لندن میں برطانیہ کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر کے پروگرام کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے اور لندن کی نیو ہیم کونسل نے کہا ہے کہ مسجد کی انتظامیہ نے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقررہ مدت کے اندر منصوبے کا ماسٹر پلان جمع نہیں کرایا اور یہ مدت گزشتہ ماہ ختم ہو گئی ہے، جبکہ روزنامہ پاکستان لاہور ۱۹ جنوری ۲۰۱۰ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق علاقہ کے اڑتالیس ہزار افراد نے مسجد کی تعمیر روکنے کے لیے متعلقہ محکموں میں درخواست جمع کرا رکھی ہے۔
یہ مسجد مشرقی لندن میں اولمپک پارک کے قریب تعمیر کرنے کا پروگرام ہے، اس علاقہ میں ۲۰۱۲ء کے دوران اولمپک کھیلوں کے انعقاد کی تیاریاں جاری ہیں جس کے لیے مختلف بلڈنگیں، سڑکیں اور پارکیں تعمیر ہو رہی ہیں، جبکہ یہ مسجد لندن میں تبلیغی جماعت کے مرکز کے طور پر تعمیر کی جا رہی ہے اور کئی سالوں سے عارضی انتظام کے تحت اس جگہ میں مسجد اور تبلیغی مرکز کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ راقم الحروف کو کئی بار اس مسجد میں حاضری اور نماز ادا کرنے کا موقع ملا ہے اور اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اگر منصوبہ کے مطابق تعمیر ہو جائے تو یہ برطانیہ بلکہ یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہو گی اور اس کے ہال میں بارہ ہزار کے قریب افراد بیک وقت نماز ادا کر سکیں گے۔ ایک عرصہ سے یہ خبریں سننے میں آرہی تھیں کہ اولمپک کھیلوں کے ۲۰۱۲ء میں انعقاد کے پروگرام کی وجہ سے برطانوی حکومت اس جگہ پر مسجد کی تعمیر کو پسند نہیں کرتی اور ویسے بھی لندن میں اتنی بڑی مسجد آسانی سے ہضم ہونے والی چیز نہیں ہے، جس کی عملی صورت ہزاروں افراد کی منفی درخواستوں اور نیو ہیم کونسل کے فیصلے کی صورت میں سامنے آگئی ہے۔
اس سے قبل آکسفورڈ میں تعمیر ہونے والی ایک بڑی مسجد بھی اسی قسم کے حالات کا شکار چلی آرہی ہے جو ’’آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز‘‘ کے سنٹر کے طور پر سلطان آف برونائی کے تعاون سے تعمیر کی جا رہی ہے۔ آکسفورڈ اسلامک سنٹر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ کی سر پرستی میں معروف محقق پروفیسر ڈاکٹر خلیق احمد نظامیؒ کے فرزند ڈاکٹر فرحان احمد نظامی کی کوششوں سے قائم ہوا تھا اور راقم الحروف اس مرکز میں بھی متعدد بار حاضری دے چکا ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سنٹر اور اس کے ساتھ یہ بڑی مسجد اگر منصوبہ کے مطابق تعمیر ہو گئی تو اس سے آکسفورڈ کا فضائی تناظر اس مسجد کے بلند و بالا میناروں کی وجہ سے اسلامی نظر آنے لگے گا اس لیے بہت سے حضرات اس کی تعمیر کو پسند نہیں کرتے اور اس کے ماسٹر پلان کی منظوری میں رکاوٹیں سامنے آرہی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی سویٹزرلینڈ میں مسجد کے میناروں پر پابندی کا مسئلہ بھی کافی دنوں سے اخباری خبروں کا اہم موضوع ہے اور دنیائے اسلام میں اس پابندی پر مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اس طرح مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی مذہبی سرگرمیاں اور مساجد و مدارس کی تعمیر رفتہ رفتہ ایک حساس مسئلہ کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
مغرب کے مسیحی دانشوروں کو یہ توقع تھی کہ مختلف ممالک سے آنے والے لاکھوں مسلمان رفتہ رفتہ مغربی معاشرہ کے رنگ میں رنگے جائیں گے اور ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں کھڑا ہو گا۔ کم و بیش ربع صدی قبل میں نے ایک دوست سے لندن میں سوال کیا تھا کہ برطانیہ میں چرچ مسلسل فروخت ہو کر مسجدوں میں تبدیل ہو رہے ہیں کیا اس کے بارے میں مذہبی مسیحی راہنماؤں کو کوئی تشویش نہیں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ان کی اس سلسلہ میں ایک مسیحی مذہبی راہنما سے بات ہوئی ہے، ان کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی تشویش نہیں ہے اس لیے کہ جو مسلمان یہاں آکر یہ مسجدیں بنا رہے ہیں ان کی اگلی نسل لبرل ہو گی اور اس سے اگلی نسل مذہب سے بالکل بے بیگانہ ہو گی اور یہ مسجدیں بھی بالآخر اسی طرح فروخت ہوں گی جس طرح چرچ فروخت ہو رہے ہیں۔ مگر مغربی دانشوروں کی یہ سوچ درست ثابت نہیں ہوئی اس لیے کہ وہاں جا کر آباد ہونے والے مسلمانوں کی نئی نسل زیادہ مذہبی سوچ اور جذبہ رکھتی ہے اور مساجد و مدارس پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں نہ صرف یہ کہ قائم ہو رہے ہیں بلکہ ان کی رونق اور آبادی میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے مغربی دانشوروں بالخصوص مذہبی راہنماؤں کی تشویش بڑھنے لگی ہے۔
مغربی سوسائٹی کے دانشوروں اور منصوبہ سازوں کی الجھن یہ ہے کہ مسیحی مذہب میں اتنی جان نہیں ہے کہ وہ سوسائٹی اور معاشرے میں کوئی کردار ادا کر سکے اس لیے عام لوگوں کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور مذہبی مراکز ویرانی کا شکار ہیں بلکہ فروخت ہو رہے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس اسلام بحمد اللہ تعالیٰ آج بھی ایک زندہ مذہب کے طور پر معاشرتی کر دار ادا کر رہا ہے اور اس کی یہ خصوصیت ہے کہ غیر مسلم اکثریت کے ممالک میں مقابلہ کی فضا کی وجہ سے اس کی کارکردگی اور اثرات میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کا اب ساری دنیا کھلے بندوں مشاہدہ کر رہی ہے اور نائن الیون کے سانحہ کے بعد یہ منظر اور زیادہ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے اور اس کا اعجاز ہے جو عالم اسلام کی تمام تر کمزوریوں اور مسلمانوں کی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود اپنا جادو جگا رہا ہے اور اس میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہم اپنے دین و ایمان پر استقامت کا مظاہرہ کریں اور اسلام کے اس اعجاز کو حکمت، دانش اور حوصلہ کے ساتھ دنیا بھر میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کا ذریعہ بنائیں۔
جہاں تک مساجد کی تعمیر پر پابندی یا سویٹزرلینڈ جیسے ملکوں میں مساجد کے میناروں کی تعمیر کی ممانعت کا مسئلہ ہے یہ مغرب کے ان دانشوروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو دنیا بھر میں مذہبی روا داری کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں اور مسلم ممالک میں مقیم غیر مسلم اقلیتوں کو برابر کے حقوق دلوانے کے نام پر مسلسل مصروف عمل رہتے ہیں، مگر خود اپنے ہاں ان کی رواداری کا یہ حال ہے کہ مسلمانوں کو اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر کے جائز حق دینے اور ان کے مذہبی شعائر اور علامات کے اظہار کے حوالہ سے ان کی ساری رواداری، اصول پرستی اور انسانی حقوق کا تصور و فلسفہ مذہبی عصبیت کی دھند میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ مگر تا بکے؟ اسلام تو آنے والے دور کی ایک واضح حقیقت ہے اس کو چھپانے یا اس کا راستہ روکنے کی کوئی کوشش آخر کب تک خود کو قائم رکھ سکے گی؟