راقم الحروف نے چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام ۷ نومبر ۱۹۹۷ء کو جنرل پوسٹ آفس گوجرانوالہ سے ارجنٹ میل سروس (رسید نمبر ۷۷۶) کے ذریعے ایک عریضہ ارسال کیا ہے جس کا مضمون قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’گزارش ہے کہ روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی نے ۵ نومبر ۱۹۹۷ء کی اشاعت کے لوکل ایڈیشن میں ص ۳ پر ایک خبر شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تھانہ پیر ودھائی (راولپنڈی) پولیس نے ۲۹ اکتوبر ۱۹۹۷ء کو ایک ہوٹل پر چھاپہ مار کر رئیس خان، محفوظ اور شاہین بی بی نامی تین افراد کو بدکاری کے الزام میں گرفتار کیا اور ان کے خلاف حدود آرڈیننس کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ لیکن جب ان ملزموں کو ریمانڈ کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو مجسٹریٹ موصوف نے پولیس کی اس کاروائی کو نجی معاملات میں مداخلت، انسانی حقوق کے منافی، اور دستور پاکستان کی دفعہ ۱۴ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مقدمہ ڈسچارج کر دیا اور ملزموں کو رہا کرنے کا حکم صادر کیا۔
اس حوالہ سے میری درخواست ہے کہ وفاقی شرعی عدالت میں اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ
- کیا حدود آرڈیننس کے ضمن میں آنے والے جرائم قابلِ دست اندازئ پولیس نہیں ہیں؟
- کیا کسی ہوٹل میں مرد اور عورت کا قابل اعتراض اختلاط ’’نجی معاملات‘‘ کے دائرہ میں شامل ہے؟
- کیا مذکورہ کیس میں پیر ودھائی تھانہ کی کاروائی شرعی لحاظ سے ناجائز، اور جوڈیشل مجسٹریٹ کا فیصلہ قرآن و سنت کی رو سے درست ہے؟
امید ہے کہ آنجناب اس معاملے کا نوٹس لے کر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شرعی قوانین کی پاسداری کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہتمام فرمائیں گے، بے حد شکریہ!