مدرسہ نصرۃ العلوم کی سالانہ تعطیلات کے دوران حسب معمول بیرونی سفر پر ہوں۔ ۳۰ اگست کو پروگرام کے مطابق مجھے لندن پہنچنا تھا جہاں مانچسٹر میں مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی نے امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کی سیرت وخدمات کے حوالہ سے کانفرنس رکھی ہوئی تھی اور گلاسگو میں بھی ایک کانفرنس کا اہتمام تھا۔ انڈیا سے مولانا مفتی سیف اللہ خالد رحمانی پہنچ چکے تھے، پاکستان سے مجھے شریک ہونا تھا مگر ٹریول ایجنٹ کی غفلت کے باعث آخر وقت تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان دنوں فلائٹوں پر بہت رش ہوتا ہے اور میری سیٹ اوکے نہیں ہے۔ ٹکٹ پر اوکے ہی لکھا تھا جبکہ کمپوٹر پر اوکے نہیں تھی جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ۳۰ اگست کو ایئرپورٹ سے واپس آنا پڑا بلکہ اس کے بعد بھی مسلسل ایک ہفتے تک کوئی سیٹ نہ مل سکی، مجھے ٹکٹ تبدیل کرکے لاہور کی بجائے کراچی سے لندن کے لیے سفر کرنا پڑا اور سات ستمبر کو صبح لندن پہنچ سکا، جبکہ مانچسٹر اور گلاسگو کے اجتماعات میں شرکت نہ ہو سکی۔ البتہ اسی دوران پروگرام میں تبدیلی کے باعث ایک رات کراچی میں رہا اور جامعۃ الرشید کے اساتذہ وطلبہ کے ساتھ دو نشستوں میں بہت سے ضروری امور پر گفتگو اور تبادلہ خیالات کا موقع مل گیا۔ لندن سے آگے امریکہ کے لیے مجھے ۱۰ ستمبر کو سفر کرنا تھا اس لیے لندن کے علاوہ اور کسی شہر میں جانے کی صورت نہیں بنی اور لندن اور کراؤلی میں دوستوں سے ملاقاتوں کے بعد نیویارک کے لیے روانہ ہوگیا۔
گزشتہ جون میں شش ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران برطانیہ میں دو ہفتے رہ کر گیا تھا لیکن سات جولائی کے بم دھماکوں کے بعد یہ میرا پہلا سفر تھا اس لیے ماحول میں خاصی تبدیلی نظر آئی۔ سب سے پہلے تو مجھے گیٹ وک کے ایئرپورٹ پر سامان کی تفصیلی تلاشی کا سامنا کرنا پڑا جو اس سے پہلے نہیں ہوا کرتی تھی، پھر جن حضرات سے اس دوران ملاقاتیں ہوئیں ان کی گفتگو پہلے سے کہیں زیادہ محتاط دکھائی دی اور خالص مولویانہ وضع قطع اور لباس میں پبلک مقامات پر گھومتے پھرتے عام لوگوں کے چہروں کے تاثرات میں بھی کچھ غیر مرئی سا تغیر محسوس ہوا حالانکہ برطانیہ میں پہلے ایسے نہیں ہوا کرتا تھا۔
۱۰ ستمبر کو رات ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ نیویارک کے کینیڈی ایئرپورٹ پر اترا تو کچھ اندازہ تھا کہ ۱۱ ستمبر شروع ہونے میں تین چار گھنٹے باقی ہیں اس لیے ایئرپورٹ پر حفاظتی اور احتیاطی انتظامات معمول سے زیادہ ہوں گے۔ چنانچہ امیگریشن کاؤنٹر پر کھڑے سیام فام امریکی افسر نے پہلے کی طرح آسانی سے کلیئرنس دینے کی بجائے مجھے امیگریشن کے آفس میں پہنچا دیا جہاں دو تین آفیسرز نے مسلسل دو گھنٹے تک سوالات اور سامان کی تلاشی کا سلسلہ جاری رکھا، کاغذات کی چیکنگ زیادہ تفصیل سے ہوئی اور بالآخر گیارہ بجے کے لگ بھگ چھ ماہ کی انٹری مہر کے ساتھ ایئر پورٹ سے باہر جانے کی اجازت ملی جہاں دار العلوم نیویارک کے مہتمم مولانا محمد یامین اور بھائی برکت اللہ دو گھنٹے سے میرے انتظار میں پریشان کھڑے تھے، ان دونوں کا تعلق ڈھاکہ سے ہے۔ بھائی برکت اللہ صاحب ڈھاکہ کے المرکز الاسلامی کے سربراہ اور بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی کے رکن مولانا شہید الاسلام کے بھائی ہیں اور نیویارک کے کوئینز کے علاقہ میں ہل سائیڈ ایونیو پر ’’دار العلوم نیویارک‘‘ کے نام سے حفظ قرآن کریم اور درس نظامی کا تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں جو اس وقت کرایہ کی بلڈنگ میں ہے اور مستقل جگہ کی تلاش میں ہیں۔ مجھے اس سے قبل کئی بار یہاں حاضر ہونے کا موقع مل چکا ہے، بڑی محبت اور احترام سے پیش آتے ہیں اور خدمت کرتے ہیں۔ میں نے اپنی نیویارک آمد کی اطلاع کسی اور دوست کو دی تھی مگر ان حضرات کو پتہ چلا تو انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ ہم ہی ایئر پورٹ سے وصول کریں گے اور دو چار دن اپنے پاس رکھیں گے۔ ایئرپورٹ سے قریب ہونے کی وجہ سے آسانی بھی اسی میں تھی، پھر سترہ ستمبر کو دار العلوم کا سالانہ جلسہ تھا جس کے لیے انہوں نے مجھے ایئر پورٹ پر پہلی ملاقات میں ہی پابند کر لیا تھا، اس لیے کم و بیش ایک ہفتہ وہیں قیام رہا اور اس دوران نیویارک کے مختلف مقامات کے دینی اجتماعات میں حاضری ہوئی۔
۱۸ ستمبر کو وہاں سے واشنگٹن آگیا جہاں اسپرنگ فیلڈ میں واقع دینی مرکز ’’دارالہدیٰ‘‘ میں میرا قیام ہے جہاں ہر سال میرا قیام ہوتا ہے۔ دارالہدیٰ کے ڈائریکٹر مولانا عبدالحمید اصغر کا تعلق بہاولپور سے ہے، حضرت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندی ؒ کے خلفاء میں سے ہیں اور ۱۹۸۷ء سے واشنگٹن کے علاقے میں میرے میزبان وہی ہوتے ہیں۔ دارالہدیٰ میں قیام کے دوران ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی نماز خالی نہ جائے، ہر نماز کے بعد حدیث نبویؐ کا تھوڑا بہت درس ضرور ہو اور حدیث کی کسی کتاب کا کوئی باب باضابطہ تدریسی انداز میں بیان ہوجائے۔ گزشتہ سال مسلم شریف کی کتاب الفتن کا درس ہوا تھا، اس سے گزشتہ سال ابن ماجہ شریف کی کتاب السنۃ کا درس تھا، اس بار بخاری شریف کی ثلاثیات کے درس کا مشورہ ہوا جو آج ۲۰ ستمبر کو مغرب کے بعد شروع کر رہا ہوں۔ ۹ اکتوبر تک یہاں قیام رہے گا، اس دوران ریاست الاباما میں اپنے گکھڑ سے تعلق رکھنے والے بچپن کے دوست افتخار رانا کے پاس دو تین روز کے لیے جاؤں گا، اس کے بعد ۱۰ اکتوبر کو نیویارک سے لندن چلا جاؤں گا جہاں سے ۱۳ اکتوبر کو لاہور کے لیے روانگی ہوگی اور پروگرام کے مطابق ۱۴ اکتوبر کا جمعہ حسب معمول مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں پڑھاؤں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دفعہ امریکہ آنے پر جو سب سے اچھی خبر ملی وہ یہ ہے کہ یہاں کے علماء کرام نے ’’شریعہ بورڈ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جو مسلمانوں کے باہمی تنازعات اور معاملات کو ثالثی کے انداز میں حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہاں اس قسم کے اداروں کی ہر شہر میں ضرورت ہے کیونکہ امریکی دستور میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اگر خاندانی تنازعات یا چھوٹے موٹے جھگڑوں کو آپس میں ثالثی کے انداز میں طے کرنے کا نظام اپنا لیں تو اسے تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے قانونی تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے لیے قواعد و ضوابط کے تحت ’’ثالثی بورڈ‘‘ کی رجسٹریشن ضروری ہے، اگر ثالثی بورڈ کو امریکی دستور کے طے کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق رجسٹریشن حاصل ہوجائے اور وہ اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے خاندانی اور مالی نوعیت کے تنازعات کا اپنے مذہب کے مطابق فیصلے کرے تو اس کے فیصلوں کو سپریم کورٹ تک تسلیم کیا جاتا ہے، یہ سہولت دراصل یہودیوں نے حاصل کی تھی جو اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور انہی کی طرح مسلمان بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
میں نے ۱۹۸۸ء اور ۱۹۸۹ء کے دوران شکاگو، نیویارک اور واشنگٹن میں اپنے متعدد خطابات کے دوران یہاں کے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی اور گزارش کی تھی کہ وہ اس دستوری سہولت سے فائدہ اٹھائیں اور اس حوالہ سے اپنا کوئی نہ کوئی نظم ضرور قائم کریں۔ اس کے بعد بھی مختلف علماء کرام سے یہ گزارش کرتا رہا ہوں، اس بار مجھے نیویارک کے علماء کرام نے بتایا کہ انہوں نے باہمی مشورہ کے ساتھ شریعہ بورڈ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جبکہ شکاگو میں چند سال قبل شریعہ بورڈ کام کررہا ہے تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ میں نے شریعہ بورڈ کے دفتر میں حاضری دی، ان کا طریق کار معلوم کیا اور کچھ مشورے بھی دیے۔ بورڈ میں مستقل کام کرنے والوں میں مولانا مفتی روح الامین کا تعلق ڈھاکہ سے ہے، مولانا مفتی محمد نعمان حیدر آباد دکن سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ مولانا حافظ محمد اعجاز کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور وہ مدرسہ نصرۃ العلوم سے فیض یافتہ ہیں۔ مولانا حافظ محمد اعجاز کے والد محترم حضرت مولانا قاضی عبدالرزاق صاحب مکہ مکرمہ میں قیام پذیر ہیں۔ حافظ صاحب موصوف ایک عرصہ تک گوجرانوالہ میں حافظ آباد روڈ کی ایک مسجد میں امامت و تدریس کی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں اور کچھ عرصہ سے نیویارک میں مقیم ہیں۔ یہ حضرات باری باری ایک دن بورڈ کے دفتر میں ڈیوٹی دیتے ہیں، جس روز میں وہاں گیا مولانا حافظ محمد اعجاز صاحب کی باری تھی، انہوں نے بتایا کہ ابھی ایک جوڑا اٹھ کر گیا ہے، میاں بیوی میں بعض مسائل پر تنازعہ تھا، انہوں نے ہم سے رابطہ قائم کیا، ہم نے دفتر میں بلا لیا، وہ کم و بیش چار گھنٹے ہمارے پاس رہے، دونوں کا موقف سنا گیا، زیادہ تر غلط فہمیاں تھیں، ہم نے شرعی ہدایات کے مطابق انہیں سمجھا بجھا کر باہمی مصالحت کرادی اور دونوں راضی خوشی اپنے گھر واپس چلے گئے ہیں۔
امریکی معاشرہ میں اس بات کی اہمیت کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو یہاں کی معاشرت سے براہ راست واقف ہیں، مولانا حافظ محمد اعجاز اور مولانا مفتی محمد نعمان سے ’’شریعہ بورڈ ‘‘کے بارے میں معلومات حاصل کر کے جو خوشی مجھے حاصل ہوئی اس کے اظہار کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں اور اس بات نے خوشی میں اور زیادہ اضافہ کر دیا ہے کہ اس میں نصرۃ العلوم کا بھی حصہ ہے، اللہ تعالیٰ ان حضرات کو نظر بد سے بچائیں اور اپنے نیک مقاصد میں کامیابی کے ساتھ پیشرفت کرتے رہنے کی توفیق دیں، آمین۔ نیویارک کے شریعہ بورڈ کی رجسٹریشن کا مرحلہ ابھی باقی ہے جس کے لیے درخواست دے دی گئی ہے، خدا کرے کہ کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے اور شکاگو کی طرح نیویارک کا شریعہ بورڈ بھی باقاعدہ رجسٹریشن کے ساتھ کام کو آگے بڑھا سکے، آمین ثم آمین۔
البتہ نیویارک سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’اردو ٹائمز‘‘ میں ۱۵ ستمبر کو شائع ہونے والی اس خبر نے اس حوالہ سے پریشانی کی صورت پیدا کر دی ہے کہ کینیڈا کی حکومت نے مسلمانوں کو شرعی قوانین کے سلسلہ میں یہ سہولت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ:
’’کینیڈا حکومت نے مسلمانوں کے فیملی شرعی قوانین پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے خلاف کئی شہروں میں مسلمانوں نے مظاہرے کیے ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے رونٹاریو صوبے میں مسلمانوں پر شرعی قوانین پر عمل جن میں طلاق اور لاوارث بچوں کو گود میں لینا بھی شامل ہے، پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکام کے مطابق یہ اسلامی قوانین خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور کینیڈا میں حکومت اپنے آئین کے تحت خواتین کے حقوق کی حفاظت کی پابند ہے۔ احتجاجی مظاہرین کی کمیٹی کی کوارڈینیٹر ہما ارجمند کے مطابق اسلامی قوانین میں مرد اور خواتین ایک جیسے نہیں اور بنیادی دینی قوانین میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی ۔‘‘
خبر میں طلاق اور کسی بچے کو گود میں لینے کے معاملات کا بطور مثال حوالہ دیا گیا ہے جس کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ:
- اسلام میں طلاق کا براہ راست حق صرف خاوند کو ہے، جبکہ عورت براہ راست طلاق نہیں دے سکتی البتہ عدالت یا پنچائیت کے ذریعے خلع کی صورت میں طلاق لینے کا حق اسے حاصل ہے۔ اسے مغربی قوانین اور انسانی حقوق کی عالمی چارٹر کی رو سے مرد اور عورت کی مساوات کے منافی قرار دیا جاتا ہے اور عورت کی حق تلفی تصور کیا جاتا ہے۔
- اسی طرح کسی بچے کو گود میں لینے سے اس کا نسب اسلامی قوانین کی رو سے گود میں لینے والے باپ سے ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی گود میں لیا ہوا بچہ اپنے پرورش کرنے والوں کا وارث بنتا ہے، جبکہ مغرب میں نسب اور وراثت کا استحقاق دونوں تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اسلام کے عائلی قوانین اور مغرب کے خاندانی قوانین کے درمیان اس نوعیت کے بہت سے دیگر تضادات بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے اسلامی احکام و قوانین کو انسانی حقوق کے عالمی معیار کے منافی قرار دیا جاتا ہے اور اسی حوالہ سے کینیڈا کی حکومت مسلمانوں کو ان کے شرعی قوانین پر عمل سے روکنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
امریکہ اور کینیڈا دونوں پڑوسی ملک ہیں اور دونوں شمالی امریکہ کا حصہ ہیں، اس لیے پالیسیوں کے حوالہ سے ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ اس وقت کینیڈا میں بھی دستوری طور پر وہ گنجائش موجود ہے جس کا تذکرہ امریکی دستور کے حوالہ سے سطور بالا میں ہو چکا ہے اس لیے کینیڈا کی حکومت کو مذہبی ثالثی کے قانونی تحفظ کو ختم کرنے کے لیے نئی قانون سازی کرنا ہوگی، اور اگر کینیڈا نے قانون سازی کرکے مسلمانوں کے اس حق کو ختم کرنے کا راستہ اختیار کیا تو امریکہ میں مسلمانوں کو حاصل یہ سہولت بھی سوالیہ نشان بن سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کسی نئی آزمائش سے محفوظ رکھیں، آمین یا رب العالمین۔