(۱۸ شوال المکرم ۱۴۳۲ھ کو جامعہ نصرۃ العلوم کے نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر اساتذہ و طلبہ سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج ہم بحمد اللہ تعالیٰ اپنے نئے تعلیمی سال کا آغاز کر رہے ہیں اور اس پر میں مدرسہ کی انتظامیہ، اساتذہ، طلبہ اور معاونین سب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ یہ گلشن علم ہمارے بزرگوں کی بالخصوص حضرات شیخینؒ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کی یادگار اور ان کا صدقۂ جاریہ ہے۔ ان بزرگوں نے اپنے دیگر رفقاء کے ساتھ جس خلوص، محنت اور لگن سے اس گلشن علم و فکر کی آبیاری کی، اگر ہم کسی موقع پر ان کا نام نہ لیں تب بھی اس مرکز میں ہونے والے ہر علمی و دینی کام کے ثواب و اجر کے اولین مستحق وہی ہیں۔ لیکن یہ ہم پر ان کا حق ہے کہ ہم ان کا نام بھی لیں، ان کا تذکرہ کریں اور بارگاہِ ایزدی میں ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کرتے رہیں، اس لیے کہ ہم آج جو کچھ بھی ہیں انہی کی وجہ سے ہیں اور ان کی برکت کے باعث ہیں۔ ہمارا تعارف اور ہماری عزت انہیں بزرگوں کی وجہ سے ہے ورنہ ہمارا حال وہی ہے جو غالب مرحوم نے کہا تھا۔
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
ہمارے ایک بڑے بزرگ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اپنے خطاب میں اکثر کہا کرتے تھے ’’کبرنی موت الکبراء‘‘ کہ مجھے بڑوں کی موت نے بڑا بنا دیا ہے۔ مگر وہ اس کے ترجمہ میں ایک چھوٹے سے جملے کا اضافہ کر دیا کرتے تھے جس سے اس معنویت میں اضافہ ہو جاتا تھا اور میں خاص طور پر اس سے بہت محظوظ ہوا کرتا تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ ’’بڑوں کی موت نے ہم جیسوں کو بھی بڑا بنا دیا‘‘۔ حضرت درخواستیؒ تو کسرِ نفسی کرتے تھے مگر سچی بات یہ ہے کہ ہمارا معاملہ فی الواقع اسی طرح کا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرات شیخینؒ اور ان کے رفقاء کے آباد کردہ اس گلشن کو ہمیشہ آباد رکھیں، ہمیں اس کی آبیاری کرتے رہنے کی توفیق دیں، اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین۔ میں تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر عزیز طلبہ کو برکت کے لیے درسگاہ نبویؐ کے دو طلبہ کا واقعہ سنانا چاہتا ہوں کہ ہمارے لیے راہ نمائی کا سرچشمہ وہی لوگ ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ
حضرت عبد اللہ بن مسعوؓد فرماتے ہیں ’’انا سادس فی الاسلام‘‘ میں نے چھٹے نمبر پر اسلام قبول کیا تھا۔ ان کے قبولِ اسلام کا واقعہ مؤرخین نے کچھ اس طرح لکھا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ اور سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ ایک دن دوپہر کے وقت مکہ مکرمہ کی کسی پہاڑی پر جا رہے تھے، دوپہر کا وقت تھا، گرمی تھی، انہیں پیاس محسوس ہوئی تو اردگرد پانی تلاش کیا جو نہ ملا۔ قریب ہی ایک لڑکا بکریاں چرا رہا تھا، اس کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ پھر پوچھا کہ کوئی بکری دودھ والی ہے تو اس کا دودھ پلا دو۔ لڑکے نے کہا کہ دودھ والی بکریاں ہیں لیکن دودھ نہیں پلاؤں گا اس لیے ’’انا امین‘‘ کہ میں امین ہوں، بکریاں میری نہیں ہیں اور مالک کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔ یہ لڑکا حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ تھے جو عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ نبی اکرمؐ نے پوچھا کہ کوئی ایسی بکری بھی ہے جس کا دودھ خشک ہو چکا ہو، اس لڑکے نے جواب دیا کہ ہاں اس قسم کی بکریاں ہیں۔ آنحضرتؐ نے ان میں سے ایک بکری منگوائی اور اس کے تھنوں پر ہاتھ رکھ کر اللہ تعالیٰ کا نام لیا تو اس کے تھن دودھ سے بھر گئے۔ نبی اکرمؐ نے دودھ دوہ کر خود بھی پیا اور حضرت صدیق اکبرؓ کو بھی پلایا پھر بکری کے تھنوں پر ہاتھ رکھا تو وہ پہلے کی طرح خشک حالت میں واپس چلے گئے۔ یہ جناب نبی اکرمؐ کا معجزہ تھا اور ایسے اور بھی بہت سے معجزات احادیث میں مذکور ہیں۔
شام کو حضورؐ واپس گھر تشریف لا رہے تھے تو وہ لڑکا راستے میں انتظار میں کھڑا تھا۔ پوچھا کیسے آئے ہو؟ جواب دیا کہ آپ نے آج دن کے وقت ایک خشک تھنوں والی بکری کے تھنوں پر ہاتھ رکھ کر کچھ پڑھا تھا جس سے بکری کے خشک تھن دودھ سے بھر گئے تھے میں وہ منتر سیکھنے آیا ہوں۔ نبی اکرمؐ اس کی بات سن کر مسکرائے اور فرمایا ’’انک غلام معلَّم‘‘ کہ تم تو پڑھائے ہوئے لڑکے ہو۔ محدثین ؒ فرماتے ہیں کہ یہ جملہ جناب نبی اکرم ؐ نے لڑکے کی دو باتوں پر خوش ہو کر حوصلہ افزائی کے لیے فرمایا تھا۔ ایک بات تو اس کا وہ صبح والا جملہ تھا کہ انا امین اور دوسرا اس کا کچھ سیکھنے کا جذبہ تھا جو اسے آپؐ کی خدمت میں لے آیا تھا۔ حضورؐ نے لڑکے سے فرمایا تم میرے پاس آیا کرو ۔
میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ باقی حضرات صحابہ کرامؓ تو حضور علیہ السلام کی خدمت میں ایمان قبول کرنے کے لیے آئے تھے مگر یہ لڑکا پڑھنے اور سیکھنے کیلئے آیا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت سے بھی نوازا اور علم میں بھی بلند مقام پر فائز کیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کے بعد جس لگن اور شوق کے ساتھ علم حاصل کیا اس نے انہیں امت کے فقہاء کا سردار بنا دیا۔ احادیث میں مذکور ہے کہ یہ طالب علم مختلف القاب سے پکارا جاتا تھا۔ ’’صاحب النعلین، صاحب السواک، صاحب السوریٰ، صاحب المطھرۃ‘‘ جیسے القاب مختلف احادیث میں ان کے لیے مذکور ہیں۔ یہ واحد نوجوان ہیں جنہیں پردہ کے احکام اترنے کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ جناب نبی اکرمؐ کے گھر میں آنے کے لیے ان کے لیے استیذان کی شرط نہیں ہے، انہیں اجازت تھی کہ جب نبی اکرمؐ کے گھر کا دروازہ کھلا ہو اور اندر سے نبی اکرمؐ کی آواز آرہی ہو تو وہ اجازت مانگے بغیر اندر جا سکتے ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم یمن سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو عبد اللہ بن مسعودؓ کے جناب نبی اکرمؐ کے گھر میں کثرت سے آنے جانے کی وجہ سے کافی عرصہ تک ہم انہیں رسول اللہؐ کے خاندان کا فرد سمجھتے رہے۔
تاریخی روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں کوفہ نئے شہر کے طور پر آباد ہوا تو وہاں سے ایک وفد نے امیر المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ شہر بس گیا ہے، بازار، مساجد اور دیگر مقامات بارونق ہو گئے ہیں مگر ایک کمی محسوس ہوتی ہے کہ کوئی بڑا مسئلہ پیش آتا ہے تو راہ نمائی کے لیے مدینہ منورہ آنا پڑتا ہے جو مشکل کام ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ اپنے اعتماد کا کوئی بڑا عالمِ دین وہاں بھجوا دیں جس سے ہم وہیں راہ نمائی حاصل کر لیا کریں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ایک عالم میں نے اپنی ضرورت کے لیے رکھا ہوا ہے لیکن وفد کو خالی ہاتھ بھیجنا مناسب نہیں ہے اس لیے وہ عالم میں تمہارے ساتھ روانہ کرتا ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو امیر المؤمنینؓ نے پابند کر رکھا تھا کہ وہ انہیں بتائے بغیر مدینہ منورہ سے باہر نہ جائیں، یہ سزا نہیں تھی بلکہ ان کا ایک طرح سے اعزاز تھا کہ مشورہ کے لیے امیر المؤمنینؓ کو کسی وقت بھی ان کی ضرورت پڑ سکتی تھی اور اسی لیے یہ پابندی لگائی گئی تھی۔ یہ کہہ کر حضرت عمرؓ نے انہیں بلایا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی ظاہری ہیئت یہ تھی کہ چھوٹا سا قد، دبلا پتلا جسم، چھوٹا سا سر اور اس پر بڑی پگڑی۔ انہیں اس کیفیت میں دیکھ کر وفد کا سربراہ ہنس پڑا اور کہا ’’اتستھزئ بنا یا امیر المومنین؟‘‘ کہ امیر المؤمنین آپ ہمارے ساتھ استہزا کر رہے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں استہزا نہیں کر رہا بلکہ یہ شخص جو تمہیں نظر آرہا ہے سر کے بالوں سے پاؤں کے تلووں تک سراپا علم ہے اور یہ علم کا بھرا ہوا برتن ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ
دوسرا تذکرہ درسگاہ نبویؐ کے ایک اور طالب علم حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ کے وصال کے وقت میں پندرہ سال کا تھا، مجھے احساس ہوا اور میں نے ایک ہم عمر انصاری صحابی کے سامنے اس کا ذکر کیا کہ اس وقت تو بڑے بڑے صحابہ کرامؓ موجود ہیں اور لوگ دینی و علمی راہ نمائی کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں لیکن بیس تیس سال کے بعد جب یہ بڑے صحابہ کرامؓ موجود نہیں ہوں گے، اگر اس وقت ہم موجود ہوئے تو لوگ ہمیں بڑا سمجھ کر ہمارے پاس آئیں گے اور راہنمائی کے طالب ہوں گے اس لیے ہمیں وقت سے فائدہ اٹھا کر اکابر صحابہ کرامؓ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے اور اپنا علم مکمل کرنا چاہیے تاکہ کل جب لوگ ہم سے رجوع کریں تو ہمیں شرمندگی نہ ہو۔ فرماتے ہیں کہ میں اپنے ہم عمر انصاری صحابی ؓ کو اس بات پر قائل نہ کر سکا، اس نے کہا کہ بڑے بڑے صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں ہمیں کون پوچھے گا؟ مگر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے تنہائی میں یہ عمل شروع کر دیا، جن صحابی کے بارے میں مجھے معلوم ہوتا کہ علم کی فلاں بات وہ جانتے ہیں تو میں ان کی خدمت میں جاتا اور وہ علم حاصل کرتا۔
فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ سے یہ بات معلوم کرنے کے لیے مجھے ایک سال تک مناسب موقع کا انتظار کرنا پڑا کہ سورۃ التحریم میں ’’ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما‘‘ میں کن دو عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور جب میں نے موقع پا کر یہ سوال کیا اور عرض کیا کہ اس سوال کے لیے ایک سال تک موقع کی تلاش میں رہا ہوں تو حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ اس آیت کریمہ میں حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اور انہوں نے مجھ پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ سوال کرنے میں تاخیر کیوں کی اور فرمایا کہ جب کوئی بات معلوم کرنی ہو تو بلا جھجھک پوچھ لیا کرو۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میرا معمول تھا کہ جب کسی بزرگ کے پاس کوئی بات معلوم کرنے کے لیے جاتا تو ان کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتا تھا بلکہ دروازے سے باہر ایک طرف کھڑا ہو کر انتظار کرتا تھا کہ جب اپنے معمول کے مطابق باہر آئیں گے تو پوچھ لوں گا، اس لیے کہ میں اپنی ضرورت کے لیے آیا ہوں انہیں تنگ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ کبھی کبھی زیادہ وقت گزر جاتا تو دروازے سے باہر ایک طرف چادر بچھا کر انتظار میں بیٹھ جاتا تھا اور کبھی کبھار لیٹ بھی جایا کرتا تھا اور جب وہ اپنے معمول کے مطابق آتے تو ان سے وہ بات معلوم کرتا جس کے لیے حاضر ہوا تھا۔ فرماتے ہیں کہ بعض بزرگ میری اس بات پر ناراض ہوتے اور کہتے کہ تم جناب رسول اللہؐ کے چچا زاد ہو اس لیے تمہارا حق ہے کہ کوئی ضرورت ہو تو ہمیں اپنے پاس بلاؤ۔ لیکن اگر خود ہی آتے ہو تو دروازہ کھٹکھٹا کر ہمیں مطلع کیا کرو، یہ باہر اتنی دیر انتظار میں کیوں کھڑے رہتے ہو اور چادر بچھا کر گلی میں کیوں بیٹھ جاتے ہو؟ میں انہیں بتاتا ہوں کہ میں اپنی غرض سے آیا ہوں آپ کو تنگ کرنا مجھے مناسب نہیں لگتا۔
حضرت ابن عباسؓ دراصل یہ بات بتا کر اپنے شاگردوں کو سمجھا رہے ہیں کہ آج میں تمہارے سامنے اس کیفیت میں بیٹھا ہوں کہ دنیا بھر سے لوگ میرے پاس آتے ہیں تو وہ ایسے ہی بلا سبب نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے طلب اور محنت ہے۔
ان دو اصحاب رسولؓ کا تذکرہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ علم کے حصول کا راستہ یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی پیروی کی توفیق دیں اور یہ تعلیمی سال ہمیں شوق و ذوق اور محنت کے ساتھ اچھے طریقہ سے مکمل کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔