جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی کے مہتمم مولانا مفتی محی الدین کا تعلق خوشاب کے علاقہ سے ہے۔ میرے پرانے اور بزرگ دوستوں میں سے ہیں اور ایک طویل عرصہ ہمارا جماعتی اور تحریکی رفاقت میں گزرا ہے۔ ان کے فرزند مولانا مفتی ابوذر محی الدین اور مولانا مفتی ابو ہریرہ محی الدین دیگر برادران اور رفقاء کے ساتھ اپنے والد بزرگوار کے تعلیمی اور فکری مشن کو حسن و خوبی کے ساتھ آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ جبکہ مولانا جمیل الرحمٰن فاروقی رفقاء کی پوری ٹیم کے ساتھ اس کام میں ان کے معاون اور دست و بازو ہیں۔
جامعہ اسلامیہ کے زیر اہتمام ”مجلس صوت الاسلام پاکستان“ کے نام سے ایک ادارہ قومی سطح پر متحرک ہے، جس کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے۔ اس کے ذیلی مراکز اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں قائم ہیں اور مختلف علمی و فکری شعبوں میں اس کا دائرہ کار بحمد اللہ تعالیٰ دن بدن پھیلتا جا رہا ہے۔
اس سال ”مجلس صوت الاسلام پاکستان“ نے دینی مدارس کے فضلاء کے لیے ”خطابت کورس“ کا اہتمام کیا ہے، جو آن لائن ہے۔ کراچی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ کے مراکز میں ہر اتوار اور پیر کو تین سے پانچ بجے تک باقاعدہ کلاسیں بیٹھتی ہیں، جن میں مجموعی طور پر اڑھائی سو کے لگ بھگ فضلاء کرام شریک ہیں۔ شرکاءِ کورس کو معقول وظیفہ دیا جاتا ہے اور مختلف اساتذہ ان سے آن لائن مخاطب ہو کر لیکچر دیتے ہیں۔ جن میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، جامعہ دارالعلوم کراچی کے مولانا ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی اور مولانا شفیق احمد بستوی کے علاوہ راقم الحروف بھی شامل ہے۔ کورس کے نصاب میں خطابت کی اہمیت و مقصدیت اور اس کے ضروری آداب اور تقاضوں کے علاوہ عصر حاضر کے مسائل، موجودہ عالمی، فکری و تہذیبی کشمکش، عالم اسلام کی علمی و فکری مشکلات اور اسلامائزیشن کی معروضی صورت حال اور مستقبل کے امکانات جیسے اہم موضوعات شامل ہیں اور سال کے تعلیمی دورانیے کا اکثر حصہ مکمل ہو کر اب یہ پروگرام تیسرے سمسٹر کے آخری مراحل میں ہے۔ پہلا سال ایک لحاظ سے تجرباتی سال ہے اور مجلس صوت الاسلام پاکستان اس تجربہ کی روشنی میں بہتر اصلاحات کے ساتھ اسے اگلے سال بھی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کے پروگرام کا اعلان ہو چکا ہے۔
اس کے ساتھ ہی مجلس نے دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان تقریری مقابلوں کا بھی اعلان کیا ہے، جس میں رمضان المبارک سے قبل مختلف شہروں میں علاقائی سطح پر اور رمضان المبارک کے بعد قومی سطح پر اسلام آباد میں تقریری مقابلہ منعقد کرنے کا پروگرام ہے۔ جبکہ قومی مقابلہ میں اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کے لیے بالترتیب دس لاکھ روپے، پانچ لاکھ روپے اور تین لاکھ روپے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ پرکشش اعلان سن کر میرا جی بھی للچایا ہے کہ اگلے سال تدریس کی چھٹی کر کے کسی مدرسہ میں بطور طالب علم داخلہ لے لوں، لیکن عمر کی حد کی قید اس میں رکاوٹ بن گئی ہے۔
”خطابت“ ابلاغ کے ذرائع میں سے ایک اہم اور مؤثر ذریعہ ہے، جو اس وقت سے جاری ہے جب سے انسان اس دھرتی پر آباد ہے۔ منطقی حضرات تو انسان کی تعریف ہی ”حیوان ناطق“ سے کرتے ہیں کہ وہ جانور جسے اللہ تعالی نے منطق اور گویائی کی قوت سے نوازا ہے اور اسی نطق اور گویائی کا نقطہ کمال خطابت کہلاتا ہے۔
خطابت کی اہمیت کا تذکرہ آسمانی مذاہب اور وحی الٰہی میں موجود ہے۔ قرآن کریم نے حضرت نوح علیہ السلام کا فصیح و بلیغ خطبہ نقل کیا ہے، جس میں وہ اپنی صدیوں کی محنت اور دعوت پر قوم کی بے حسی کا شکوہ کر رہے ہیں اور حضرت مریم علیہا السلام کی گود میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معصومانہ خطبہ بھی قرآن کریم میں موجود ہے، جس میں انہوں نے معجزانہ طور پر اپنی مقدسہ ماں کی معصومیت اور پاک دامنی کی گواہی دی ہے۔ دیگر بہت سے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے خطبات کی جھلکیاں بھی قرآن کریم نے پیش کی ہیں، جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خطابت اور حسنِ تکلم پر تو ان کے مخالفین کے پاس اسے ”جادو“ کا عنوان دینے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہ گیا تھا، جو جادو تو نہیں تھا مگر محاورتاً ”جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے“ کا مصداق ضرور نظر آ رہا تھا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ میں خطباء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جنہوں نے خطابت کو اسلام کی دعوت اور دفاع کے لیے ذریعہ اور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اس دور کے ذرائع ابلاغ کی تاریخ میں اسلامی خطابت اور شاعری کے ایک مستقل باب کا اضافہ کیا۔ انصارِ مدینہ کے ایک معروف صحابی حضرت ثابت بن قیسؓ نے ”خطیب الاسلام“ اور خاتون صحابیہ اسماء بنت یزیدؓ نے ”خطیبۃ الانصار“ کا خطاب حاصل کیا ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کا شمار بھی اپنے دور کے ممتاز خطباء میں ہوتا تھا اور شعر و ادب کی دنیا میں انہیں امتیازی مقام حاصل تھا۔
برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں فرنگی استعمار کے تسلط کے بعد ملتِ اسلامیہ میں آزادی کا جذبہ اور حریت کا ولولہ بیدار رکھنے کے لیے جن مسلم خطباء نے خطابت کے میدان میں نمایاں جوہر دکھائے، ان میں مولانا ابو الکلام آزادؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا ظفر علی خانؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے نام سرفہرست ہیں، جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی فکری بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔
لیکن کچھ عرصہ سے یہ خطابت مذہبی محاذ پر اضمحلال کا شکار ہو رہی ہے اور کم و بیش تین عشرے قبل تک اس خطابت میں سنجیدگی، مطالعہ، مقصدیت، ذہن سازی اور ادب و شعر کے عمدہ ذوق کے جو پہلو نمایاں دکھائی دیتے تھے ان کا تناسب کم ہوتا جا رہا ہے، جبکہ جذباتیت، سطحیت اور لفاظی نے ان عناصر کی جگہ لے رکھی ہے۔ خطیب کو معاشرتی شعور سے جس درجہ میں بہرہ ور ہونا چاہیے اور اس کے دامن میں مستند دینی معلومات کے ساتھ ساتھ دنیا کے احوال و حالات حاضرہ کا جو معلوماتی ذخیرہ اپنے تمام تر تنوع کے ساتھ موجود ہونا چاہیے، وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ خطابت آج بھی دین کی دعوت اور دفاع کا اہم ترین ذریعہ ہے اور عصری ذرائع ابلاغ کے تمام تر ارتقاء کے باوجود علماء کے پاس منبر و محراب کا جو مورچہ موجود ہے اس کی اہمیت و افادیت بدستور قائم و مسلم ہے۔
حتیٰ کہ دیگر ضروریات کے علاوہ خود خطابت کے اسلوب نے حالاتِ زمانہ کے ساتھ جو تغیر اختیار کر لیا ہے، اس کی طرف اکثر خطباء کی توجہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک بات میں اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ آج سے پون صدی قبل کی خطابت میں مولانا ابو الکلام آزادؒ اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا سکہ چلتا تھا۔ مولانا آزادؒ مشکل الفاظ، نادر تراکیب، علمی لہجہ اور بھاری بھر کم جملوں کے ساتھ سامعین پر چھا جاتے تھے، جبکہ امیر شریعتؒ گھنٹوں تک سننے والوں کو اپنی خطابت سے مسحور رکھتے تھے۔ مگر آج کی خطابت یہ ہے کہ کتنے سادہ لہجے، بے تکلفانہ انداز اور آسان الفاظ میں کم سے کم وقت میں آپ اپنا پیغام کامیابی کے ساتھ سامعین تک منتقل کر سکتے ہیں۔
مجلس صوت الاسلام پاکستان کی یہ محنت انہی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے علماء کرام کی نئی پود کو دین کی دعوت اور دفاع میں ابلاغ کے اس اہم ذریعہ سے صحیح استفادہ کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے کامیابی اور ثمرات سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔