سوال و جواب

   
جولائی ۲۰۲۴ء

بزرگوں کے تفردات

سوال: بزرگوں کے تفردات کا ذکر ہوتا ہے تو اس بارے میں ہمارا کیا طرزِ عمل ہونا چاہیے؟ (حافظ دانیال عمر، گوجرانوالہ ۔ ۸ جون ۲۰۲۴ء)

جواب: تفرد یعنی کسی علمی مسئلہ پر انفرادی رائے ہر صاحبِ علم اور صاحبِ مطالعہ و تحقیق کا حق ہوتا ہے اور یہ فطری بات ہے۔ اکابر اہلِ علم کے تفردات کو صرف شمار ہی کیا جائے تو اس سے ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ مگر اپنی انفرادی رائے کو حتمی قرار دینا اور جمہور اہلِ علم کے علی الرغم اس پر اصرار کر کے دوسروں کو غلط قرار دینا درست طریقہ نہیں ہے۔ میں بھی ایک طالب علم کے طور پر بہت سے مسائل پر اپنی انفرادی رائے رکھتا ہوں، اس کا اظہار کرتا ہوں اور ضرورت پڑنے پر بحث و مباحثہ بھی کرتا ہوں۔ مگر اسے صرف ایک رائے سمجھتا ہوں، کبھی کسی پر اصرار نہیں کیا اور نہ ہی اسے حق کا معیار قرار دیا ہے۔ بلکہ کسی مسئلہ پر عمل کرنے کی بات ہوتی ہے تو عمل جمہور کی رائے پر کرتا ہوں یا کسی معتمد علمی مرکز مثلاً جامعہ دارالعلوم کراچی سے رجوع کرتا ہوں اور وہاں سے جو موقف آتا ہے میری رائے اس سے مختلف ہو تب بھی عمل اسی پر کرتا ہوں، اور بحمد اللہ تعالیٰ اسے ہی صواب اور باعثِ ثواب سمجھتا ہوں۔

’’مدرز مِلک بینک‘‘ اور رشتوں کا شرعی دائرہ

سوال: کراچی میں ماؤں کے دودھ کا بینک قائم ہوا ہے جس کے افتتاح کی خبر اور فوٹو شائع ہوئی ہے۔ اسلامی حوالے سے یہ کیسا اقدام ہے؟ (۱۵ جون ۲۰۲۴ء)

جواب: قرآن کریم نے ’’وامہاتکم اللٰتی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ‘‘ (النساء ۲۳) کے تحت دودھ پلانے والی ماں اور ماں کے دودھ میں شریک بہن کے ساتھ نکاح کو حرام قرار دیا ہے۔ جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر میاں بیوی کو ایک خاتون کا دودھ پینے کی وجہ سے بھائی بہن قرار دے کر نکاح ختم کر دیا تھا۔

یہ سلسلہ کہ دودھ بینک میں عورتیں اپنا دودھ جمع کرائیں گی اور وہ نومولود بچوں کو پلایا جائے گا، رشتوں کے شرعی نظام کو سبوتاژ کرنے کی کاروائی ہے، اس طرح یہ پتہ نہیں چلے گا کہ دودھ پینے کے باعث کون کس کا بیٹا ہے اور کون کس کی بہن ہے۔ دینی حلقوں اور علمی مراکز کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور بالخصوص وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اس کے سدباب کے لیے مؤثر قدم اٹھانا چاہیے۔

قادیانیوں کے بارے میں ایک جج صاحب کا متنازعہ فیصلہ

استفسار: ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کا ایک فیصلہ دینی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں جج صاحب نے قادیانیوں کو مسلمانوں کے ایک فرقہ کے طور پر لکھ دیا ہے۔ اس بارے میں آپ کا نقطۂ نظر معلوم کرنا تھا۔ (حافظ خرم شہزاد ۔ ۲۰ جون ۲۰۲۴ء)

جواب: اگر فیصلہ میں یہی لکھا گیا ہے تو اس کی تین وجوہ ہو سکتی ہیں:

ایک یہ کہ خدانخواستہ حج صاحب کا اپنا خیال یہی ہو جس کا انہوں نے فیصلہ میں اظہار کر دیا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ سرے سے اس مسئلہ کی اہمیت، حساسیت اور نزاکتوں سے بے خبر ہیں۔ اور اس کا امکان غالب ہے اس لیے کہ وکیل اور جج بننے کے لیے جو تعلیمی نصاب پڑھنا ضروری ہے اس میں اسلامی شریعت ، دستور پاکستان کے اسلامی تقاضوں اور دفعات اور پاکستانی عوام اور دینی حلقوں کے موقف و جذبات سے واقفیت کا کوئی باضابطہ نظم موجود نہیں ہے جس کے باعث اکثر حج صاحبان ان معاملات سے بے خبر اور لاتعلق رہتے ہیں۔

جبکہ تیسری وجہ یہ بھی موجود ہے کہ ان عالمی اداروں، لابیوں اور این جی اوز کے کارندے ہماری عدلیہ، انتظامیہ اور دیگر قومی اداروں میں ہر سطح پر مختلف مناصب پر موجود اور متحرک ہیں جو کوئی بھی موقع ملنے پر اس قسم کی حرکت کر گزرتے ہیں۔ اتھارٹیز کا کام تو زیادہ تر دستخط کرنا ہی رہ گیا ہے۔

اس صورتحال میں ختم نبوت پر کام کرنے والوں کو اگر باہمی طعن و تشنیع کا بازار گرم رکھنے سے فرصت ملے تو ان سارے پہلوؤں پر سنجیدہ توجہ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جبکہ عالمی اداروں میں اس قسم کے مسائل پر ہونے والے بحث و مباحثہ اور لابنگ کے ماحول تک رسائی اور اس میں کوئی کردار ادا کرنا تو سرے سے ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ہے۔

قادیانیوں کا مسلمان ہونے کا دعویٰ

سوال: ایک شخصیت کے یہ ریمارکس سامنے آئے ہیں کہ جب قادیانی خود کو مسلمان کہتے ہیں تو کسی اور کو انہیں غیر مسلم کہنے کا کیاحق ہے؟

جواب: قرآن کریم نے ان لوگوں کے بارے میں صاف طور پر ’’وماھم بمومنین‘‘ فرمایا ہے جو یہ کہتے تھے کہ

ہم اللہ پر ایمان لائے،

آخرت پر ایمان لائے،

اور ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔

قرآن کریم نے صرف ان کے مسلمان ہونے کی نفی نہیں کی بلکہ ان کا جنازہ پڑھنے سے روک دیا، ان کی بنائی ہوئی مسجد گرا دی اور غزوہ تبوک کے بعد ان کی کسی جہاد میں شرکت کو بھی ممنوع قرار دے دیا۔ اس لئے صرف خود کو مسلمان کہنا کافی نہیں ہے ایسے لوگ اگر مسلمان ہونے کے مسلمہ تقاضے پورے نہیں کرتے تو موقع محل کے مطابق انہیں اسلام کے نام پر کسی اسلامی عمل سے روک دینا بھی احکام قرآنی کا تقاضہ بنتا ہے۔

مسلمان مشتعل کیوں ہوتے ہیں؟

سوال: سوشل میڈیا پر اسلام مخالف ایک بات کہتے ہیں کہ مسلمان اتنے مشتعل کیوں ہوتے ہیں کوئی اعتراض کرے تو آرام سے کیوں جواب نہیں دیتے؟

جواب: میں عرض کیا کرتا ہوں کہ جواب دلیل اور منطق کا ہوتا ہے گالی کا نہیں اور کوئی شخص بھی گالیوں کے جواب میں دلائل پیش نہیں کیا کرتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغرب کے جن دانشوروں نے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دلیل سے بات کی ہے ان کا جواب دلیل سے دیا گیا ہے، کتاب کے جواب میں کتاب لکھی گئی اور مقالے کے جواب میں مقالہ پیش کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں بات استہزا، تحقیر اور توہین کی ہو وہاں دلیل کا کوئی کام باقی نہیں رہ جاتا۔ میں اس سلسلہ میں جنوبی ایشیا کی صورتحال کا حوالہ دیا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں ہندو مصنفین میں سے پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ میں اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی کریمؐ پر سینکڑوں اعتراضات کیے جو اس کتاب میں اب بھی موجود ہیں۔ لیکن بات مباحثے کے انداز میں کی اور دلیل کا اسلوب اختیار کیا تو اس کے خلاف مسلمانوں نے کبھی جلوس نہیں نکالا اور اس کو مارنے کے درپے نہیں ہوئے بلکہ دلیل کا جواب دلیل سے دیا۔ اس سلسلہ میں تفصیل حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے رسائل اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری کی باقاعدہ جواب تصنیف ’’حق پرکاش‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جبکہ اسی معاشرے میں ایک ہندو مصنف راج پال نے دلیل کے بجائے گستاخی کا لہجہ اختیار کیا اور ’’رنگیلا رسول‘‘ نامی کتاب لکھ کر مسلمانوں کے ایمان اور غیرت کو للکارا تو اس کے جواب میں دلیل کا کوئی کردار باقی نہیں رہا تھا۔ اس کے جواب میں غازی علم الدین شہید نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اس شاتم رسول کو ٹھکانے لگا دیا۔ مسلمانوں نے اپنے اس موقف کی ہمیشہ دوٹوک وضاحت کی ہے کہ استدلال، منطق اور تحقیق کا میدان اور ہے جبکہ طنز، استہزا، توہین اور تحقیر کا دائرہ اس سے مختلف ہے جسے کسی صورت میں بھی آزادیٔ رائے کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا، مگر مغرب ان دونوں میں فرق نہیں کر رہا۔

   
2016ء سے
Flag Counter