پاکستان شریعت کونسل ضلع گوجرانوالہ کے زیراہتمام ایک تعزیتی نشست سے گفتگو کا خلاصہ۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ ماضی کو یاد رکھنا اور بزرگوں کو یاد کرنا یہ تو قرآن کریم کا حکم بھی ہے اور اسلوب بھی۔ قرآن کریم نے حکم دیا ’’ذکرھم بایام اللہ‘‘ کہ گزرے ہوئے دنوں کو یاد کر کے لوگوں کو نصیحت کریں۔ یعنی پچھلے دنوں میں اچھے لوگوں نے کیا کیا تھا، برے لوگوں نے کیا کیا تھا، اچھے کاموں کا انجام کیا ہوا تھا، برے کاموں کا نتیجہ کیا ہوا تھا۔ پچھلے زمانوں اور لوگوں کو یاد کریں اور اس کے ساتھ نصیحت کریں، سبق حاصل کریں۔ یہ قرآن کریم کا حکم ہے، لیکن دن منانا ہماری روایات کا حصہ نہیں ہے۔ آج ہم اپنے دو محترم بزرگوں کی وفات پر تعزیت کے لیے، دعا کے لیے اور اپنے جذبات کے اظہار کے لیے جمع ہیں۔ بزرگوں کا تذکرہ آپ حضرات پڑھتے رہتے ہیں لیکن کچھ تعارف آج کی اس نشست میں ہو جائے۔
مولانا قاری عبد الحلیمؒ
حضرت مولانا قاری عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے پرانے بزرگوں میں سے تھے، ان کا تعلق سوات سے ہے، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فاضل تھے جبکہ تجوید انہوں نے لاہور میں پڑھی، عالم بھی بڑے تھے، قاری بھی بڑے تھے، استاذ القراء تھے۔ گکھڑ میں پہلے حفظ کی کلاس چلتی رہی، میں نے بھی حفظ کیا، حفظ کی کلاس کے ہمارے بڑے استاد محترم حضرت قاری محمد انور صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے مدینہ منورہ میں تقریبا تیس پینتیس سال پڑھایا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ پھر ۱۹۶۴ء میں تجوید کی کلاس کا آغاز ہوا۔ تجوید کے استاد کے طور پر حضرت مولانا قاری عبد الحلیم صاحبؒ گکھڑ تشریف لائے اور کافی عرصہ یہاں پڑھاتے رہے ہیں، ان کے سینکڑوں شاگرد ہیں جنہوں نے ان سے تجوید پڑھی ہے، میں نے خود حضرت قاری صاحبؒ سے تقریبا دو مہینے مشق کی ہے، میرے استاد محترم تھے، بڑے شفیق استاد تھے۔
میرے اکثر بھائی (مولانا حافظ قاری عبد القدوس قارن، مولانا حافظ قاری رشید الحق عابد، مولانا قاری حماد الزہراوی، قاری محمد اشرف خان ماجد مرحوم، مولانا حافظ عبد الحق خان بشیر، ہمشیرہ محترمہ ام قاری ابوبکر صدیق جہلم) ان کے شاگردوں میں سے ہیں، انہوں نے ان سے تجوید پڑھی اور مشق کی ہے۔
حضرت مولانا قاری عبد الحلیم صاحبؒ بڑے با ذوق بزرگ تھے۔ پھر یہ بحرین چلے گئے تھے، زندگی کا بڑا حصہ بحرین میں گذارا، وہاں بھی تجوید کے بڑے استاد شمار ہوتے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے ہمارے بھائی مولانا قاری محمد طیب بحرین کے بڑے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اللہ کی قدرت کہ بڑی دفعہ عرب امارات جانا ہوا مگر بحرین کا سفر اللہ کو منظور نہیں تھا، اور حضرت بھی دوبارہ گکھڑ تشریف نہ لائے، اس طرح دوبارہ ملاقات نہ ہو سکی۔ ویسے ان سے تعلق آخری وقت تک قائم رہا اور دعاؤں کا ، شفقت کا ،نیازی مندی کا ہمارا تعلق چلا آرہا ہے ۔ حضرت مولانا قاری عبد الحلیمؒ کچھ عرصہ سے بیمار تھے ان کا انتقال ہو گیا ہے اور وہیں بحرین میں ان کی تدفین ہوئی ۔
قاری صاحب کے سینکڑوں شاگردوں کی صورت میں پاکستان اور عرب ممالک میں بہت بڑی تعداد صدقہ جاریہ کی صورت میں موجود ہے۔ اللہ تبارک و تعالی حضرت قاری صاحب کے درجات بلند فرمائے۔
مولانا ظفر احمد قاسمؒ
ہمارے دوسرے بڑے بزرگ مولانا ظفر احمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ سے میرا تعارف شیرانوالہ لاہور کی وجہ سے تھا۔ حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز میرے شیخ تھے۔ شیرانوالہ میں ہمارا آنا جانا تھا۔ یہ سن ۱۹۷۰ء کے دور کی بات ہے۔ ان کا تعلق بھی جمعیۃ علماء اسلام سے تھا، اور میرا تعلق بھی ہمیشہ جمعیۃ علماء اسلام سے چلا آرہا ہے۔ ان کے دو ذوق بڑے خاص تھے جس کے لیے انہوں نے ساری زندگی محنت کی۔
ایک یہ کہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے حوالے سے ابتدائی کام جن لوگوں نے کیا تھا کہ دینی درس نظامی کے ساتھ عصری تعلیم کو پڑھائیں، جس کے لیے مشکلات کے ساتھ سامنا بھی بہت کرنا پڑا، ’’السابقون الا ولون‘‘ میں مولانا محمد طیب حنفی (بورے والے)، مولانا ظفر احمد قاسم وہاڑی کے، اور ہمارا شمار بھی انہی میں سے ہوتا ہے کہ ہم نے بھی اس زمانہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ ان لوگوں نے تمام تر مخالفتوں اور حوصلہ شکنی باوجود کہ درس نظامی کے ساتھ اپنے بچوں کو عصری تعلیم بھی (میڑک، ایف اے، بی اے) کروانا چاہیے، اس سلسلہ میں بڑی محنت کی۔ اب اس کو تسلیم کیا جا رہا ہے بلکہ لازمی بھی ہو گیا ہے۔ لیکن اس زمانے میں یہ مکروہات میں شمار ہوتا تھا۔ مولانا ظفر احمد قاسمؒ نے (ٹھینگی وہاڑی) میں جامعہ خالد بن ولیدؓ کی بنیاد رکھی۔
دوسرا ان کا ذوق تھا کہ کسی طریقے سے دیوبندی اکٹھے ہوں۔ یہ ان کا جنون تھا جس کے لیے انہوں نے ساری زندگی کوششیں کیں، مسلکی وحدت ان کا بڑا مشن تھا، میں بھی ان کے ساتھ بہت سے معاملات میں شامل رہا۔ مجھے یاد ہے کہ جب ’’کل جماعتی مجلس عمل‘‘ بنی حضرت سید عطاء المومن شاہ صاحبؒ کی کوششوں سے، اس وقت ان کے ساتھ بنیادی طور پر جو بزرگ کام کرنے والے تھے ان میں مولانا ظفر احمد قاسمؒ ان کے دست راست تھے اور زیادہ کام ان کا ہی تھا۔ اور پھر لاہور میں اجتماع ہوا جس میں حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کو صدر بنایا گیا اور اس کے کچھ اجلاس بھی مختلف شہروں میں ہوئے۔ سب سے اہم میٹنگ مولانا فضل الرحمن صاحب کے گھر میں ہوئی۔ اس کے پیچھے ایک جذبہ اور جنون تھا حضرت مولانا ظفر احمد قاسمؒ اور حضرت سید عطاء المومن شاہ صاحبؒ کا جنہوں نے پورے ملک میں محنت کر کے ایک ماحول بنایا تھا۔ میرا پچاس سالہ تجربہ ہے کہ ہمارا یہ مزاج بن گیا ہوا ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن پھر اکٹھے رہتے نہیں۔ اکٹھے ہونا مشکل کام نہیں ہے لیکن اکٹھے رہنا ہمارا اصل مسئلہ ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی سمجھ اور ذوق دے۔
ہمارے لیے جو یہ دو بزرگ انتقال فرما گئے ہیں، اصلاً تو ہم ان کے لیے دعا کی غرض سے جمع ہیں، اللہ تعالی ان کی خدمات کو اپنی بارہ گاہ میں قبول فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔