(ترجمہ قرآن کریم کی کلاس کے آغاز کے موقع پر اساتذہ اور طالبات سے خطاب کا خلاصہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یہ مدرسہ ہمارے محترم دوست اور بزرگ ساتھی حضرت مولانا حافظ مہر محمد صاحبؒ کی یادگار اور ان کا صدقہ جاریہ ہے۔ ہم جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کئی برس اکٹھے پڑھتے رہے ہیں، وہ مجھ سے سینئر تھے اور دو تین سال پہلے فارغ ہوئے تھے، البتہ ترجمہ قرآن کریم کی کلاس میں شریک رہے ہیں۔ فاضل اور محقق عالم تھے اور ہمارے ساتھ پاکستان شریعت کونسل کی تنظیم و تشکیل میں بھی شریک رہے ہیں۔ ان کے فرزند مولانا حافظ عمر فاروق اور دیگر اہلِ خاندان اور رفقاء کو اس گلشنِ علمی کی خدمت کرتے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر اور سعادت دارین سے نوازیں، آمین یا رب العالمین
آج طالبات میں ترجمہ قرآن کریم کا آغاز ہے اور مجھے کہا گیا ہے کہ اس حوالہ سے بچیوں کے سامنے کچھ باتیں عرض کروں، جو میرے لیے سعادت کی بات ہے، اور میں قرآن کریم، حدیث و سنت اور فقہ و شریعت کے علوم میں عورتوں کے حصہ اور کردار کے بارے میں دو تین واقعات بیان کرنا چاہوں گا جن سے اندازہ ہوگا کہ قرون اولٰی میں دینی علوم کے ساتھ عورتوں کے شغف اور دلچسپی کا کیا ماحول تھا۔
امام شافعیؒ کی والد محترمہ کے بارے میں ایک واقعہ غالباً امام سبکیؒ کی کتاب ’’طبقات الشافعیۃ الکبریٰ‘‘ کے حوالے سے کہیں پڑھا ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کے قاضی کے سامنے کسی مقدمہ کی گواہی کے سلسلہ میں پیش ہوئیں، اس مقدمہ میں ایک مرد اور دو عورتیں گواہ تھیں جن میں ایک حضرت امام شافعیؒ کی والدہ محترمہ تھیں۔ قاضی صاحب نے ایک خاتون سے گواہی سن کر ان سے کہا کہ وہ ذرا فاصلہ میں جا بیٹھیں تاکہ وہ دوسری خاتون سے الگ گواہی سن سکیں۔ غالباً ان کا مقصد یہ تھا کہ دونوں سے ایک دوسرے سے الگ گواہی لیں گے تو اگر کوئی فرق ہوا تو پتہ چل جائے گا۔ امام شافعیؒ کی والدہ محترمہ نے اس سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ہم دونوں اکٹھی گواہی دیں گی اور ایک دوسری کو گواہی کے دوران کوئی بات بتانے کی ہوئی تو بتائیں گی۔ اور کہا ان کا ایک دوسری سے الگ گواہی دینا قرآن کریم کی منشا کے خلاف ہے۔ قاضی صاحب نے دلیل پوچھی تو فرمایا کہ قرآن کریم جہاں ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی گواہی کا فرمایا ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ ”ان تضل احداھما فتذکر احداھما الاخرٰی“ اگر ایک بھول جائے تو دوسری یاد کرا دے۔ اس لیے ہم دونوں اکٹھے گواہی دیں گی اور ایک دوسری کو بتائیں گی۔ قاضی صاحبؒ نے ان کے اس استدلال کو تسلیم کیا اور ان سے الگ الگ گواہی لینے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے پہلے زمانوں میں عورتوں کا ’’قرآن فہمی‘‘ کا معیار کیا تھا۔
حدیث و سنت کے بارے میں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حکومتی سطح پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو جمع و مرتب کرنے کا حکم سب سے پہلے امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے دیا تھا۔ وہ زمانہ صحابہ کرامؓ کا آخری دور تھا اور تابعین کرامؒ کا دورِ عروج تھا۔ ہر علاقہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات و احادیث کے حلقے موجود تھے اور اہلِ علم ہر طرف علمی خدمات میں مصروف تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ضرورت محسوس کی کہ اس سارے کام کو محفوظ کیا جائے، جس کے لیے انہوں نے اپنے تمام گورنروں کو حکم جاری کیا کہ ان کے علاقہ میں جو اہلِ علم صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ میں سے موجود ہیں ان کی روایات کو جمع کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اس میں مدینہ منورہ کے گورنر کو خصوصی حکم یہ تھا کہ اپنے وقت کی عظیم خاتون محدثہ و فقیہہ حضرت عمرہ بنت عبد الرحمنؒ کے علوم و روایات کو محفوظ کرنے کا بطور خاص اہتمام کیا جائے۔ وہ حضرت اسعد بن زرارہؓ کی پوتی اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کی شاگردہ اور خادمہ تھیں، بلکہ انہیں علمی حلقوں میں حضرت عروہ بن الزبیرؓ اور حضرت قاسم بن محمدؒ کے ساتھ ام المومنین حضرت عائشہؓ کا جانشین بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرونِ اولیٰ میں حدیث کی روایت کے حوالہ سے عورتوں کے ذوق و محنت کی سطح کیا تھی اور ان کا علمی مقام و مرتبہ کیا تھا۔
فقہ میں عورتوں کی صلاحیت و ذہانت کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے، جو میں نے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب قاسمیؒ کے کسی خطبہ میں پڑھا ہے، کہ امت کی معروف فقہیہ جو فاطمہ فقہیہؒ کے نام سے معروف ہیں، ان کے والد بھی وقت کے بہت بڑے فقیہ اور مفتی تھے، اور بیٹی کو علومِ دینیہ بالخصوص حدیث و فقہ کی اس درجہ میں تعلیم دی کہ وہ فتویٰ نویسی میں اپنے باپ کے ساتھ شریک ہوگئیں، اور ایک دور ایسا بھی آیا کہ استفتاء پر فتویٰ فاطمہ لکھتی تھیں اور دونوں کے دستخطوں سے فتویٰ جاری ہوتا تھا۔
مگر عورت زیادہ پڑھ لکھ جائے تو رشتہ میں مشکلات بہرحال پیدا ہو جاتی ہیں، اس معیار کا رشتہ تلاش کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، اور اگر میاں بیوی کے علمی معیار میں زیادہ فرق ہو تو نباہ میں بھی مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ فاطمہ فقہیہؒ کے رشتہ میں بھی یہ صورتحال پیش آئی، کوئی مالدار اور دنیوی حیثیت کا رشتہ آتا تو فاطمہؒ کے لیے علمی معیار پر پورا نہ ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہوتا تھا، اور کوئی صاحبِ علم رشتہ کا طلبگار ہوتا تو مالی حالت کی کمزوری کی وجہ سے والد صاحبؒ اس کو قبول نہیں کرتے تھے۔ حتٰی کہ ایک شہزادہ کا رشتہ آیا جس پر والد صاحب تو راضی تھے مگر خاتون نے رضامندی کا اظہار نہ کیا۔ بالآخر باپ بیٹی میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ رشتہ کے طالب علماء کرام سے کہا جائے کہ وہ موجودہ دور کے تقاضوں کے سامنے رکھتے ہوئے فقہ حنفی کی کوئی کتاب لکھیں، جس کی کتاب زیادہ پسند آئے گی اس سے رشتہ کر لیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے اس شرط پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں جن میں سے امام کاسانی ؒ کی ’’بدائع الصنائع‘‘ بھی ہے، جو فقہ حنفی کی اہم کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ فاطمہ فقہیہؒ کو یہ کتاب سب سے اچھی لگی اور انہوں نے امام کاسانیؒ سے شادی کر لی۔
یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد اپنی بچیوں کو یہ حوصلہ دلانا ہے کہ قرآن کریم، حدیث و سنت، اور فقہ و شریعت کے مضامین ان کے لیے نئے اور انجانے نہیں بلکہ مسلم خواتین کی قدیم روایات کا حصہ ہیں اور ہر دور میں ان علوم کی تعلیم و تدریس اور فروغ میں عورتوں کا کردار نمایاں رہا ہے۔
ان گزارشات کے ساتھ مدرسہ توحید و سنت بن حافظ جی میانوالی کی طالبات، اساتذہ، منتظمین اور معاونین کو قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کی کلاس کے آغاز پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ان سب کو سعادت و برکات سے نوازیں اور دینی علم کی ترویج و اشاعت کے لیے مسلسل محنت کرتے رہنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین یا رب العالمین۔