روزنامہ پاکستان لاہور ۱۰ دسمبر ۲۰۰۱ء کی خبر کے مطابق سعودی عرب کی حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے ۴۵ ارب ریال کے خسارے کے بجٹ کا اعلان کیا ہے۔ اور خسارے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کے بعد عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے ’’اریبک‘‘ نے تیل کی پیداوار کم کر دی ہے اور اس مد میں سعودی عرب کو جس آمدنی کی توقع تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ سال سعودی عرب کی معیشت انتہائی مشکلات کا شکار ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ ایک طرف سرکاری محاصل میں کمی ہو رہی ہے اور دوسری طرف اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ بجٹ کا ۷۵ فیصد حصہ تنخواہوں میں چلا جائے گا۔
سعودی عرب دنیائے اسلام کا وہ ملک ہے جو تیل اور سونے کے ذخائر سے مالامال ہے اور امیر ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن امریکہ کے ساتھ وابستگی اور عالمی مالیاتی نظام کی غیر مشروط تابعداری نے اسے اس مقام پر پہنچایا ہے کہ اس کے بجٹ کے خسارے اور معاشی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے ہمارے پاکستانی حکمرانوں کی ان توقعات اور امیدوں کے انجام کا بھی بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے جو اس امید پر امریکہ کی خوشنودی کے لیے ہر قربانی دیتے چلے جا رہے ہیں کہ اس سے پاکستان کی معاشی حالت سدھر جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے عالمِ اسلام کو تیل، گیس، معدنیات اور دیگر قیمتی ذخائر کی جس عظیم دولت سے نوازا ہے اگر مسلم حکمران اس کی قدر کرتے اور مغربی تہذیب کے سراب کے پیچھے بھاگتے چلے جانے کی بجائے اپنے ملی تشخص کو باقی رکھتے ہوئے اپنے وسائل سے خود استفادہ کرنے کی صلاحیت اور استعداد پیدا کر کے اسے استعمال میں لاتے تو آج عالمِ اسلام کو یہ روزِ بد نہ دیکھنا پڑتا۔ آج بھی وقت ہے کہ عالمِ اسلام کے حکمران عبرت حاصل کریں، مغرب کی نقالی اور دریوزہ گری کرنے کی بجائے اپنی اجتماعی قوت کو اجاگر کریں، اور دینی و نظریاتی اساس پر ملی مرکزیت کا احیا کریں۔ ورنہ وہ استحصالی قوتوں کی لوٹ مار کا اس طرح شکار ہوتے رہیں گے، اور عالمِ اسلام کے وسائل یونہی عالمی لٹیروں کی قہر سامانیوں کا ذریعہ بنے رہیں گے۔