جس طرح بہت سی دواؤں کا سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے اور ماہر معالجین اس سے تحفظ کے لیے علاج میں معاون دوائیاں شامل کر دیتے ہیں، اسی طرح بہت سی باتوں کا بھی سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے اور سمجھدار لوگ جب محسوس کرتے ہیں کہ ان کی کسی بات سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے تو وہ اس کا ازالہ بھی اپنی اسی گفتگو میں کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں درسِ نظامی کی تدریسی اصطلاح میں اسے ’’دفعِ دخلِ مقدر‘‘ کہا جاتا ہے کہ کسی مصنف کو اگر محسوس ہوتا ہے کہ اس کے کسی جملے سے کوئی ضمنی سوال پیدا ہو رہا ہے، یا کوئی الجھن جنم لے رہی ہے، تو وہ ایک آدھ جملہ یا لفظ اس کے ساتھ بڑھا کر اسے دور کر دیتا ہے۔ یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ بھی ہے جس کی ایک عملی مثال میں اس وقت پیش کرنا چاہوں گا۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ تبوک کے لیے تشریف لے جانے لگے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ وہ ساتھ نہیں جائیں گے بلکہ مدینہ منورہ میں رہیں گے اور پیش آمدہ متعدد امور کی دیکھ بھال کریں گے۔ حضرت علیؓ غزوہ کے لیے ساتھ جانا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا، مگر نبی اکرمؐ کے پیش نظر بہت سی مصالح تھیں اس لیے اجازت مرحمت نہیں فرمائی۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ جناب نبی اکرمؐ کو حضرت علیؓ کے جذبات کا پاس تھا لیکن وہ انہیں ساتھ لے جانے میں بھی مصلحت نہیں سمجھتے تھے، اس لیے تسلی کے لیے فرمایا کہ اے علیؓ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ میرے ساتھ تمہارا وہی تعلق اور معاملہ ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا؟ جب حضرت موسٰیؑ کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے تشریف لے جاتے تو بنی اسرائیل میں اپنی جگہ حضرت ہارونؑ کو چھوڑ جاتے تاکہ ان کی واپسی تک وہ ضروری معاملات کو سنبھالے رکھیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور جملہ بھی فرما دیا کہ ’’مگر میرے بعد نبی کوئی نہیں ہو گا‘‘۔ یہ جملہ پہلی گفتگو کے ضمن میں پیدا ہونے والے ایک سوال کا جواب تھا کہ حضرت ہارونؑ اللہ کے پیغمبر تھے تو کیا ان کے ساتھ مشابہت کی صورت میں نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے کا کوئی امکان تو نہیں ہے؟ یہ خدشہ ذہن میں پیدا ہو سکتا تھا، اس لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً گفتگو کے دوسرے جملے میں ہی یہ بات صاف کر دی کہ میرے بعد نبوت کسی کو نہیں ملے گی۔
یہ بات مجھے معروف اور محترم دانشور جناب جاوید احمد غامدی کی ایک نشریاتی گفتگو کی اخباری رپورٹ پڑھ کر یاد آئی، جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ قانون سازی صرف پارلیمنٹ کا حق ہے، کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کی رائے کے خلاف قانون سازی کرے، کیونکہ یہ اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ ارشاد بالکل بجا ہے اور خود ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ قانون سازی صرف منتخب نمائندوں کا حق ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے خیال میں یہ ادھوری سچائی ہے، جس کے ساتھ معاملہ کے دوسرے رخ کو واضح کرنے والی بات شامل نہ ہو تو غلط فہمی اور الجھن پیدا ہو سکتی ہے۔ وہ یہ کہ بلاشبہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام اور اسی کا حق ہے، لیکن ایک مسلمان ملک کی پارلیمنٹ معاصر دنیا کی دیگر پارلیمنٹوں کی طرح قانون سازی میں مطلقاً خودمختار نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کی حدود میں رہنے کی پابند ہے۔ جیسا کہ پاکستان کے دستور میں بھی اسے اس بات کا پابند رکھا گیا ہے۔ ورنہ مکمل طور پر خودمختار اور مطلق العنان پارلیمنٹوں کے اِس دور میں مسلمان پارلیمنٹ کے صرف قانون سازی کے حق کا ذکر کرنا، اور اس کی ذمہ داری اور حدود کو نظرانداز کر دینا جن غلط فہمیوں کو جنم دے سکتا ہے، اس سے جاوید احمد غامدی جیسے ممتاز دانشور یقیناً غافل نہیں ہو سکتے۔
- مثال کے طور پر ایک بات کو سامنے رکھ لیجئے کہ کینیڈا کی پارلیمنٹ نے چند ماہ قبل اکثریت کے ساتھ ہم جنسی کو جائز قرار دیتے ہوئے ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت دے دی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر پاکستان کی پارلیمنٹ ایسا کرنا چاہے گی تو خود غامدی صاحب کو اس پر اعتراض ہو گا، اور اس اعتراض کی دلیل ان کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہو گی کہ اسلام ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں دیتا اور ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم نہیں کرتا۔
- یا مثلاً پاکستان کی پارلیمنٹ خدانخواستہ مغربی ملکوں کی پارلیمنٹوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زنا کو جائز تسلیم کر لے، شراب کو حلال قرار دے دے، اور سود کے جواز کا بل پاس کر لے، تو غامدی صاحب محترم کسی طرح بھی اسے قبول نہیں کریں گے، لیکن جس طرح وہ پارلیمنٹ کے متعلق حقِ قانون سازی کا ذکر فرما رہے ہیں وہ ان کے اس اعتراض کی راہ میں حائل ہو جائے گا۔
اس لیے محترم غامدی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کا دفاع ضرور کریں اور اس کی اہمیت و ضرورت بھی بیان فرمائیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کی حدود کا بھی تذکرہ فرمائیں تاکہ ان کے ارشادات سننے یا پڑھنے والوں کے ذہنوں میں کوئی الجھن پیدا نہ ہو، اور وہ مغربی ملکوں کی موجودہ پارلیمنٹوں اور ایک مسلم ملک کی پارلیمنٹ کے درمیان فرق کو سمجھ سکیں۔
غامدی صاحب محترم نے اپنے ان ارشادات میں وفاقی شرعی عدالت پر بلاوجہ غصہ نکالتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ
’’یہ وفاقی شرعی عدالت کیا چیز ہے؟ کیا حق ہے کسی عدالت کو کہ وہ قانون کے معاملات کا فیصلہ کر کے کسی قوم کے لیے قانون سازی کرے؟ عدالتوں کا کام، جو قانون سازی کی گئی ہو، اس کی تعبیر کرنا ہے اور اس کا نفاذ کرنا ہے، یعنی عدالتوں کا کام قانون کا نفاذ کرنا ہے نہ کہ قانون سازی۔ قانون سازی کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے۔‘‘
ہمارے خیال میں معروضی حقائق غامدی صاحب کے ان ارشادات کی تائید نہیں کرتے، اس لیے کہ کسی بھی ملک کی عدالتِ عظمیٰ کا کام صرف نفاذ اور تعبیر نہیں ہوتا، بلکہ یہ چیک کرنا بھی عدالت ہی کے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ دستور کے اصولوں سے تو انحراف نہیں کر رہی؟ پارلیمنٹ کو دستور میں ترمیم کا اختیار ہوتا ہے، لیکن جب تک ترمیم نہیں ہو جاتی وہ خود بھی دستور کے دائرے میں رہنے کی پابند ہوتی ہے، اور اگر وہ اپنے کسی فیصلے یا قانون سازی میں دستور کی بنیادوں سے منحرف نظر آ رہی ہو تو نہ صرف عدالتِ عظمیٰ کو اس کا نوٹس لینے کا حق ہے، بلکہ کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو دستور کے اصولوں کا پابند رکھنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔
اگر محترم غامدی صاحب امریکہ کے دستور کا مطالعہ رکھتے ہیں تو ان کے علم میں ہو گا کہ وہاں بھی دستوری اصولوں کی پاسداری اور کانگریس کو ان کے دائرے میں رکھنے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کے پاس ہے، اور وہ کئی بار اس حق کا استعمال بھی کر چکی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی غامدی صاحب کے علم سے باہر نہیں ہو سکتی کہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کسی قانون کی تعبیر و تشریح میں کوئی رولنگ دے دیتی ہے تو ماتحت عدالتوں کے لیے یہ رولنگ قانون ہی کا درجہ حاصل کر لیتی ہے، اس طرح قانون سازی میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا ایک حد تک رول مسلّمات میں سے ہے۔
باقی رہی بات وفاقی شرعی عدالت کی تو سچی بات ہے ہمیں محترم جاوید احمد غامدی صاحب سے اس تجاہلِ عارفانہ کی توقع نہیں تھی، کیونکہ اس کے اس پس منظر سے وہ یقیناً آگاہ ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں قانون سازی کی بنیاد قرآن و سنت کو قرار دیا گیا ہے، جبکہ قانون کی تعبیر و تشریح اور قانون سازی میں اس کے اصولوں کی پاسداری کو چیک کرنا اعلیٰ عدالتوں کا کام ہے۔ لیکن ہمارے ہاں مروجہ سسٹم میں اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے لیے قرآن و سنت کا علم اور مہارت اس درجہ مشروط نہیں ہے جو قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور ان کی روشنی میں قوانین کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے۔ لہٰذا اس خلا کو پر کرنے اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے (۱) وفاقی شرعی عدالت اور (۲) سپریم کورٹ میں شریعت ایپلٹ بینچ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا کہ قرآن و سنت کی روشنی میں قوانین کا جائزہ لینے کے لیے جج صاحبان کے ساتھ قرآن و سنت کی مطلوبہ مہارت رکھنے والے علماء کرام بھی بیٹھیں، تاکہ دونوں مل کر دستور میں دی گئی اس ضمانت پر عملدرآمد کی نگرانی کر سکیں کہ ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔
جس طرح سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی قانون کو دستور کے اصولوں کے منافی سمجھے تو اسے کالعدم قرار دے دے، اسی طرح وفاقی شرعی عدالت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ کسی قانون کو قرآن و سنت کے منافی دیکھے تو اس کے خلاف حکم جاری کر دے۔ اسے اگر جاوید احمد غامدی پارلیمنٹ کے متوازی قانون سازی سمجھتے ہیں تو ان کی مرضی ہے، ورنہ معروضی صورتحال ان کے اس ارشاد کی موافقت نہیں کرتی۔ البتہ اگر محترم جاوید غامدی صاحب دستور اور قانون کے لیے قرآن و سنت کو بنیاد قرار دینے کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں، یا قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور ان کے مطابق قوانین کا جائزہ لینے کے لیے قرآن و سنت کے ماہر علماء کی موجودگی کو درست نہیں سمجھتے تو بات الگ ہے، پھر ان کے مذکورہ ارشادات سب کے سب درست اور مکمل ہیں۔ لیکن اگر پارلیمنٹ قرآن و سنت کے دائرہ کار کی پابند ہے اور قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کے لیے دینی علوم کی مہارت ضروری ہے تو وفاقی شرعی عدالت پر جاوید غامدی صاحب کا اعتراض کسی طرح بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔