ واویلا کہ ریاست کا ان معاملات میں کوئی کردار نہیں ہے، ریاستِ مدینہ اور خلافتِ صدیق اکبرؓ کے تصور کے ہی خلاف ہے۔
یومِ دفاع اور یومِ تحفظ ختم نبوت پر ملک بھر میں مختلف مکاتب فکر، طبقات، اداروں، مراکز اور حلقوں نے جس وسیع پیمانے پر تقریبات کا اہتمام کیا ہے وہ ان دونوں حوالوں سے قوم کی بیداری اور زندہ دلی کی علامت ہے۔ اور لوگوں کا جوش و جذبہ دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ پاکستان اور اس کے اسلامی تشخص کے خلاف جو تانے بانے مختلف سطحوں پر بنے جا رہے ہیں وہ بالآخر ناکام ہوں گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے مقصد قیام اور دستور کے مطابق ایک فلاحی اور نظریاتی معاشرہ کی تشکیل کی طرف پیشرفت کرے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔