اے پی پی کے حوالہ سے ’’پاکستان‘‘ میں ۶ اگست کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق لندن کے علاقے ورسسٹر شائر کے ایک مڈل سکول نے ۹ سال تک کی عمر کی طالبات پر اسکرٹ پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق واک ورڈ چرچ آف انگلینڈ مڈل سکول کا موقف ہے کہ طالبات نے بہت ہی چھوٹے اسکرٹ پہننا شروع کر دیے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے مجبوری میں پابندی لگائی ہے۔ سکول انتظامیہ نے طالبات سے کہا ہے کہ وہ ستمبر سے ٹراؤزر اور واجبی سا بلاؤز پہننے کی بجائے یونیفارم کا ٹاپ زیب تن کریں، لیکن طالبات کے والدین نے اس پابندی پر تنقید کی ہے، ان کے خیال میں اس پابندی سے ان کی لڑکیاں ابہام کا شکار ہوں گی۔ لندن میں اب تک ۶۳ سکولوں میں اسکرٹ پہننے پر پابندی لگائی جا چکی ہے جن میں زیادہ تر سیکنڈری سکول ہیں۔
لباس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے زینت کے ساتھ ساتھ ستر پوشی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر لباس کے چار مقاصد بیان کیے گئے ہیں ’’لباس زینت اور ستر پوشی کا ذریعہ ہے‘‘ (سورۃ الاعراف ۲۶)، ’’لباس گرمی سے بچاؤ اور حملہ سے تحفظ کا ذریعہ ہے‘‘ (سورۃ النحل ۸۱)۔ اس لیے ستر پوشی لباس کے بنیادی مقاصد میں سے ہے بلکہ سورۃ الاعراف کی آیت ۲۷ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو خبردار کیا ہے کہ شیطان نے جس طرح تمہارے ماں باپ یعنی حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو بے لباس کر کے جنت سے نکالا تھا، اسی طرح وہ تمہیں بھی بے لباس کر کے فتنے میں ڈالے گا اور جنت میں جانے سے روکے گا۔ جبکہ اس کی تفصیل بھی سورۃ الاعراف کی آیت ۲۰ تا ۲۲ میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جب حضرت آدم و حوا علیہما السلام نے شجر ممنوعہ کا پھل چکھا تو ان کا جنت کا لباس اتر گیا اور وہ اپنا ستر چھپانے کے لیے بے ساختہ درخت کے پتوں سے ستر پوشی کرنے لگے۔ قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ستر پوشی‘‘ انسان کی فطرت سلیم کا حصہ ہے کیونکہ نسل انسانی کے پہلے جوڑے نے اچانک ستر کھل جانے پر بے ساختہ درخت کے پتوں کی طرف رخ کیا تھا تاکہ وہ اپنا ستر ڈھانپ سکیں اور اللہ تعالیٰ نے بے لباسی کو شیطان کا ایک ہتھکنڈہ قرار دیا ہے جس کے ذریعے وہ انسانوں کو فتنوں میں ڈالتا اور گمراہ کرتا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد ارشادات گرامی میں لباس کی اہمیت اور اس کے مقاصد کی طرف توجہ دلائی ہے اور لباس کے حوالہ سے مسلمانوں کو واضح ہدایات دی ہیں جو نہ صرف اسلامی معاشرت اور ثقافت کی بنیاد ہیں بلکہ انسانی فطرت اور نیچر کی بھی نشاندہی کرتی ہیں۔ ان میں سے چند ارشادات نبویؐ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
- مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لباس کی ایسی کیفیت سے منع فرمایا ہے جو ’’کاشفا عن فرجہ‘‘ شرم گاہ کے عریاں ہو جانے کا احتمال رکھتی ہو۔ اس حدیث میں احتباء کا ذکر ہے کہ بعض لوگ ایک ہی چادر میں جسم کو لپیٹ لیتے تھے جس سے اٹھنے بیٹھنے یا ہوا کا سامنا کرنے سے بے ستر ہونے کا خطرہ ہوتا تھا، اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرما دیا۔
- ابوداؤد شریف کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلقین فرمائی کہ جب لڑکی بالغ ہو جائے تو اس کا چہرہ اور بازو وغیرہ نظر نہیں آنے چاہئیں۔
- حضرت دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک قبطی چادر دی اور فرمایا کہ اس کے دو حصے کر کے ایک خود استعمال کرو اور دوسرا اپنی بیوی کو دے دو۔ ابوداؤد شریف کی روایت کے مطابق چادر باریک ہوجانے کی وجہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ اپنی بیوی سے کہہ دو کہ وہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا بھی لگائے تاکہ اس کا جسم نظر نہ آئے۔
- مسند احمدؒ کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا لباس پہننے سے منع فرمایا ہے جو شہرت کا باعث ہو یعنی اس لباس کا خواہ مخواہ لوگوں میں تذکرہ ہونے لگے۔
- نسائی شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا لباس مت پہنو جس میں فضول خرچی ہو یا تکبر اور بڑائی کا اظہار ہو۔
- ترمذی شریف میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سونے اور ریشم کا استعمال میری امت کی عورتوں کے لیے حلال کیا گیا ہے اور مردوں کے لیے حرام کر دیا گیا ہے۔
- ابوداؤد شریف کی روایت کے مطابق حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کا لباس پہننے والی عورتوں اور عورتوں جیسا لباس پہننے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اور مرد کے لباس میں فرق کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
- مسند احمدؒ کی روایت کے مطابق حضرت مالک بن فضلہؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو میں نے معمولی سا لباس پہن رکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے پاس اتنی رقم نہیں کہ کوئی اچھا لباس پہن سکو؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں تو بڑی حیثیت والا شخص ہوں اور میرے پاس تو اتنے اونٹ اور بکریاں ہیں۔ اس پر جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’فلیرٰی اثر نعمت اللّٰہ علیک‘‘ تجھ پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اثرات نظر آنے چاہئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو لباس اپنی حیثیت کے مطابق پہننا چاہیے البتہ اس میں شوخ پن، زنانہ پن، فضول خرچی، شہرت اور دکھاوا نہیں ہونا چاہیے۔
- مؤطا امام مالکؒ کی روایت کے مطابق حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا جس کے بال پراگندہ تھے اور داڑھی بکھری ہوئی تھی۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اشارے سے پاس بلایا اور بال اور داڑھی سنوارنے کی تلقین فرمائی۔ وہ اس حکم کی تعمیل کر کے واپس چلا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں سے فرمایا کہ یہ شخص اس طرح اچھا لگتا ہے یا اس کیفیت میں کہ اس کے بال شیطان کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔
لباس کے بارے میں قرآن و سنت کی یہ فطری تعلیمات ایک باوقار اور متوازن انسانی معاشرت کی حقیقی بنیادیں ہیں لیکن مغرب نے اس حوالہ سے گزشتہ دو صدیوں سے جو طرز عمل اختیار کر رکھا ہے وہ قرآن کریم کی مذکورہ پیش گوئی کے مطابق فتنوں کے مسلسل پھیلاؤ کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف عورت کی شرم و حیا مغربی معاشرہ میں قصہ پارینہ بن کر رہ گئی ہے بلکہ مرد اور عورت کا امتیاز بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں لطیفہ کی ایک بات ہے کہ ایک موقع پر میں نے لندن کے کسی بازار میں جاتے ہوئے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ یار جانے والوں کو اگر سامنے سے نہ دیکھا جائے تو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ جا رہا ہے یا جا رہی ہے۔ اس نے فورًا کہا کہ کیوں نہیں پتہ چلتا، صاف معلوم ہو جاتا ہے، اگر اس نے پتلون وغیرہ پہن رکھی ہے تو جا رہا ہے اور نہیں پہن رکھی تو جا رہی ہے۔ یہ اگرچہ لطیفے کے انداز کی بات ہے لیکن حقیقت سے خالی نہیں ہے۔
عورت کے لباس کو مختصر سے مختصر ترین کرتے چلے جانے کی دوڑ میں مغرب اس حد تک آگے جا چکا ہے کہ اب خود اس کو یہ بے لباسی یا کم لباسی محسوس ہونے لگی ہے۔ جس کا اظہار لندن کے ۶۳ کے لگ بھگ سیکنڈری سکولوں میں لڑکیوں کو اسکرٹ کی بجائے پورا لباس پہننے کی اس ہدایت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اور یہ بھی ان علامتوں میں سے ایک ہے جو انسان کی اصل فطرت کی طرف لوٹنے کی خواہش کے سلیم الفطرت لوگوں کے دلوں میں مچلنے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مغربی دنیا میں اسلام قبول کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے جو مغرب کے غیر فطری معاشرتی ماحول سے تنگ آکر حقیقی عزت و وقار اور حیا و ستر کے حصول کے لیے اسلام کے دامن میں پناہ لے رہی ہیں۔ یہ آج کے دور میں قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا اظہار و اعجاز ہے۔